سلفی تذکرہ نگاری: چند شبہات کا ازالہ

ابن سعيد لکھنؤی

حامداً و مصلیاً وبعد:

’’إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَن کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَھوَ شَہِیْدٌ‘‘(ق:۳۷)

انہی کے فیض سے ویران ہوگئی بستی
وہ چند لوگ جو میری نظر میں اچھے تھے
علماء ربانیین، اولیاء اللہ، برگزیدہ اور عظیم و پاک باز ہستیوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟ اس لیے کہ ان کی حیات بابرکات میں کار آمد نصیحتیں، دل کشا حکایتیں اور سبق آموز واقعات ہوتے ہیں۔ جو قوموں اور جماعتوں کو سیدھی راہ دکھاتے ہیں اور ذلت و پستی سے بچانے میں ان کی سوانح عمریاں نہایت موثر اور کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔ نئی نسل کے لیے ترقی کے منازل طے کرنے میں ممد و معاون ہوتی ہیں۔ ایک مریض اور بیمار معاشرہ کو سہارا دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جا بجا انبیاء کرام کی سیرتوں کا اعادہ کیا ہے اور ان کے اعمال حسنہ کا ذکر بڑے ہی خوبصورت اور دلنشیں پیرائے میں بیان کیا ہے۔
دین حنیف کی دعوت و ترسیل کی راہ میں انھوں نے جو مشقتیں اٹھائی ہیں ان کا بیان قرآن بڑے ہی معروضی انداز میں کرتا ہے اور ان لوگوں کے نتائج بد سے آگاہ بھی کرتا ہے جو انبیاء کرام کی دعوت کو قبول نہ کرکے سرکشی کا راستہ اختیار کیے اور صراط مستقیم سے بھٹک گئے، پورے قرآن کی دعوت سورہ فاتحہ کی سات آیتوں کے گرد گردش کرتی ہے گویا کہ سورہ فاتحہ متن ہے اور پورا قرآن اس کی شرح و تفسیر ہے۔ قرآن نے جب یہ کہا:

’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ‘‘(آمین)

تو گویا کہ اس نے ان چند لفظوں میں دو سیرتوں اور دو سوانح عمریوں کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ قرآن میں ان کو تلاش کرو یہاں سے ہی تاریخ نویسی اور تذکرہ نگاری کا آغاز ہوتا ہے۔ جب آپ قرآنی تفاسیر اور قرآنی قصص کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو تفصیلاً معلوم ہوجائے گا کہ قرآن نے اعلان کیا ہے:

’’مَّا فَرَّطْنَا فِیْ الکِتَابِ مِن شَیْْء ٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ‘‘(الانعام:۳۸)

ہم نے کتاب میں کسی چیز کو درج کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے، پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کیے جائیں گے۔
مثال کے طور پر حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم و اسماعیل حضرت موسی و عیسی اور حضرت محمدﷺ کی زندگیوں کا ذکر کہیں اجمالاً اور کہیں قدرے تفصیلاً قرآن میں مل جائے گا البتہ پوری تفصیلات کے لیے آپ کو تاریخ اور احادیث کی ورق گردانی کرنی پڑے گی گویا کہ تذکرہ نویسی اور تاریخ بیانی کا کام قرآن نے خود کر کے بتا دیا ہے اور ایک واضح راہ کی نشاندہی کر دی ہے۔
تاریخ نویسی اور تذکرہ نگاری کا تعلق معاشرتی علوم سے بہت گہرا ہے۔ کسی قوم کی تاریخ و تمدن اور تہذیب و ثقافت کا سراغ لگانا ہے تو اس کے حکام اور اعاظم رجال کی زندگیوں کا مطالعہ بے حد ضروری ہے کیوں کہ ان کی زندگیاں ایک آئینہ ہوتی ہیں جس میں ان کے ادوار کے نشیب و فراز کو دیکھا جا سکتا ہے۔ معاشرے پر ان کی گرفت اور تمدن پر ان کے اثرات کو محسوس کیا جا سکتا ہے میدانِ دعوت و تبلیغ اور شعبۂ تجارت و معیشت میں ان کے افکار و نظریات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور حال میں ان کے ماضی کی بازیافت ہوسکتی ہے، ماضی کا مطالعہ، حال کے سنوارنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ سوانح نویسی اور تذکرہ نگاری دینی علوم اور سیاسی شعور میں پختگی عطا کرتی ہے۔ سوانح نویسی ایمانی، تہذیبی اور ذہنی ارتداد سے بچاتی ہے خوابیدہ قوائے فکریہ کو بیدار کرتی ہے اور قوائے عمل کو مہمیز کرتی ہے۔ تذکرہ نویسی ایک نازک فن ہے جس میں لوگوں کے چشم دید بیانات، اپنے ذاتی مطالعہ اور مشاہدات کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے جس کے ذریعہ ہم اسلاف کے عقائد و خیالات کا پتا لگا سکتے ہیں تاکہ آنے والی نئی نسل ان کے عادات و اطوار اور افکار و خیالات سے مرتبط رہے اور اسلاف کے حالات زندگی کے جو ’’عبر و بصائر‘‘ ہیں ان کو اپنا سکے اور ان سے فائدہ اٹھا سکے۔
تذکرہ نگاری میں اسلاف کی بے لوث اور سادہ زندگی کے تعلق سے اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ ان کی سوچ کیا تھی، ان کا مزاج کیسا تھا، ان کی افتادِ طبع کیسی تھی، ان کا علم کیسا تھا، ان کا فکر کیسا تھا، ان کے عقائد کیا تھے، ان کی اقدار کیا تھیں، ان کے عزائم کیا تھے، ان کی امنگوں کی منزل کیا تھی، ان کی آرزوئیں اور تمنائیں کس ڈگر پر چل رہی تھیں۔ ان کی زندگی کے مقاصد کیا تھے، ان کے نزدیک امتیازِ خیر و شر کا معیار کیا تھا، ان کے دن کیسے تھے ان کی راتیں کیسی تھیں، ان کی صبحیں کیسی تھیں، ان کی شاموں کا کیا حال تھا، ان کی زمین کیسی تھی ان کا آسمان کیسا تھا، ان کی صحبتیں کیسی تھیں ان کی رفاقتیں کیسی تھیں، ان کی نگاہیں کیسی تھیں، حتی کہ ان کی صورتیں کیسی تھیں؟
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
(ناصرؔ)
تاریخ، سوانح اور تذکرہ نگاری کے تعلق سے محترم بزرگ ڈاکٹر عبدالعلی ازہریؔ حفظہ اللہ نے بڑی ہی اچھی بات لکھی ہے ان کے اپنے الفاظ میں:
’’تاریخ نویسی یا سیرت نگاری در حقیقت اصحاب حدیث کا کام ہے حدیث کے شیوخ نے اس فن کو ترقی دی، اور اس میں کتابیں تحریر کیں۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی کتاب طبقات ابن سعد(م۷۲۴ء) ہے۔ پھر چند سالوں کے بعد امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری نے اپنی تاریخ کبیر تصنیف کی اور یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک ساتویں صدی ہجری میں امام ذہبی نے رجال پر مختلف کتابیں تصنیف کرکے علم اور معرفت کے میدان میں زبردست کارنامہ انجام دیا، ان کی سیر اعلام النبلاء جو ۲۳؍جلدوں پر مشتمل ہے اور تاریخ الاسلام جو ۱۵؍جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں ۲۹؍ہزار سے زائد تراجم ہیں ہم لوگوں کو ماضی سے جوڑتی ہیں، ایک بڑی خوبی امام ذہبی یا دوسرے مورخین رجال میں یہ تھی کہ وہ حقائق کو چھپاتے نہیں تھے، جو بات صحیح ہوتی تھی اسے بیان کر دیتے، نہ کسی کے اچھے کام کو چھپایا، نہ ہی کسی کی غلط تعریف کی۔
جب تاریخ نویسی محدثین کرام کے دائرے سے نکل کر مسلکی گروہوں کے علماء کے پاس آئی، تو غلط بیانیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ کوئی اپنے امام کو تابعی ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کوئی اپنے امام کو حدیث کا سب سے بڑا عالم شمار کرنے میں لگا ہوا ہے یہ سلسلہ چلتا رہا اور موجودہ دور میں بھی بہت سے علماء اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جیسے بھی ہو اپنے گروپ اور اپنی مسلکی جماعت کی فضیلت اور برتری ثابت کی جائے، اس لیے وہ دوسروں کے کارنامے اپنے علماء کے نام منسوب کرنے میں ذرا بھی شرم و حیا سے کام نہیں لیتے‘‘۔ (تاریخ اہل حدیث، ج:۲، ص:۱۸)
تاریخ عالم کے اوراق اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ تاریخ کو بنانے اور بگاڑنے میں اشخاص کا حصہ اور رول بہت اہم رہا ہے۔ شخصیت جتنی بڑی ہوتی ہے اس کا قول و عمل اتنا ہی زیادہ اثر انداز و اثر پذیر ہوتا ہے۔
ہندوستان کے مشہور حکیم الامت اور پیرِ طریقت ’’شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی‘‘ کے درس حدیث کے تعلق سے اپنا ایک خواب بیان فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’میاں سید نذیر حسین‘‘ کے درس میں مغز نہیں چھلکا نظر آتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ درسِ حدیث میں صرف چھلکا ہوتا ہے اور مغز فقہ کی لایعنی بحثوں اور مفروضہ باتوں میں ہوتا ہے یا کتاب ’’نظام الدین سے تھانہ بھون تک‘‘ کا مطالعہ کریں تو پھر آپ کو مغز ہی مغز نظر آئے گا۔ اب یہاں کوئی یہ نہیں کہتا ہے کہ اجتماعیت سے دوری ہم نے اختیار کی ہے یا دوسروں نے ہم سے دوری بنانے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔
کسی علامہ وقت کی کسی عربی عبارت پر تنقید کردی گئی اور پرچہ میں شائع کر دیا گیا تو اجتماعیت پر آرا چل گیا۔
اچھے وہی ہیں آج جو سوتے ہیں زیر گل
افسوس ہے انہی کے ہزاروں گلے ہوئے
(اکبرؔ)
لیکن اسی علامہ وقت پر علماء دہلی نے کفر کا فتویٰ صادر کیا، تو اجتماعیت میں کوئی خلل نہ پڑا۔ اسی طرح ۱۹۵۴ء؁ میں دارالعلوم دیوبند سے اہل حدیث طلبہ بغیر کسی جرم کے نکالے گئے اور ’’انتظام المساجد باخراج اھل الفتن و المفاسد‘‘، ’’رجوم المدنیین‘‘، ’’انتصارالاسلام‘‘، ’’جامع الشواہد‘‘، ’’الشہاب الثاقب‘‘، ’’ سیرۃ النعمان‘‘،  ’’أنوارالباری‘‘ اور ’’فتنۂ مودودیت‘‘ جیسی کتابیں لکھ کر اور چھاپ کر پورے ہندوستان میں تقسیم کی گئیں، تو بھی اجتماعیت کی چولیں اپنی جگہ سے نہ ہل سکیں۔ ماضی کے چند سالوں میں ’’تحفظ شریعت‘‘ اور ’’تحفظ اہل سنت‘‘ جیسی کانفرنسیں بھی اجتماعیت اور اتحاد کی دعوت دیتی رہی ہیں۔ ابو بکر غازی پوری کی کرم فرمائیاں اور ذرہ نوازیاں کیا کبھی فراموش کی جا سکتی ہیں؟ اور حال ہی میں ایک سید زادے نے سلفیوں کے خلاف جو زہر اگلا اور طوفان برپا کر رکھا تھا تو کیا ان تقریروں، تحریروں اور کالے جھنڈوں کا سہرا بھی سلفیوں کے ہی سر جائے گا؟ چلو یہ الزام بھی ہم اپنے سر لے لیتے ہیں۔
ہم سے کیا ہوسکا محبت میں
تو نے تو خیر بے وفائی کی
(فراقؔ)
یہ ان کا حال تھا اور ہے جو اپنے آپ کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور سید احمد شہید رائے بریلی کے وارث اور جانشین ثابت کرتے ہیں ہاں ان تحریکیوں اور انقلابیوں کا حال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے جو ’’اسلامی اتحاد‘‘، ’’اسلامی انقلاب‘‘، ’’احیاء اسلام‘‘، ’’اقامت دین‘‘ اور ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کی دعوت دیتے ہیں۔
میں تفصیل میں جاؤں گا تو بات بہت لمبی ہو جائے گی صرف مولانا و حکیم عبیداللہ رائے بریلوی کی کتاب ’’اسلامی سیاست یا سیاسی اسلام‘‘ اور صوفی نذیر احمد کاشمیری کی کتاب ’’جماعت اسلامی کے دین کا خلاصہ‘‘ پڑھ لیں۔ یا مولانا عبدالعزیز سعیدی ملتانی کا وہ خط پڑھ لیں جو ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے ۲۵؍مئی و یکم جنوری ۱۹۵۱ء؁ کے شماروں میں شائع ہوا تھا جس کو مولانا محمد اسحق بھٹی/ حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’کاروانِ سلف‘‘ میں بھی نقل کیا ہے جس سے انقلابیوں اور تحریکیوں کی دعوتِ اتحاد کا پول کھل جاتا ہے۔ ان کے دین کی حقیقت طشت ازبام ہو جاتی ہے اور ان کا اصلی چہرہ سب کے سامنے آجاتا ہے۔
میں در اصل عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایک منصف مزاج، اعتدال پسند اور حقیقت شناس صاحب قلم کو، اپنے قلم کو حقیقت نگار بنانا چاہیے اور ہمیشہ دونوں پہلوؤں پر نظر رکھنی چاہیے اور اسی کا درس دیا ہے نبی امی ﷺ نے یہ کہہ کر:

’’أنصر أخاک ظالما أو مظلوما‘‘۔

غلطی ہر ایک سے ہوتی ہے مگر ہماری غلطی کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے اور غیروں نے اپنی غلطیوں کو حق و صواب ٹھہرایا۔ اس لیے دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔ اگر ہم ان کی غلطی سے اغماض نہیں برت سکے تو انھوں نے بھی ہماری غلطی کو چھوٹے بھائی کی غلطی سمجھ کر خندہ پیشانی سے قبول نہیں کیا۔ بلکہ اس کو اچھالا اور خوب اچھالا تو ری ایکشن اور رد عمل غلط سمت کی طرف ہی رہنمائی کرتا ہے جس سے بات بگڑتی چلی جاتی ہے اور عموما ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض جماعتوں اور بعض افراد پر سوادِ اعظم کا بھوت بھی سوار رہا ہے جس کی وجہ سے تلخیاں در آئیں اور دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔ ہمارے بعض اہل علم اور اچھے صاحب قلم اس باریکی پر نظر نہ دوڑا سکے اور انہی کی بولی بولنے لگے۔ ’’سخن سخنِ او و فتویٰ فتویٰ اوست‘‘۔
اسی کی سی کہنے لگے اہل حشر
کہیں پرسش داد خواہاں نہیں
(آزردہ)
تحریک ندوۃ العلماء، جمعیۃ علماء ہند اور دیگر ملی تحریکوں میں ہم نے بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ اپنا اخلاق، اخلاص، تعاون اور قربانیاں پیش کی ہیں جس کا نتیجہ کچھ بھی رہا ہو لیکن آج بھی ہم اپنی قربانیاں پیش کرنے کو تیار ہیں۔ شرط یہ ہے کہ دوسروں کی طرف سے بھی کشادہ دلی اور وسعتِ نظر چاہیے، ملت کے اجتماعی مسائل سے ہماری جماعت اور ہمارے علماء کبھی بھی راہ فرار اختیار نہیں کیے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں بلکہ اکثر ہمیں اقلیت میں دیکھ کر دوسروں نے ملی مسائل میں ہماری شمولیت کو نظر انداز ہی کیا ہے۔ ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کی تاریخ ہی پڑھ لیجیے معلوم ہوجائے گا یہ گلہ اور شکوہ نہیں ہے بلکہ حقیقت کا بیان ہے اب آپ اس کو جو چاہیں نام دے لیں۔ جو چاہے آپ کا دل کرشمہ ساز کرے۔ اور
ان کے ترکش میں اگر تیرِ ستم باقی ہیں
کیوں پریشاں ہے زمانہ ابھی ہم باقی ہیں
(رونق بدایونی)
اپنی جماعت کی کمیوں، خامیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں پر نظر رکھنا اچھی بات ہے اور اس سلسلے میں اصلاحی کوششوں کو بنظر تحسین دیکھا جانا چاہیے، لیکن میں ان تمام اصحاب قلم سے اتفاق نہیں رکھتا ہوں۔ جو سارا الزام ایک کمزور جماعت کے افراد کے سر ڈال دیتے ہیں کیوں کہ یہ سراسر انصاف کے خلاف ہے، دوسروں کی ستم رانیوں اور برق باریوں پر بھی نظر ہونی چاہیے کہتے ہیں کہ جب بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔ بعض دوستوں کی بعض تحریریں نہایت ’’جراحت رساں‘‘ ’’دل آزار‘‘ اور ’’وجدان خراش‘‘ نظر آئیں تو سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ آخر ایسا کیوں ہے، ہمارے احباب کیا باتیں کرتے ہیں کہ ہم زمانہ کا ساتھ نہ دے سکے اور زمانہ ہم کو ساتھ لے کر نہ چل سکا۔
بات کرتے ہو کیوں زمانے کی
یہ زمانہ تو دیکھا بھالا ہے
دوستوں کا کرم تو دیکھیے
کس طرح بات کو اچھالا ہے
میدان درس و تدریس میں شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی سے بڑھ کر طلبہ کس نے پیدا کیا؟ میدان تصنیف و تالیف میں نواب صدیق حسن خاں کا کوئی ہمسر نہیں، ہے کوئی شخصیت جس نے نواب صاحب سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں؟ فن ترجمہ و تفسیر میں ہم کسی سے پیچھے نہیں، بلکہ لوگوں نے ہمارا ہی تتبع کیا ہے اور ہمارے ہی نقوش راہ کی پیروی کی ہے۔ شروح احادیث میں ہم سب سے آگے رہے اور ہماری کتابیں عالمِ اسلام میں سب سے زیادہ پڑھی گئی ہیں، سیرت نگاری میں ہم پوری دنیا میں اول نمبر پر رہے، عربی ادب و لغت، انساب و رجال اور رواۃ پر بھی ہمارے علماء درجۂ امامت پر فائز تھے، میدان مناظرہ میں ہمارا کوئی حلیف تھا نہ حریف، زہد و تقوی اور خلوص و للہیت میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں رہے، غزنوی، قصوری، لکھوی اور روپڑی خاندانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ جو لوگ دن میں ہم کو وہابی کہہ کر گالیاں دیا کرتے تھے وہی لوگ فجر کی نمازیں ہمارے پیچھے پڑھا کرتے تھے اور جب ان کا کوئی عقیدت مند اعتراض کرتا تھا کہ یہ تو وہابی ہیں آپ ان کے پیچھے نمازیں کیوں پڑھتے ہیں تو وہ لوگ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کو جواب دیتے تھے کہ وہابیوں کے پیچھے نماز پڑھنے میں جو لذت ملتی ہے کسی اور کے پیچھے پڑھنے میں نہیں۔
یہ تھے ہمارے سلف صورتِ مہ و خورشید
جو تجھ سے ہو سکے ان کا جواب پیدا کر
میدان جہاد میں بھی ہم دوسروں کے کندھوں سے کندھا ملا کر لڑتے رہے بلکہ خاندانِ صادق پور دوسروں سے کچھ آگے ہی نکل گئے اور آزادیٔ ہند کی تحریک میں سب پر سبقت لے گئے۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے الفاظ میں:
’’یہاں میں واضح لفظوں میں عرض کروں گا کہ بر صغیر کی آزادی میں سب سے زیادہ جدو جہد کرنے اور جانی اور مالی قربانیاں دینے والی جماعت مجاہدین کی ہے جو خالص اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی جماعت تھی اور جس کی قیادت کی باگ ڈور حضرت مولانا اسماعیل شہید دہلوی اور سید احمد شہید رائے بریلوی کے ہاتھوں میں تھی۔ ان پاک باز حضرات نے ۱۸۲۶ء؁ میں انگریزی حکومت کے خلاف سلسلۂ جہاد شروع کیا تھا جو آزادی بر صغیر ۱۹۴۷ء؁ تک جاری رہا، اس جماعت نے ایک سو اکیس برس عمر پائی، بر صغیر کی سب سے طویل عمر کی یہی جماعت مجاہدین ہے جس کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ اس کے بارے میں انگریزی اور اردو میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ انگریزوں نے بھی اس تحریک کی تفصیلات بیان کی ہیں اور مسلمانوں نے بھی اس کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے اہل حدیث حضرات کا فرض ہے کہ وہ بر صغیر کی آزادی کا کریڈٹ اسی جماعت مجاہدین کو دیں، دوسری کسی سیاسی اور اسلامی جماعت کو اس پر ترجیح نہیں دینی چاہیے‘‘۔ (قافلۂ حدیث، ص:۴۹۸/۴۹۹)
تاریخ نویسی اور تذکرہ نگاری میں بھی ہم دوسروں کے دوش بدوش چلتے رہے، اگر اس میدان میں کچھ لوگ قدرے آگے نکل گئے تو اس کی وجہ ان کی ذہانت و فطانت نہ تھی بلکہ اس کی وجہ ان کے یہاں امتیاز خرد و کلاں، عقیدت میں غلو، کشف و کرامات پر ایمان لانا اور ’’حضرت فرماتے ہیں‘‘ کا ورد تھا، اس کے برعکس ہم لوگ نہ تو کنواں اور درخت کی تقدیس کے قائل رہے نہ ہمارے یہاں ہاتھ اور قدم بوسی کا رواج رہا اور نہ ہی ہمارے یہاں ’’اعلی حضرت اور حضرت مولانا‘‘ کی تعبیریں تھیں بلکہ حقائق پر مبنی باتیں تھیں، اس کے باوجود تذکرہ نگاری صنفِ ادب میں ہمارے پاس ۸۰/۸۵ کے لگ بھگ کتابیں موجود ہیں۔ ہماری سوانح نگاری کی تاریخ بھی پرانی ہے تفصیل میں جاؤں گا تو بات طول پکڑ جائے گی بس اتنا عرض کر دینا کافی سمجھتا ہوں کہ ایک چھوٹی سی جماعت کے پاس اگر اتنا بڑا سرمایہ موجود ہے تو ہم اسے کم نہیں کہہ سکتے ہیں۔ یہ میرا ناقص مطالعہ ہے بہت سارے اہل علم کے پاس اس سے بھی زیادہ کتابوں کی فہرست ہو سکتی ہے:

’’وفوق کل ذی علم علیم‘‘

تذکرہ نگاری صنف ادب میں اضافہ ہونا چاہیے اور میں ’’حفظِ ناموسِ کہن‘‘ کا قائل ہوں۔ مگر صوفی نذیر احمد کاشمیری کی اس بات کو میں ’’فکر جمیل‘‘ کہوں یا ’’نوائے پریشاں‘‘ میرے پاس تعبیر کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ ایک بار جب میں نے ان سے ان کے حالات زندگی پوچھنے کی کوشش کی تاکہ قلم بند کر سکوں، تو کہنے لگے بیٹا!
’’ابراہیم و اسماعیل، موسی و عیسیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ کی سیرتیں تمھارے لیے کافی نہیں ہیں اس فقیر کی سوانح لکھ کر کیا پاؤگے اور کوئی بھی معلومات دینے سے صاف انکار کر دیا‘‘ سبحان اللہ۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ زندہ جماعتیں اور بیدار قومیں ماضی کے ’’عبرو بصائر‘‘ سے سبق تو لیتی ہیں، مگر ماضی کی داستانوں میں پلتی نہیں ہیں، بلکہ زمانۂ حال کے چیلنجوں کو قبول کرتی ہیں ان کا مقابلہ کرتی ہیں حوصلوں کو گلے لگاتی ہیں، طوفانوں سے کھیلتی ہیں اور اپنی منزلیں خود طے کرتی ہیں۔
ہم خود تراش لیتے ہیں منزل کے سنگِ راہ
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
بات چل رہی تھی تذکرہ نگاری صنف ادب کی اور میں کچھ اصحاب قلم کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے بہت دور نکل گیا۔ ’’دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے‘‘ یہ مقام تفصیل کا نہیں ہے کہ ہر ایک بات کا جواب دیا جائے ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘ میری داستان ایک فارسی شاعر کے اس شعر میں پنہاں ہے:
در جگر افتادہ ہستم صد شرر
در مناجاتم بہ بیں خونِ جگر
’’میرے جگر میں سینکڑوں چنگاریاں دبی ہوئی ہیں اور میری مناجات پر نظر ڈالو تو خون جگر ان سے ٹپکتا ہوا نظر آئے گا‘‘

’’رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (الحشر:۱۰)

بہر حال اسلاف کی سوانح یا ان کی زندگی کا کوئی واقعہ پڑھیے تو دل کو سرور، روح کو انبساط اور ذہن کو روشنی ملتی ہے اسی لیے تذکرہ نگاری کو صنفِ ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے، تذکرہ نگاری در اصل انسانی سرگرمیوں کا مرقع اور انسانی اعمال و افکار اور خیالات کا خزینہ ہوتی ہے۔ تذکرہ نگاری کا خاصہ یہ ہے کہ بزرگوں اور اسلاف کے زہد و تقوی، للہیت و اخلاص اور اصحاب علم و فضل کی تگ و تاز کو اجاگر کرتی ہے۔ وہ انسان کی روحانی، علمی اور فکری حاسہ کو غذا پہنچاتی ہے۔ معاملات و اخلاق، ایثار و قربانی، غیرت اور استغنا کو زبان دیتی ہے، تہذیبی اور ثقافتی روایات کو پرواز عطا کرتی ہے، قول و عمل اور فہم و بصیرت میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہے غرض کہ زندگی گزارنے کا گر سکھاتی ہے۔
جناب پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفر اللہ/ حفظہ اللہ کے الفاظ میں:
’’اپنے اسلاف اور ان کے کارنامے بھلا دینا، ناخلف اور احسان فراموش لوگوں کا وطیرہ ہے اسلاف کی پاکیزہ حیات اور جملہ خدمات کو یاد رکھ کر ان کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کرنا، صالح فطرت اور خوش بخت افراد کا سلیقۂ زندگی ہے‘‘۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی دوسروں کی طرح زیادہ سے زیادہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو زینتِ قرطاس بنائیں اور یادِ رفتگاں کے چراغ کو روشن سے روشن تر کریں اور ان برگزیدہ شخصیات اور ذی علم لوگوں کے حالات زندگی کو حیطۂ تحریر میں لاکر ایک نئی تاریخ رقم کریں، جنھوں نے دعوت و عزیمت، تعلیم و تربیت، تصنیف و تالیف، درس و تدریس، امامت و خطابت، پند و نصیحت، ادبی، صحافتی، رفاہی، اجتماعی اور سیاسی جدوجہد میں اپنی زندگیاں کھپا دی تھیں، جن کے خیالات میں طہارت اور جذبات میں سچائی اور خلوص تھا، جس کے نتیجہ میں پوری قوم اور پوری ملت کو ایک نئی زندگی ملی، ملک جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا تھا انہی مردانِ حر کی کوششوں سے خلاصی اور رہائی ملی، گلشن اسلام، جس پر بدعات و خرافات کی خزاں کا دور تھا، ابر نو بہار نے اس کا استقبال کیا۔ شجر اسلام کی ٹہنیاں شاداب ہوگئیں اور ثمر آور بن گئیں ،دین اسلام کے ان جیالوں کے نقوش بر صغیر کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں دیکھے گئے اور محسوس کیے گئے۔ اسلام کے ان پروانوں کی فہرست بڑی لمبی ہے۔ اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضروت ہے اور حضرت مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی کے نقشِ قدم پر چل کر عرق ریزی و جگر سوزی کا ثبوت دے کر ایک نئے باب کا آغاز کریں جس میں علمی وزن، فکری تفوق اور صداقتِ بیان ہو۔ بہتر ہوگا کہ ’’مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند‘‘ کے ذمہ داران اپنے تمام اختلاف و انتشار اور خلفشار کو مٹا کر ایک نئی شفاف و امانت دار اور مخلص لوگوں پر مشتمل باڈی تشکیل دے کر اس کام کو آگے بڑھائیں اور خاص اسی کام کے لیے علماء کی ایک ٹیم ترتیب دی جائے جس کے ذمہ صرف تذکرہ نگاری اور سوانح نویسی ہی ہو۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہم صرف نفاق و شقاق اور خیانت کے ہی شکار ہیں۔ جماعت کے نام پر عہدہ اور منصب کو حاصل کرنا اور پھر کام نہ کرنا اس سے بڑھ کر اور خیانت کیا ہو سکتی ہے؟
اے لاالٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ، کردار قاہرانہ
(اقبالؔ)

آپ کے تبصرے

3000