الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی نبیہ الأمین وصحبہ أجمعین أما بعد۔
’’سلفیت کا تعارف‘‘ یہ عنوان اس قدر وسیع، ہمہ گیر اور تفصیل طلب ہے کہ اس کو چند الفاظ، چند سطور اور چند صفحات میں سمیٹ لینا ممکن نہیں ہے، میں نے اپنی وسعت اور مقدور بھر کوشش کی ہے کہ اس کا ایک واضح اور شفاف تصور اور خاکہ آپ کے سامنے رکھ دوں، مجھے اپنی کوشش میں کتنی کامیابی ملی ہے اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔
سلف کس کو کہتے ہیں، سلف کا لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟ سلف کی اتباع کیوں اور کیسے ہو؟ سلفی نسبت جائز ہے یا ناجائز؟ سلفیت کی ابتدا کب ہوئی؟ اور اس کی قدامت پر علماء امت کیا کہتے ہیں؟ ان تمام پہلوؤں پر میرے نہایت مشفق دوست ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ (سابق شیخ الجامعہ السلفیہ بنارس) نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ اپنی کتاب ’’سلفیت کا تعارف‘‘ میں بھر پور روشنی ڈال دیا ہے۔ اور وہ کتاب ہر جگہ دستیاب بھی ہے، علم کے شائقین کہیں سے بھی حاصل کر کے اپنے علم و مطالعہ میں اضافہ کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی چند اور کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا، مثلا: خطیب بغدادی کی ’’شرف اہل الحدیث‘‘، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘، علامہ عبدالجلیل سامرودی کی ’’الباعث الحثیث فی فضل اہل الحدیث‘‘، علامہ ابوالقاسم سیف بنارسی کی ’’ایضاح الطریق‘‘ اور ’’خطبہ صدارت ’’سواء الطریق‘‘، علامہ ابراہیم سیالکوٹی کی ’’تاریخ اہل حدیث‘‘ مولانا ارشاد الحق اثری کی ’’پاک و ہند میں علماء اہل حدیث کی خدمات حدیث‘‘، مولانا قاضی اسلم سیف کی ’’تاریخ اہل حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی کی ’’بر صغیر میں اہل حدیث کی آمد‘‘، ڈاکٹر بہاء الدین کی ’’تاریخ اہل حدیث ج اول‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
میں سلفیت کی قدامت اور اصابت پر قدرے مختلف انداز میں روشنی ڈالنے کی ایک ادنی کوشش کر رہا ہوں، پیرویٔ قیس و فرہاد سے ذرا ہٹ کر اپنا ایک طرز جنوں، آہ و فغاں اور نالہ و فریاد ہے:
’’رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ۔ وَیَسِّرْ لِیْ أَمْرِیْ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِیْ۔ یَفْقَہُوا قَوْلِیْ‘‘(طہ:۲۵-۲۸)
سلفیت، اہل حدیثیت، محمدیت، اثریت، موحدیت یہ سب ایک ہی فکر و عمل اور نقطۂ نظر کی مختلف تعبیریں ہیں اور آج دنیا کے مختلف ممالک میں ان کے ماننے والے اور ان الفاظ کے ساتھ نسبت رکھنے والے کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
اسلام کی صحیح ترین اور سچی تعبیر سلفیت اور اہل حدیث سے ہی ہو سکتی ہے، جس طرح تمام مذاہب میں، مذہب اسلام نمایاں اور خصوصیت کا حامل ہے، اسی طرح سلفیت یا اہل حدیثیت اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہے اور تمام مسالک اور مکتبۂ فکر میں طرۂ امتیاز کی حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح تمام مذاہب کے ماننے والے اسلام پر ہر چہار جانب سے حملہ آور ہیں اور اسلام کی آواز کو دبا دینا چاہتے ہیں، ٹھیک اسی طرح تمام مسالک اور نقطۂ نظر و مکتبہ فکر کے افراد اور ان کے حاملین سلفیت کو زمین میں دفن کردینا چاہتے ہیں۔
لیکن جس طرح اللہ رب العزت نے اسلام کی حفاظت اور اس کی صیانت اپنے ذمہ لے لیا ہے:
’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ‘‘(الحجر:۹)
جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کا بول بالا رہے گا اور اس کا چراغ قیامت تک جلتا رہے گا
’’یُرِیْدُونَ لِیُطْفِؤُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔ ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ۔‘‘(الصف:۸-۹)
اور اسلام کی روشنی ہر گھر میں پہنچ کر رہے گی، جیسا کہ ہمارے نبی امی فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دے دی ہے:
لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ، وَلَا یَتْرُکُ اللَّہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللَّہُ ہَذَا الدِّینَ۔(مسند احمد:۱۷۸۲،۲۴۴۱۵)
اسی طرح سلفیت اور اہل حدیثیت کے ماننے والے اور اس پر عمل کرنے والے قیامت تک باقی رہیں گے، ان شاء اللہ، اور اس کی بھی خبر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ساتھ دیا ہے:
’’لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاہِرِینَ عَلَی الْحَقِّ‘‘ (مسلم:۱۵۶، بخاری:۷۳۱۱)
میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ سلفیت اسلام کی صحیح ترین اور سچی تعبیر ہے، اس کی نسبت کسی علاقہ، گاؤں، شہر اور شخص کی طرف نہیں ہے، اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ جب کوئی شخص اپنے کو حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کہتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو ان چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی چہار دیواری میں محصور کر لیتا ہے، اب اس کے فکر و عمل کا زاویہ اور اس کے علم کا مبلغ و منتہا اس سے آگے نہیں جا سکتا ہے، لیکن جب کوئی اپنے آپ کو سلفی کہتا ہے تو وہ ان چاروں اماموں کو بیک وقت تسلیم بھی کرتا ہے اور ان کا پورا پورا احترام رکھتا ہے اور ان کے علم سے استفادہ بھی کرتا ہے، ان کی جو باتیں کتاب و سنت کے مطابق ہوتی ہیں، ان کو گلے لگاتا ہے اور جو باتیں کتاب و سنت سے ٹکراتی ہیں اور مطابقت نہیں رکھتی ہیں تو ان کو ان کے ہی قول کے مطابق چھوڑ دیتا ہے۔ ’’اترکوا قولی بقول الرسول‘‘ اور ’’اذا صح الحدیث فھو مذھبی‘‘ سلفیت اسلام کی ایک ایسی چنگاری ہے جو ڈھیر ساری راکھ میں دبی ہوئی تو ہو سکتی ہے مگر بجھ نہیں سکتی ہے، اور جس دن سے فاران کی چوٹی سے توحید خالص کا اعلان ہوا، اسی وقت سے اس کے ماننے والے پائے جاتے رہے ہیں اور مختلف زمان و مکان میں ان کو مختلف الفاظ اور مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ہے، منصور اور ہارون رشید کے زمانے میں جب مختلف افکار و نظریات سامنے آنے لگے تو ان کو ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ سے یاد کیا جانے لگا، پھر جب متکلمین اور فلاسفہ کی موشگافیاں اپنے بال و پر نکالنے لگیں تو اس کے ماننے والوں کو پھر پناہ گاہ اور جائے پناہ تلاش کرنا پڑی اور اسی کا نام ہے محمدی، اہل الحدیث، اہل الاثر، موحد اور سلفی وغیرہ وغیرہ۔
’’یہ عجیب بات ہے کہ اہل حدیث (سلفی) کا تصور دینی جس درجہ سادہ، سمجھ میں آنے والا اور قلب و روح کو حرارت و تپش عطا کرنے والا ہے یار لوگوں نے اتنا ہی اسے الجھا دیا ہے اور اس کے بارے میں ایسی ایسی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ سوال کم پڑھے لکھے یا جہال کا نہیں، اچھے خاصے علماء کا ہے، ان حلقوں میں اگر کسی جانی پہچانی شخصیت کے بارے میں بھی بھولے سے کسی نے یہ کہہ دیا یا لکھ دیا کہ صاحب وہ تو وہابی، غیر مقلد یا اہل حدیث ہے تو نہ پوچھیے صرف اتنا کہہ دینے سے اس سے متعلق طبیعت کس تیزی سے بدل جاتی ہے اس کے خلاف نفرت و تعصب کے کتنے طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں نفرت و تحقیر کا یہ بادۂ تلخ انگریز کے استعماری مصالحہ کے علاوہ اور کن کن مقدس ہاتھوں سے کشید ہوا ہے؟ اور تہمت طرازی کی اس سازش میں کس کس نے حصہ لیا ہے؟ کن کن عناصر نے اہل حدیث کے خلاف اس نفسیاتی مہم کو چلانے میں کامیاب کردار ادا کیا ہے؟ یہ ایک مستقل اور علیحدہ موضوع ہے، جو مخصوص تحقیق و التفات چاہتا ہے، کیوں کہ ’’اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں‘‘، تاہم اتنی بات کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نفرت کی یہ مہم پورے زور شور اور تنظیم کے ساتھ آج بھی جاری ہے، حالانکہ جماعت اہل حدیث کے عقائد و سرگرمیاں اور کارنامے کوئی چیز بھی توڈھکی چھپی نہیں اور کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جس میں اسلامی نظریہ و تصور سے کسی درجے میں بھی انحراف پایا جائے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فقہ ہو، یا کلام، تفسیر ہو یا حدیث، دین کے معاملے میں ادنی انحراف کو بھی برداشت کرنے کے لیے ہم تیار نہیں، ہمارا سیدھا سادا عقیدہ یہ ہے کہ حق و صداقت کو صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ہی میں محصور و منحصر مانو اور سعی و عمل یا فکر و عقیدے کا جب بھی کوئی نقشہ ترتیب دو تو تابش وضو کے لیے اسی آفتاب ہدایت کی طرف رجوع کرو جس کو اللہ تعالی نے ساری کائنات انسانی کے لیے سراج منیر ٹھہرایا ہے۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِداً وَمُبَشِّراً وَنَذِیْراً ۔ وَدَاعِیْاً إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجاً مُّنِیْراً۔(الاحزاب:۴۶-۴۵)
یہاں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ہم کسی طرح بھی تاریخی ارتقا کے منکر نہیں اور زمانے کے ناگزیر تقاضوں کے تحت فقہ و کلام کے سلسلے میں ہمارے یہاں جلیل القدر علماء اور ائمہ نے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان سے ذرہ برابر صرف نظر کو ہم جائز تصور نہیں کرتے، ہمارے نزدیک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فکری و آہنی کاوشیں، امام شافعی کے اصول فقہ و حدیث کے معرکے، امام مالک کا اصحاب مدینہ کے تعامل کو دست برد زمانہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لینا، اور امام احمد بن حنبل کی جمع حدیث کی وسیع تر کوششیں، ہماری تہذیبی انفرادیت کا زندہ ثبوت ہیں اور یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن پر ہم جس قدر بھی فخر و ناز کریں کم ہے، ہم حق کو ان سب مدارس فکر میں، جن کی ان بزرگوں نے بنیاد رکھی دائر و سائر تو مانتے ہیں لیکن محصور و منحصر کسی میں بھی نہیں جانتے،کیوں کہ ہمارے نقطۂ نگاہ سے صحت و صواب کی استواریاں غیر مشروط طور پر صرف کتاب اللہ اور سنت رسول کے ساتھ خاص ہیں۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً۔(النساء:۵۹)
ہمارے عقیدے کی رو سے استدلال و تاویل کا یہی دو چیزیں نقطۂ آغاز ہیں اور یہی نقطۂ آخر، دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ سورہ نساء کی اس آیت کو ہم قانونی اساس سمجھتے ہیں، اس آیت ہی کے لب و لہجے میں علماء سے کہتے ہیں کہ ہر متنازع فیہ مسئلے میں اول و آخر کتاب وسنت ہی کی طرف رجوع کیجیے، تقلید و عدم تقلید کی اصطلاح میں پڑے بغیر کہ اس میں قدرے الجھاؤ اور جھول ہے، ہم محبت و وفا کی زبان میں دعوی داران عشق رسول سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اللہ را آپ ہی بتائیے اگر کسی گروہ نے یہ فیصلہ ہی کر لیا ہو کہ طلب و آرزو کے دامن کو وہ صرف انہی گل بوٹوں سے سجائے گا جو قرآن و سنت کے سدا بہار دبستان میں نظر افروز ہیں اور اگر کچھ لوگوں نے از راہ شوق یہی مناسب جانا ہو کہ ان کی نظر اگر کسب ضو کرے گی تو انہی انوار و تجلیات سے جو چہرۂ نبوت کی زیب و زینت ہیں، یا زمان و مکان کے فاصلوں کو ہٹاکر اگر کوئی بے تاب اور متجسس نگاہ اسی جمال جہاں آرا کا براہ راست مشاہدہ کرنا چاہتی ہے جس کی جلوہ آرائیوں نے عشاق کے دلوں میں پہلے پہل ایمان و عمل کی شمعیں فروزاں کیں، تو آیا کوئی جرم، گناہ یا معصیت ہے؟ اور اگر یہ جرم اور معصیت ہے تو ہمیں اقرار ہے کہ ہم وابستگان دامن رسالت اور اسیران حلقہ نبوت مجرم اور گناہ گار ہیں۔
تقلید و عدم تقلید کا مسئلہ در اصل فنی و علمی سے زیادہ نفسیاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹھیٹھ اسلام کی روسے ہماری اولین ارادت کا مرکز کون ہے؟ ہماری پہلی اور بنیادی وابستگی کس سے ہونا چاہیے اور پیش آمدہ مسائل میں مشکلات کے حل و کشود کے سلسلے میں ہمیں اول اول کس کی طرف دیکھنا چاہیے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول کی چشم کشا اور ابدی تعلیمات کی طرف یا فقہی مدارس فکر کی وقتی اور محدود تعبیرات کی طرف؟ اس سے قطع نظر کہ تقلید سے فکر و نظر کی تازہ کاریاں مجروح ہوتی ہیں اور اس سے بھی قطع نظر کہ اس سے خود فقہ و استدلال کے قافلوں کی تیز رفتاری میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور تہذیب و فن کی وسعتیں، زندگی، حرکت و ارتقا سے محروم ہو جانے کے باعث حد درجہ سمٹاؤ اختیار کر لیتی ہے۔ اصل نقص اس میں یہ ہے کہ اس سے عقیدت و محبت کا مرکز ثقل یکسر بدل جاتا ہے، یعنی بجائے اس کے کہ ہماری ارادت و عقیدت کا محور و قبلہ اول و آخر کتاب اللہ اور سنت رسول ہے ہماری عصبیتیں مخصوص فقہی مدارس سے وابستہ ہوکر رہ جاتی ہیں اور غیر شعوری طور پر قلب و ذہن اس بات کے عادی ہو جاتے ہیں کہ بحث و تمحیص کے مرحلے میں کتاب و سنت سے کسی نہ کسی طرح مسائل کی وہی نوعیت ثابت ہو جائے جو ہمارے حلقے اور دائرے کے تقاضوں کے عین مطابق ہو، حالانکہ اللہ اور رسول سے ربط و تعلق کی کیفیتیں معروضیت چاہتی ہیں اور اس بات کی مقتضی ہیں کہ ہر مسئلے اور ہر امر میں نقطۂ نظر کسی خاص مدرسہ فکر کی تائید و حمایت کرنا نہ ہو، بلکہ اس شے کی تصدیق مقصود ہو کہ اخذ و قبول کے لحاظ سے کون سی صورت کتاب اللہ اور سنت رسول سے زیادہ قریب تر ہے۔‘‘ (برصغیر میں اہل حدیث کی آمد:۲۹۴-۲۹۷)
یہ ہے سلفیت کا تعارف اور اسی کو محمدیت، اہل حدیثیت اور موحدیت کہتے ہیں، کہ ذرا بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے انحراف جائز نہیں ہے، دینی معاملات ہوں یا دنیاوی حاجات و ضروریات، تعلیم و تعلم کی خوشنما اور چشم کشا جلوہ آرائیاں ہوں یا منبر و محراب کی پر رونق محفلیں، قال اللہ اور قال الرسول کی گونجتی ہوئی آوازیں ہوں، یا فوج داری اور سپاہ گری کی ولولہ خیزیاں، سیاسیات کا میدان ہو یا معاشیات و اقتصادیات کی وادیِ پرخار، سیر و سیاحت کی پرکیف منزلیں ہوں یا صنعت و حرفت کی بھرتی ہوئی اڑانیں، آپ کو زندگی کے ہر شعبہ میں اول و آخر ’’حی لایموت‘‘ کے ارشادات اور ’’سراج منیر‘‘ کے انوار و تجلیات پر نظر مرکوز رکھنی ہوگی۔
ایک ضروری وضاحت:
بسا اوقات اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ سلفی ’’اہل حدیث‘‘ اور غیر مقلد دونوں ایک سکہ کے دو رخ ہیں مگر ایسا نہیں ہے، یہاں لوگوں کو حقیقت سمجھنے میں سخت ٹھوکر لگی ہے، سلفی ’’اہل حدیث‘‘ اور ’’غیر مقلد‘‘ دو چیزیں ہیں، چنانچہ ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ وضاحت فرماتے ہوئے اس کے تعلق سے اپنی کتاب ’’سلفیت کا تعارف‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:
’’اہل حدیث‘‘ اور ’’غیر مقلد‘‘ در اصل دو الگ متضاد معنی و مفہوم کی مستقل بالذات اصطلاحیں ہیں۔ چنانچہ لفظ ’’اہل حدیث‘‘ ائمہ سلف کی اختیار کردہ قدیم اصطلاح ہے جو نہایت پاکیزہ اور معنی خیز اہمیت کی حامل ہے، اس سے مراد وہ جماعت ہے جو کتاب و سنت کی اتباع دنیوی و اخروی نجات کا سبب اور ذریعہ تصور کرتی ہے اور اس کی عملی تنفیذ کو اپنی زندگی کا اولین فریضہ گردانتی ہے، جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ سمیت تمام ائمہ سلف کو کسی ایک شخصیت میں اپنے آپ کو محصور کیے بغیر اپنا دینی پیشوا اور مقتدا سمجھتی ہے، جو ہر طرح کی عزت و توقیر اور ادب و احترام کے مستحق ہیں اور جن کی تعبیرات و تشریحات کتاب و سنت کو سمجھنے کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں، اسی حقیقت کی ترجمانی کے لیے جماعت کے مابین اس مقولہ کو بار بار دہرایا جاتا ہے ’’فھمنا مقید بفھم السلف‘‘ یعنی کتاب و سنت کے تعلق سے ہمارا فہم سلف کے فہم سے مقید و مربوط ہے کیوں کہ مختلف اعتبارات کے پیش نظر سلف کو کتاب و سنت کا جو فہم حاصل تھا، وہ بعد کے لوگوں کو حاصل ہونا مشکل ہے، اسی حقیقت کی عکاسی کے لیے اہل حدیثوں نے زمانہ قدیم سے اپنے لیے سلفی نسبت کو بھی اختیار و استعمال کیا ہے اور عملی طور پر جماعت اہل حدیث نے زمانہ ماضی و زمانہ حاضر میں اصول و فروع کے اندر اسی نہج و طریقہ کار کو مکمل طور پر اپنانے کی کوشش کی ہے جس پر ائمہ سلف گامزن تھے۔‘‘
’’اس کے برخلاف ’’غیر مقلد‘‘ کی اصطلاح جس معنی و مفہوم میں مستعمل ہے اس کے اعتبار سے غیر مقلد اس شخص کو کہتے ہیں جو ذہنی آوارگی کا شکار ہو، ہر طرح کی قیود سے آزاد ہو کر محض ہوی پرستی کی بنیاد پر کتاب و سنت کی تعبیر و تشریح کا عادی ہو، وہ اپنے آپ کو ائمہ سلف کی روشنی، ان کے ارشادات اور ان کی تصریحات کا پابند نہ سمجھتا ہو۔‘‘ (سلفیت کا تعارف، ص:۱۵۶-۱۵۷، ایضاً: تحریک آزادیٔ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی،ص:۱۸۷-۱۹۱)
یہ ایک بہت بڑا اور جوہری فرق ’’ اہل حدیث؍سلفی‘‘ اور ’’غیر مقلد‘‘ کے مابین ہے، اس لیے سلفیوں کے لیے ’’وہابی‘‘، ’’غیرمقلد‘‘، ’’حشوی‘‘ اور ائمہ دین کے مخالف وغیرہ جیسے الفاظ و القاب کا استعمال غیر اخلاقی، تکلیف دہ اور حد درجہ غلط تعبیر ہے اور حقیقت واقعہ کے خلاف بھی ہے۔
گویا کہ اب ہم مکمل شرح صدر کے ساتھ یوں کہہ سکتے ہیں کہ:
۱۔ ’’سلفی؍ یا اہل حدیث وہ جماعت ہے جو اپنے افکار میں شخصی پابندیوں سے آزاد ہے۔
۲۔ سلفی یا اہل حدیث یہ ایک متعین مکتب فکر ہے، جس کا تعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ہے۔
۳۔ یہ لوگ قیاس جلی اور نظائر کے حکم کو تسلیم کرتے ہیں اور اجتہاد و استنباط کے قائل ہیں۔
۴۔ یہ اہل ظاہر سے الگ ہیں۔
۵۔ یہ کتاب و سنت کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور صحابہ و سلف کے ارشادات سے استدلال کرتے ہیں اور اسے اپنے فہم و استدلال کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔‘‘ (برصغیر میں اہل حدیث کی آمد، ص۲۰۶)
اب ان اقوال کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہوگی، کہ سلفی اہل حدیث اور غیر مقلد میں کیا فرق ہے۔ ایک کتاب و سنت اور تعامل صحابہ و سلف کا پابند ہے جب کہ دوسرا ذہنی آوارگی اور بے راہ روی کا شکار ہے۔
سلف کا اطلاق کس گروہ پر ہوتا ہے:
جماعت اہل حدیث کے ایک عظیم اور مایہ ناز مورخ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے تفصیل سے لکھا ہے جس کا میں اختصار پیش کر رہا ہوں:
’’سلف کا اطلاق سب سے پہلے یقینا اسی گروہ پر ہوگا جن کے دل پر آفتاب رسالت کی اولین کرنیں پڑیں اور جنھوں نے آنحضرت ﷺ کی ہم نشینی اور رفاقت کا شرف حاصل کیا، اور یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جنھیں صحابہ رسول کے پرافتخار لقب سے پکارا جاتا ہے، ان کے بعد اس سعادت کے مستحق تابعین ہوں گے جو عقیدہ و عمل میں انہی راہوں پر چلے جن کی تعلیم انھوں نے اپنے اساتذہ (صحابہ کرام) سے حاصل کی تھی۔ یہ وہ عالی مرتبت لوگ تھے جنھوں نے کتاب و سنت کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور اسی کے سائے میں تزکیۂ نفس کی روح پرور منزلیں طے کی تھیں، تابعین کے بعد ان کے شاگردوں یعنی تبع تابعین کا زمانہ آیا۔ اس قافلے کو خود نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ نے ترتیب دیا تھا اس لیے اہل حدیث کے تصور سلفیت کی عمر بہت طویل ہے اور اتنی ہی طویل ہے جتنی کہ خود اسلام کی عمر ہے۔
سلف کی اس پاکیزہ خصال جماعت کی تصنیفی و تعلیمی سرگرمیوں کا دائرہ بے انتہا وسیع ہے، انھیں زہد و ورع کی فراوانیاں بھی خوب میسر آئی ہیں اور ان کے ایثار و عمل کی حدود بھی دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ انھوں نے ہر دور میں خلفاء و ملوک کی چیرہ دستیوں کابہ درجہ غایت ہمت و جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا انھوں نے اللہ کی توحید کو پھیلایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کی ترویج کو اپنا منصب اصلی قرار دیا اور اس سلسلے میں بے حد تکلیفیں جھیلیں، ان کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ تمام امور بلا کسی صلہ و انعام کے سر انجام دیے اور خلعت و دربار سے ہمیشہ دور رہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ضو افشاں دور سے لے کر اب تک حالات میں بے شمار تغیرات رونما ہوئے، عالم اسلام میں انقلاب تحول کی لاتعداد لہریں اٹھیں اور لوگ بہت سے عجیب و غریب واقعات سے دو چار ہوئے لیکن یہ کاروان خیر و صلاح ہر دور اور ہر حالت میں راہ حق پر گامزن رہا، انھوں نے نہ کبھی کسی سے صلہ و انعام کی توقع رکھی نہ سرکاری دربار سے ربط و تعلق پیدا کیا اور نہ کبھی خلعت و اکرام کے لیے کسی آستانہ فرمانروائی کا رخ کیا، جو کچھ کیا خالصۃً لوجہ اللہ کیا اور ان کا مقصد محض حصول رضائے الٰہی رہا۔
یہ ہے اہل حدیث کے نزدیک سلفیت کا مفہوم اور یہی ہیں وہ نفوس قدسیہ جن پر سلف کے پرعظمت لقب کا اطلاق ہوتا ہے، یہ وہ عالی قدر حضرات ہیں جن کی متعین خدمات ہیں اور انہی خدمات کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام اپنی اصلی روح اور صحیح خدو و خال کے ساتھ دنیا میں موجود ہے، تمام مذاہب تحریف کی زد میں آگئے ہیں اور ہر دین کی بنیادی تعلیمات منقلب ہوگئیں، لیکن سلف کی اس مقدس جماعت کی ہمہ گیر مساعی اور بوقلموں خدمات کی بنا پر اسلامی احکام میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور نہ ہوگی:
’’لاَ تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّہِ ذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘[یونس:۶۴] (برصغیر میں اہل حدیث کی آمد،ص۱۹۸-۲۰۲)
فکر و عمل کے تین پہلو:
ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ سلفی یا اہل حدیث جماعت اور اس کے علماء نے اسلام کی سچی خدمت کی ہے، تصوف کی پرپیچ راہوں، بدعات کی گنجلک اور پرخار وادیوں، شادی بیاہ، ختنے اور تجہیز و تکفین کی فضول رسموں، پیر پرستی اور قبر پرستی جیسے شرک آلودہ میدانوں کو صاف کرنے اور عوام کو ان کی ہلاکت خیزیوں سے باخبر رکھنے کے لیے اپنی جتنی انرجی اور قوت خرچ کی ہے، کوئی دوسری جماعت اس کی مثال نہیں پیش کر سکتی ہے۔ اسی طرح ملک کی آزادی اور انگریزوں کے ظلم و ستم سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے، وہ بھی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اسی طرح مظلوموں کی داد رسی اور ظلم و ستم کو رفع کرنے کے میدان میں خوب خوب داد شجاعت دی ہے جس پر صرف اپنے ہی نہیں غیر بھی اپنی کتابوں میں اس کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ ’’اہل حدیث کے سامنے فکر و عمل کے تین پہلو ہیں اور یہی ان کے اصلاحی کارنامے ہیں جن کی طرف انھوں نے ہمیشہ توجہ مبذول کیے رکھی، ایک الٰہیات کا پہلو ہے جس میں انھوں نے بدعات کلامیہ کو ہدف بحث ٹھہرایا اور اعتزال و غیرہ کی گمراہیوں کی نہ صرف نشان دہی کی بلکہ اس کی سختی کے ساتھ تردید کی، سلف کے عقائد کو وضاحت سے بیان کیا اور اسلام کی سادہ اور پرکشش تعلیم سے لوگوں کو روشناس کرایا اور اس پر کاربند رہنے پر زور دیا۔
دوسرے پہلو کا تعلق فقہیات سے ہے، اس میں مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ تقلید و تقید سے کنارہ کش ہو کر کتاب و سنت کو اپنا مطمح نظر قرار دیں اور اطاعت و اتباع کا اصل سرچشمہ فقط فرامین الٰہی اور ارشادات پیغمبر کو ٹھہرائیں۔
تیسرا پہلو بدعات اور رسوم سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے اور غیر اسلامی امور سے دامن بچا کر زندگی بسر کرنے کا ہے۔
یہ نہایت صاف اور سیدھی باتیں ہیں جن کی اہل حدیث تبلیغ کرتے ہیں اور جن پر عمل کی دیواریں استوار کرنے کی عام مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں، اگر ان باتوں کو مدارِ عمل ٹھہرا لیا جائے، تو اسلامی سلسلے سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات درست رخ اختیار کر لیتے ہیں اور فکر و عقیدے کی صحت و اصلاح کا اہم مسئلہ بالکل آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔ قرآن نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ تم میں ایک جماعت بہر حال ان اوصاف کی حامل ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی تصحیح فکر کے لیے ہر وقت کوشاں رہے اور واقعہ یہ ہے کہ اہل حدیث کی یہی حیثیت ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
’’وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘(آل عمران:۱۰۴)
مختلف ادوار میں اس جماعت کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے، کبھی ان کو محدثین کے نام سے پکارا گیا کہ انھوں نے حدیث کی جمع و تدوین اپنا فرض منصبی قرار دے لیا تھا۔
معتزلہ، جہمیہ اور شیعہ وغیرہ کے مقابلے میں انھیں اہل حدیث کا جامع لقب عطا کیا گیا اس کا مقصد یہ ہے کہ ان مذاہب اور ان کے افکار و تصورات سے انھیں امتیاز حاصل ہو جائے۔
اہل حدیث کو سلف کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، اس سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ عقیدہ و عمل میں یہ صرف صحابہ کرام تابعین و تبع تابعین اور محدثین کے نقطہ نظر کو صحیح قرار دیتے ہیں، انھیں ’’اثری‘‘ بھی کہا گیا ہے کہ یہ انھیں آثار و فرامین پر عمل کناں ہیں جو حدیث و سنت سے ثابت اور سلف سے منقول ہیں۔
سلف کے نقطۂ نظر کو ترجیح دینے کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ اس سے علم و عمل کی تاریخ میں ایک طرح کا تسلسل قائم رہتا ہے اور اس حقیقت کی نشاندہی ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر صحابہ کرام و تابعین عظام اور ائمہ ہدیٰ تک اہلحدیث کے افکار و تصورات کی صورتحال کیا رہی ہے، ان کے عقائد کس قالب میں ڈھلے ہیں، صفات میں کیا کیفیت رہی ہے، امت کن کن فکری اور عملی منزلوں سے گزری ہے اور اس راہ میں اگر کوئی مشکل مرحلہ پیش آیا ہے تو اس سے کس انداز میں نمٹا گیا ہے، یہ تمام چیزیں تاریخی تسلسل سے تعلق رکھتی ہیں اور ماضی میں حالات نے جو کروٹیں بدلیں وہ کس نوعیت کی تھیں اور ہمارے اسلاف کا ان کے متعلق کیا زاویہ فکر رہا اور اس سے کیا نتائج اخذ کیے۔‘‘ (برصغیر میں اہل حدیث کی آمد۱۹۴-۱۹۷)
یہ ہے اہل حدیث اور سلف کے تعلق سے مختصر گفتگو، اگر ان باتوں کو پھیلا دیا جائے تو ایک دفتر تیار ہوجائے، میں ان تمام تفصیلات کو صرف دو جملوں میں بھی بیان کر سکتا ہوں اور اس بات کی طرف میری رہنمائی علامہ البر بہاری کی ایک عبارت کرتی ہے، جس کو انھوں نے اپنی کتاب ’’شرح اصول السنہ‘‘ میں لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’اعلم ان الاسلام ھو السنۃ، والسنۃ ھی الاسلام ولا یقوم احدھما الا بالآخر‘‘
یعنی اس بات کو اچھی طرح جان لو اور سمجھ لو کہ اسلام سنت کا نام ہے اور سنت ہی اسلام ہے، نہ تو اسلام تنہا قائم ہوسکتا ہے، نہ ہی سنت تنہا چل سکتی ہے، دونوں توام ہیں اسلام سنت کے ساتھ اور سنت اسلام کے ساتھ ہے۔ (علوم الحدیث مطالعہ وتعارف، ص:۶۳-۶۴)
سلفی مسلک اور فکر کی قدامت:
مذکورہ بالا بیان اور گفتگو سے سلفی مسلک اور فکر کی قدامت دو اور دوچار کی طرح عیاں ہے، مگر اس کو ایک دوسرے انداز میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے اور اس بات سے اہل علم اچھی طرح واقف ہیں کہ دوسری صدی تک ائمہ حدیث اور عاملین حدیث کا اثر غالب تھا، عوام اور خواص دونوں ہی احادیث اور تعامل صحابہ کی تلاش میں رہتے ان پر عمل پیرا ہوتے، تیسری اور چوتھی صدی میں شفافیت کے ساتھ ساتھ امت میں تقلید کے معمولی جراثیم پھیل رہے تھے مگر ان کی نوعیت اور انداز دوسرا تھا اور تقلید میں جمود نہ تھا، عناد نہ تھا، تعصب نہ تھا، البتہ چوتھی صدی کے اختتام پر تقلید کی رسم بد عام ہو گئی، جمود، عناد اور تعصب جڑ پکڑنے لگا، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے اور یہ تقلید ٹھیک اسی ڈگر پر چل پڑی جس پر کہ نصرانیت پہلے سے عمل پیرا تھی، یعنی نسطوریہ (پروٹسٹنٹ) ملکیۃ یا سلطانیہ (رومی کیتھولک) یعقوبیۃ (آرتھوڈکس) انجلیکن (برطانوی کلیسا) اگرچہ زیادہ تر مؤرخین تین کو بیان اور شمار کرتے ہیں، اس لیے کہ وہی مشہور اور زبان زد ہیں۔ اور پھر اس کے بعد چار صدیوں تک تقلید جامد کی طوفانی آندھی چلتی رہی اور وہ زمانہ ایسا طوفانی گزرا ہے کہ شاید اب امت پر پھر کبھی نہ آئے کہ تقلید جامد کی بنیاد پر سلطنت بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، احناف اور شوافع نے اپنی اپنی تاریخ خون سے لکھا، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ان تمام حوادث اور نہایت برے حالات کے باوجود حق کی آواز گاہے بگاہے بلند ہوتی رہی اور اپنا اثر دکھاتی رہی۔
’’آٹھویں صدی کے پس و پیش کچھ تیز اور تند آوازیں اس جمود کے خلاف اٹھیں، بعض مجددین نے ارباب جمود کے ساتھ وقت کی حکومت کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا، جو اپنی سیاسی مصالح کی بنا پر ان غلط نواز حضرات کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، حافظ ابن القیم، علامہ ابن دقیق العید ان بزرگوں نے اس جامد فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا اور اصلاح کے ہمہ گیر پروگرام کی طرف متوجہ کردیا، ان حضرات نے پھر سے مسلک اہل حدیث سے پردہ اٹھایا، ائمہ حدیث اور فقہاء محدثین کی روش سے آگاہ کیا، ان کی کتابوں میں مسلک اہل حدیث کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔‘‘(تحریک آزادی فکر، ص۳۳۸)
اگر کسی شخص کو تفصیل مطلوب ہو تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب منہاج السنہ (ج۲) اور نقض المنطق دیکھ سکتا ہے۔
سلفی مسلک اور فکر کا طرۂ امتیاز:
اس عنوان پر میں مزید کوئی گفتگو کروں مناسب سمجھتا ہوں کہ شیخ الحدیث علامہ محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’مقالات حدیث‘‘ سے چند اقتباسات نقل کر دینا کافی ہوگا ان شاء اللہ، مولانا اپنے مخصوص انداز میں رقم طراز ہیں:
’’مسلک اہل حدیث ان تمام مسلم اور سنی المسلک جماعتوں میں سب سے زیادہ وسیع ہے جس میں مصالح دینیہ کی سب سے زیادہ مراعات رکھی گئی ہیں، کتاب و سنت کی موجودگی میں کسی خاص آدمی کے طریق فکر کا لزوم اس میں یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے، ہر عالم کو مجتہد ہو یا غیر مجتہد حق پہنچتا ہے کہ کتاب و سنت کو پڑھے اور سمجھے، ائمہ سنت و صنادید سلف کی روشنی پر چلتے ہوئے کتاب و سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔
جہاں تک تاریخ کا تعلق ہے تحریک اہل حدیث محض فروعی مسائل اور فقہی مسائل تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ صفات باری تعالیٰ، جبر و قدر، خروج و تشیع ایسے تنازعات میں اس نے اپنے نظریات کو پورے اعتدال سے پیش کیا، جنھیں آج قبول کرنے کے لیے دنیا تیار ہی نہیں بے قرار ہے، مگر معشر اہل حدیث!
؎ تمہی سو گئے داستاں کہتے کہتے
حزبی پابندیوں سے دنیا تنگ آچکی ہے، اسلامی وسعتیں آپ کی منتظر ہیں، جمود و تقلید کی ظلمتیں آپ سے روشنی کی آرزو مند ہیں، نئی اور پرانی تحریکات میں اصول کے تقاضوں کے مطابق تعاون کیجیے مگر اللہ کے لیے گداگری چھوڑ دیجیے، احساس کمتری اس ماحول میں پھٹکنے نہ پائے، پہلے اپنے مسلک کو سمجھیے، اپنے ماضی اور اسلاف کے مساعی اور کارناموں پر غور کیجیے، تحریک اہل حدیث کے داعیوں نے صرف فقہی گروہ بندیوں ہی میں اعتدال نہیں پیدا کیا اور نہ صرف اعتزال و تجہم اور جبر و قدر کی پرپیچ زلفوں کو درست کیا، بلکہ اپنے وقت کی سیاسیات پر کڑی نگرانی کی، سیاسیین سے اگر لڑنے کا موقع آیا تو پوری جرأت اور بے جگری سے لڑے اور جب وہ سیدھے ہوگئے تو پوری دیانت داری سے ان کے ساتھ تعاون کیا، فجزاھم اللہ عنا وعن المسلمین احسن الجزاء۔ اور اس ساری کشمکش میں کوئی ذاتی مقصد پیش نظر نہیں رہا۔
آج ’’نیم مذہبی اور سیاسی تحریکات نے دینی ذوق کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اچھے اچھے اہل علم بھی توحید و سنت پرگفتگو کو فرقہ پرستی تعبیر کرتے ہیں، (آج) ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو نڈر ہو کر کتاب و سنت کی اشاعت کریں، اصول اور فروع پر خود عمل کریں اور عامۃ المسلمین کو ان مسائل کی طرف متوجہ کریں اور اس کے لیے بہتر اسلوب اختیار کریں، مناظرانہ طعن و تشنیع سے بچ کر جدال احسن اور تبلیغ کے لیے اچھی زبان اختیار کریں، اس ملک میں کئی تحریکات ہیں جن کا منشور یہ ہے کہ وہ پورے اسلام کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں اور زندگی کے ہر گوشے اور ہر موڑ کے لیے ان کے پاس شمع ہدایت ہے لیکن عملا وہ ایک آدھ مسئلہ میں اس طرح الجھے کہ برسوں تک دوسرے مسائل کی طرف توجہ ہی نہیں ہو سکی۔ لٹریچر شائع کیا تو مخصوص طبقہ کے لیے اور کبھی عوام کو خطاب کیا تو اس زبان اور لہجہ میں کہ اسے ملک کی اکثریت نہ سمجھ سکے۔
میری رائے یہ ہے کہ زندگی کا پورا پروگرام صرف انبیاء ہی دے سکتے ہیں، سارے دین پر صرف اللہ ہی کی نظر ہو سکتی ہے یا پھر مکمل پروگرام وہ لوگ دے سکتے ہیں جنھوں نے آسمانی علوم کی حفاظت کی ذمہ داری لی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سنا، یاد کیا، لکھا اور پہنچایا، علوم سنت کی نشرو اشاعت کے لیے زندگیاں وقف فرمائیں۔
ان کے علاوہ کوئی سیاسی، معاشی، دینی یا نیم سیاسی تحریک بعض مخصوص حصوں کی اصلاح کر سکتی ہے، خاص قسم کے پروگرام دے سکتی ہے مگر مکمل پروگرام کتاب و سنت اور اس کے خدام ہی دے سکتے ہیں، اس کی زندہ دلیل اس دور واپسیں کی غالبا آخری تحریک ہے، جسے سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید کی قیادت کا فخر حاصل ہے، اسی تحریک نے میدان جنگ سے لے کر اندرون خانہ تک اپنے ماننے والوں کی رہنمائی فرمائی۔ افسوس ہے کہ حالات کی رفتار پر انضباط نہ ہو سکا ورنہ آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا، مقصد یہ ہے کہ پوری زندگی کی اصلاح علوم سنت سے ہوسکتی ہے اور مکمل رہنمائی صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دامن راہ گزر کی آلائشوں سے پاک ہیں اور اس راہ میں بڑی سے بڑی چٹان بھی ان کا راستہ نہیں روک سکی، اس مسلک کے اولین رہنما آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی ہیں۔‘‘ یہی ایک مسلک ہے جب دنیا نے اسے اپنایا، اپنی مشکلات کا زیادہ سے زیادہ حل اس میں پایا۔‘‘ (مقالات حدیث، ص۹-۸۰)
اس لیے میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ربیع عربی (عرب بہاریہ) فکری لغزش کے نتیجہ میں رو نما ہوئی، فائدہ کچھ بھی نہ ہوا اور نقصانات بے شمار و بے انتہا۔
اس کی واضح مثالیں اور حقیقی صورتیں مصر، شام، لیبیا، سوڈان، تیونس، الجزائر، مراکش، صومالیہ، یمن، قطر اور عراق میں مل جائیں گی۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے بعض اخوان اس کو غلط رنگ دینے کی کوشش میں ہیں اور آخر کار ناکام ہی ہوتے ہیں، مگر اپنی حرکت بد سے باز نہیں آتے ہیں۔ میں واضح طور پرکہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے ’’الاخوان المسلمون‘‘ اور ’’جماعت اسلامی‘‘ کے احباب اپنی سوچ و فکر، زاویہ نظر اور امت کے ساتھ تعامل میں اعتدال پیدا کریں، انقلاب کے نعروں سے باز آجائیں اور پوری امت کے لیے وہی سوچ اور فکر رکھیں جو کتاب و سنت سے مستفاد ہے، جو امن و راحت کا پیغام ہے، اسی میں پوری انسانیت کے لیے بھلائی ہے، اسلام امن و آشتی کا داعی ہے اور آپ بد امنی، انارکی اور فتنہ و فساد کے، سوچیے تو صحیح! کہ آپ کہاں کھڑے ہیں، انسانیت کا ناحق خون بہانا اللہ کو کتنا مبغوض ہے؟ قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے:
’’مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً‘‘(المائدہ:۳۲)
ہندوستان میں تین چار جماعتیں پائی جاتی ہیں ہر ایک کی تاریخ اور ہر ایک کے کارنامے ہم سب کے سامنے ہیں، ایک تقلیدی خول سے باہر نہ آسکی، نہ جھانک سکی، ایک نے مزاروں کو چادریں عطا کی، مگر غریب شہر کا بدن نہ ڈھانپ سکی، ایک نے ملت کو سیاسی مزاج دیا اور دین کے جزو کو کل قرار دیا، جس کا بھیانک نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، اب ایک جماعت اور ہے، ہزار خامیوں کے باوجود جس نے ملت کو دو صافی نہریں دی ہیں تاکہ ملت کے افراد ان سے آب حیات حاصل کر سکیں، دنیاوی زندگی سنوار سکیں اور اخروی زندگی بنا سکیں۔ اب انصاف سے فیصلہ کیا جائے کہ کون سی جماعت ہے، جس نے ملت کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا ہے اور کس نے سب سے زیادہ نقصان؟ یہ مقام تفصیل میں جانے کا نہیں ہے
روداد سفر نہ چھیڑ ناصرؔ
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے
(ناصر کاظمی)
یادرکھیے تحریکات نے ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے، جب ان کے ماننے والوں نے کتاب و سنت سے ہٹ کر اپنی دعوت کا آغاز کیا اور لوگوں کو اس کی طرف بلایا، آسمانی علوم یعنی کتاب و سنت ہی انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہیں اور یہ انبیاء کی ہی ذات ہے جو تمام دکھوں کا مداوا کر سکتی ہے، آئیے ان کی سیرتوں کو پڑھ کر اپنی زندگیاں سنواریں:
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللَّہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیْراً‘‘(الاحزاب:۲۱)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
شیخ! بہت عمدہ کہنے کی جسارت نہیں کر سکوں گا….. نہ آپ سے واقف ہوں نہ آپ کو کہیں پڑھنے کی توفيق مجھے کبھی ملی. مگر آپ کی اس تحریر کا احسان مند ہوں… ملاقات کا مشتاق ہوں… مزید تحریروں کا منتظر بھی.. لہٰذا اپنی فہرست میں ایک شاگرد پہلے سے بڑھا لیجیے.
Nyc