زوال علم و ہنر مرگ ناگہاں اس کی:
پیدائش 1957 وفات، 15 اکتوبر 2022 ء
ہر سینہ نشیمن نہیں جبریل امیں کا
ہر فکر نہیں طائر فردوس کا صیاد
(اقبال)
آج سے تقریباً چوالیس (44) سال قبل کی بات ہے جب میں جامعہ محمدیہ نصرۃ الاسلام شنکر نگر سے جماعت رابعہ پڑھ کر فارغ ہوا تو استاذ محترم جناب ڈاکٹر محمد اقبال بن محمد اسحاق مدنی بسکوہری حفظہ الله و تولاہ (استاذ جامعہ محمدیہ مالیگاؤں) کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بغیر فارم بھرے ہوئے اپنے چند ہم سبق ساتھیوں(میرے علاوہ تمام نے فارم بھر رکھا تھا) کے ساتھ ہم نے 10/شوال 1398ھ مطابق 13ستمبر 1978م کو صحن مرکزی دار العلوم (جامعہ سلفیہ) بنارس میں قدم رکھا تو مرکزی دار العلوم کی عالمی شہرت کے پیش نظر دل کی دنیا عجیب تھی، خوشی اور گھبراہٹ کے ملے جلے جذبات دل میں ہیجانی کیفیت پیدا کر رہے تھے دو تین راتیں بے چینی میں گزریں، خوشی اس بات کی تھی کہ جامعہ میں پڑھنے اور پرواز کرنےکے بہترین مواقع ملیں گے اور گھبراہٹ اس بات کی تھی کہ امتحان داخلہ کے بعد نتیجہ کیا نکلتا ہے بہر حال 15/ شوال1398ھ مطابق 18/ ستمبر 1978 م کو ہم لوگوں کو داخلہ مل گیا، بے انتہا و بےپایاں خوشیاں ملیں اور ایک نئی زندگی کی شروعات ہوگئی، تعلیم کا آغاز ہوگیا، زندگی مشغول ہوگئی اور پھر اسی دوران بجرڈیہہ مناظرے کا شور سنائی دینے لگا اس کی تاریخ کا تعین بھی ہو گیا اور آخر وہ تاریخ آ بھی گئی۔
23 تا 26 اکتوبر 1978 م کی تاریخ، تاریخ کے باب میں ایک روشن تاریخ کی حیثیت سے رقم ہوگئی، استاذ محترم شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ الله نے اس سال دو تابناک تاریخیں رقم کی تھیں، ایک تو یہی مناظرہ بجرڈیہہ کی جیت کی شاندار تاریخ تھی جس نے پوری بریلوی دنیا میں ایک ہلچل اور بے چینی پیدا کر دی تھی، اور جس کے نتیجے میں غالبا بیالیس (42) افراد ایسے تھے جو بریلویت سے توبہ کر کے کتاب و سنت کا دامن تھام چکے تھے پورے برصغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش تک اس کی گونج سنائی دینے لگی تھی، دوسری طرف سیرت نگاری کے عالمی انعامی مقابلہ میں استاذ محترم شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ الله کو اوّل نمبر حاصل ہوا، یہ دوعظیم الشان تاریخی واقعات جامعہ سلفیہ مرکزی دار العلوم بنارس کے احاطے میں اس طرح واقع ہوئے جن کی بنا پر جامعہ سلفیہ مرکزی دار العلوم بنارس کو ہند اور بیرون ہند میں اس قدر شہرت ملی کہ جامعہ کا نام عالمی پیمانےپر لیا جانے لگا اور دنیا بھر کے اخبارات میں جامعہ سلفیہ بنارس کا نام چھپنے لگا۔ اب تو جامعہ سلفیہ بنارس کی شہرت اور پذیرائی کا عالم یہ تھا کہ دیوبند، ندوہ اور عمر آباد کے نام پس منظر میں چلے گئے اور پھر جامعہ سلفیہ بنارس کے طلبہ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کثرت سے ہونے لگا، وہاں بھی جامعہ سلفیہ بنارس کے طلبہ نے اپنا اور جامعہ کا خوب خوب نام روشن کیا، ان ممتاز طلبہ میں ایک نام شیخ محمد عزیز شمس رحمہ الله کا بھی تھا۔
شیخ رحمہ اللہ نہ تھکنے والے، بے پناہ محنت کش، بے انتہا اور بلا کے ذہین انسان تھے اس میں شک نہیں کہ آنے والی نسلیں ان کی خاکساری، تواضع اور فروتنی، ان کی ذہانت و فطانت، ان کے قلب و نظر کی رعنائی و زیبائی، شوق مطالعہ، قوت استحضار، قوت استدلال، وسعت معلومات، جودت طبع، تیز نگاہی، دور بینی، تجزیاتی نظر، دیوانگی کی حد تک مخطوطات کی تلاش، علمی جستجو، ادبی ذوق، تاریخی لگن، تذکرہ اور سیر و سوانح سے لگاؤ، علو فکر، بیدار مغزی، حوصلہ مندی اور اسلاف اور ان کے کارناموں سے عقیدت و محبت کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا سے بے رغبتی اور نفور کی مثالیں بھی پیش کیا کریں گی:
مکتبہ تھا موت اس کی، مکتبہ اس کی حیات
مکتبہ ہی بس رہا ہے اس کی پوری کائنات
دور تھے ان سے ہمیشہ دہر کے لات و منات
پیکر علم و ہنر اور پیکر صبر و ثبات
(مصلح نوشہروی)
وہ اپنی مثال آپ تھے، دیدۂ بینا، روشن ضمیر، عرفان نفس اور قلب مضطر کے مالک تھے اور ’’محنت ما، راحت ما، درد ما، درمان ما‘‘ کی ہو بہو تصویر تھے، اسلاف کی ذہانت اور قوت حافظہ و قوت استحضار کے بارے میں اساتذۂ کرام سے سنا اور کتابوںمیں پڑھا گیا ہے مگر شیخ عزیر کی ذہانت اور قوت حافظہ کو دیکھا اور پرکھا گیا ہے اور اب یاد بھی آئے تو فراق گورکھپوری کس موڑ پر یاد آ ئے۔
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے عزؔیر کو دیکھا ہے
(فراق سے معذرت کے ساتھ)
مذکورہ بالا تمام خوبیوں کے باوجود ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایک انسان تھے اور انسان کے ساتھ جو بشری تقاضے اور انسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں وہ چیزیں ان سے بھی وابستہ تھیں، اور ان چیزوں سے وہ بھی دو چار ہوتے رہتے تھے، آج ہمیں اس بات پر خوشی اور فخر ہے کہ ہم نے شیخ عزیر رحمہ الله کو جی بھر کر دیکھا ہے ان کے علمی کارناموں سے روشناس ہوئے ہیں، ان کی علمی صحبتوں میں بیٹھے ہیں، ان سے خوب خوب باتیں کی ہیں، وہ باتیں کیا کرتے تھے، علم کا دریا بہاتے تھے، کوئی بھی موضوع ہو تشنہ نہیں چھوڑتے تھے، ایسا لگتا تھا اس فن میں تبحر اور تخصص حاصل ہے، ایک ایک جزء سے بحث کرتے اور سامنے والے کو مطمئن کر دیتے تھے، ایک سیاست کا میدان تھا جس کے گلیاروں کی سیاحت غالبا انھوں نے کم کی تھی، (اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں نے بہت کی ہے)
’’تاریخ یاد نہیں ہے ایک دفعہ شیخ رحمہ اللہ صحن حرم میں اپنے چند پاکستانی دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے، اتفاق سے راقم الحروف بھی شریک بزم تھا، سابق صدر پاکستان جناب جنرل ضياء الحق رحمہ الله پر گفتگو چل پڑی، دوران گفتگو ایک صاحب کو میں نے ٹوک دیا، کہنے لگے ضیاء صاحب کے بارے میں آپ کو کیا معلوم؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس ایک کتاب ہے اس میں اسی طرح لکھا ہے اور بڑی دلچسپ کتاب ہے شیخ رحمہ الله فوراً بول پڑے کتاب اور مصنف کا نام بتاؤ، میں نے نام بتایا ’’کوڑھ کی کاشت‘‘ از ڈاکٹر حقی حق، شیخ رحمہ الله نے فوراً جیب سے قلم اور کاغذ نکالا، کتاب اور مصنف کا نام لکھا اور کہنے لگے میں اس کتاب کو ضرور منگوا کر پڑھوں گا گویا وہ اپنے کاموں کے ماورا بھی نئی چیزوں کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔‘‘
شیخ عزیر رحمہ اللہ کی نظر بہت تیز اور ہر چیز پر رہتی تھی، یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تعلیم تھے، استاذ محترم شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے الفاظ میں:
’’10جولائی 1978 م کو چاشت کے وقت پوری رات مناظرہ بجرڈیہہ کے شرائط طے کرنے کے بعد بے خبر سو رہا تھا کہ اچانک حجرے سے متصل سیڑھیوں پر طلبہ کا شور و ہنگامہ سنائی پڑا، اور آنکھ کھل گئی، اتنے میں طلبہ کا ریلا حجرے کے اندر تھا، ان کے چہروں پر بے پناہ مسرت کے آثار اور زبانوں پر مبارکبادی کے کلمات تھے۔‘‘
’’ کیا ہوا؟ کیا مخالف مناظر نے مناظرہ کرنے سے انکار دیا؟ میں نے لیٹے ہی لیٹے سوال کیا۔
’’ نہیں، بلکہ آپ سیرت نگاری کے مقابلے میں اوّل آگئے ہیں۔‘‘
’’ اللہ! تیرا شکر ہے‘‘آپ حضرات کو اس کا علم کیسے ہوا؟ میں اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔
’’مولوی عزیر شمس یہ خبر لائے ہیں‘‘
مولوی عزیر یہاں آچُکے ہیں؟
’’جی ہاں‘‘
اور چند لمحوں کے بعد مولوی عزیر مجھے تفصیلات سنا رہے تھے۔‘‘ (الرحیق المختوم ص 24)
یہ ہے شیخ عزیر رحمہ اللہ کے ذہن کی تیزی کہ ہر ایک چیز پر نظر رکھتے تھے، اور سب سے پہلے رکھتے تھے، صاحب معاملہ کو اس واقعہ کی خبر تقریباً بیس دن کے بعد بذریعۂ ڈاک ملتی ہے جب کہ شیخ عزیر رحمہ اللہ اسی خبر کو بیس دن پیشتر سنا رہے تھے اور پوری تفصیل سے سنا رہے تھے۔
جب ہم لوگ جامعہ میں پڑھنے لگے تو اساتذہ اور طلبہ کے تعلق سے بہت ساری باتیں سننے میں آنے لگیں اور یہ باتیں سینہ بسینہ منتقل ہو رہی تھیں، انہی باتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جامعہ سلفیہ بنارس کے فارغین میں دو طالب علم بے حد ذہین تھے اور ان کے بڑے چرچے تھے ایک کا نام (شیخ) محمد عزیر شمس (رحمہ اللہ) تھا اور دوسرے طالب علم کا نام (شیخ) رفیع احمد (حفظہ اللہ آسٹریلیا والے) تھا ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے با صلاحیت، ذہین و فطین اور ہونہار طلبہ جامعہ سلفیہ بنارس سے فارغ ہو چکے تھے لیکن جتنی شہرت ان دو طالب علموں کی تھی کسی اور کی نہیں تھی، اور دونوں بزرگوں کی شہرت کے متعدد اسباب تھے لیکن دو اسباب سب سے اہم تھے اور دونوں کے لیے دو مختلف اسباب تھے۔ شیخ عزیر رحمہ الله کی شہرت اس بات پر تھی کہ دوران طالب علمی ہی انھوں نے محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داؤد) کی حیات و خدمات پر ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب تالیف فرما دی تھی اور شیخ رفیع احمد حفظہ اللہ کی شہرت اس بات سے تھی کہ انھوں نے مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ (سابق ناظم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) کی کتاب ’’جب ایماں کی بہار آئی‘‘ کا اپنے ایک مضمون میں تاریخی تنقیدی جائزہ لیا تھا جس سے خوش ہو کر خطیب الاسلام مولانا عبد الروؤف رحمانی جھنڈا نگری رحمہ اللہ نے ان کو انعام سے نوازا تھا، یقیناً یہ دونوں کارنامے بڑی اہمیت کے حامل تھے جن کی پذیرائی کرنا ایک خوش آئند بات تھی۔
شیخ رفیع احمد حفظہ الله سے اس وقت ملاقات ہوئی جب وہ فراغت کے بعد مرکزی دارالعلوم کے مرکزی مکتبہ کے امین المکتبہ تھے اور کئی ایک ملاقاتیں رہیں، جب ہم لوگوں کا داخلہ جامعہ سلفیہ بنارس میں ہوا، اس کے بعد وہ چند ماہ تک جامعہ میں تھے اور اس کے بعد ان کا بھی داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہوگیا اور پھر وہ بھی چلے گئے۔
شیخ عزیر رحمہ اللہ سے پہلی ملاقات کب ہوئی یاد نہیں ہے اتنا ضرور یاد ہے کہ جب بھی وہ چھٹیوں میں مدینہ سے وطن عزیز ہندوستان آتے تھے تو بنارس ضرور تشریف لاتے تھے اور ایک آدھ بار میں ان کےپروگراموں میں شریک بھی رہا، اور سوال و جواب کا سلسلہ بھی چلا، البتہ اس وقت تک قربت حاصل نہیں ہوئی تھی، یہ دید و شنید روا روی کی منزل سے آگے نہیں بڑھی تھی، پہلی بار جب میں نے 1991 م میں دبی متحدہ عرب امارات سے بغرض حج مکہ مکرمہ کا سفر کیا تو شیخ عزیر رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی برادر مکرم عمیر شمس حفظہ اللہ سے میری اچھی خاصی شناسائی تھی اور وہ بھی موسم حج میں موجود تھے اور پھر ان کے ساتھ غالباً شیخ عزیر رحمہ اللہ سے میری باقاعدہ پہلی ملاقات ان کے گھر (عزیزیہ) پر ہوئی تھی، اس کے بعد سے یہ ملاقات ایک پائدار تعلقات میں تبدیل ہوگئی اور جب بھی حرمین کی زیارت کے لیے جاتا رہا، ان سے ملاقات ہوتی رہی اور علمی و قلمی گفتگو ہوتی رہی بسا اوقات ان کےپاس اپنی امانتیں بھی رکھتا رہا، کئی بار ان کے گھر پر بلا تکلف ما حضر کھانا پینا بھی ہوتا رہا، میرے روحانی استاذ قاری عبد المنان اثری رحمہ الله سے ان کے تعلقات بہت اچھے تھے اور بعض دینی امور میں ان سے مشورہ بھی ہوتا رہا، اس لحاظ سے میری ذات سے متعلق بعض ایسے مسائل تھے جن کے بارے میں شیخ رحمہ اللہ مجھے نصیحت بھی کرتے رہے اور چونکہ صاحب معاملہ بھی مکہ میں ہی رہتےتھے اور میرے تعلق سے جو ان کو غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوگئی تھیں شیخ رحمہ اللہ نے ہم دونوں کو آمنے سامنے بیٹھا کر اس کو دور کرنے کی سعی مشکور فرمائی، اس کے بعد ان صاحب کی غلط فہمی دور ہوئی، فجزاه الله خيرا۔
ہمارے شیخ عزیر رحمہ الله خورد نواز بھی تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی ہمت افزائی خوب فرماتے تھے، راقم کی بعض تحریریں ان کی نظر سے گزریں، تو تشجیع و تحسین فرمائی، پھرمسلسل لکھنے پڑھنے کی تلقین فرمائی، ایک بار پوچھنے لگے کہ جب تم کاروبار زندگی میں اتنے مشغول رہتے ہو تو پھر کب پڑھتے لکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ روزانہ میں دو گھنٹے ضرور مطالعہ کے لیے وقت نکال لیتا ہوں کہنے لگے بہت خوب، یہ عمل تم جاری رکھنا اگر انسان دل جمعی کے ساتھ صرف دو گھنٹہ ہی پڑھ لے تو اس کے لیے بہت ہے، چنانچہ جب مرکزی دار العلوم بنارس کی تاریخ کے تعلق سے میری تنقیدی کتاب منظر عام پر آئی، اور حرم مکی میں پہنچ کر ان کو پیش کی تو بہت خوش ہوئے، اور پڑھنےکے بعد کہنے لگے کہ عشاء کے بعد پڑھنے بیٹھا تو سوچا لاؤ ختم کر لیتے ہیں، اور پھر ختم کر لی، میں نے تاثرات پوچھا تو کہنے لگے بہت اچھا تاریخی تجزیہ ہے اس سے آگے مجھے بھی کوئی معلومات نہیں ہے تم نے تقریباً سارے ہی مراجع کا استدراک کرلیا ہے اور خوب تجزیہ کیا ہے البتہ اسلوب قدرے سخت ہے نرم ہونا چاہیے تھا، آئندہ اس بات کا خیال رکھنا اور سخت الفاظ کو خارج کر دینا، اور پھر ہمارے ہم سبق ساتھی رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ الله کی تحریروں کی بھی خوب تعریف کی، اور اس کے بعد امام ابن القيم رحمہ الله کی کتاب ’’الكلام على مسالة السماع‘‘ جس کی انھوں نے تحقیق کی تھی عنایت فرمائی رحمہ الله و غفر لہ۔
شیخ عزیر رحمہ اللہ کے علمی کمالات، مخطوطات کی تحقیقات، تخریجات اور تصنیفات و تالیفات پر اہل علم روشنی ڈالیں گے، اور بہت سارے اہل علم اخوان ان موضوعات پر اپنے اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار مختلف انداز اور پیرائے میں کر بھی چکے ہوں گے، آج میں بھی ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے ان کی بھاری بھرکم علمی شخصیت کو ان کے مختلف اردو مضامین کی روشنی میں دیکھنے اور اُجاگر کرنے کی ان شاء الله ایک ادنی کوشش کروں گا کہ وہ مضامین بھی کتنی تحقیق اور علمی معلومات اکٹھا کرنے کے بعد ہی لکھا کرتے تھے، کوئی بھی موضوع ہو اسلوب سادہ آسان اور عام فہم، ادق الفاظ سے دوری بنائے رکھتے تھے، بے لاگ تبصرے کرتے اور مفید مشورے بھی دیتے تھے، ہمیں ان کی رائے اور خیال سے اتفاق ہو یا اختلاف، لیکن یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ وہ جب بھی کچھ لکھتے تھے تو ہمارے سامنے معلومات کا ایک ذخیرہ اور خزانہ رکھ دیتے تھے، اور اصل مصادر و مراجع کی ایک لمبی فہرست ہوتی تھی، اور پھر وہ علم کے موتیوں کو ہمارے سامنے بکھیرتے چلے جاتے تھے اور ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان علمی موتیوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے لگتا تھا اور وہ بزبان حال وقال کہا کرتے تھے: ’’کچھ خوشبوؤں کی گرد یہاں چھوڑ جاؤں گا ‘‘
مجھ کو پڑھیں گے لوگ، تو سوچیں گے کیا فضا !
کاغذ پہ، چند حرف زیاں چھوڑ جاؤں گا
(فضا ابن فیضی)
معاصرین میں جن اصحاب قلم کی تحریروں سے میں متاثر رہا، ان میں ایک نام شیخ عزیر شمس رحمہ الله کا رہا ہے اور میں ان کی تحریروں کا دیوانگی کی حد تک تتبع اور تلاش کرتا رہا اور پہلی فرصت میں ان کو پڑھ کر فارغ ہو جاتا تھا اس لیے کہ ان کی ہر تحریر تحقیق، تنقید و تنقیح، معلومات اور حوالہ جات سے بھر پور ہوتی تھی، اور پڑھنے کے بعد جو معلومات اکٹھا ہوتی تھیں ان سے بڑی آسودگی محسوس کرتا تھا ان کے مضامین عموماً ترجمان(دہلی)، التوعیہ(دہلی) اور محدث(بنارس) میں چھپتے تھے، معارف(اعظم گڑھ) اور برہان(دہلی) میں بھی ان کے مضامین چھپتے تھے مگر میری رسائی ان پرچوں تک نہیں ہوسکی، جب خیال آیا کہ ان کی تحریروں پر کچھ تبصرہ کروں تو ترجمان اور التوعیہ کی فائلیں الٹنے پلٹنے لگا پھر چند ایک مضامین ہی ہاتھ لگے، تو پھر خیال آیا کہ ان کے مقالات کا مجموعہ چھپ گیا ہے اس کو منگوانا اور پڑھنا چاہیے چنانچہ رفیق گرامی جناب مولانا رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ الله کو میسیج ڈالا کہ اگر شیخ عزیر رحمہ اللہ کے مقالات پر مشتمل جو کتاب منظر عام پر آئی ہے، آپ کے پاس کوئی نسخہ ہے تو روانہ فرما دیں عین نوازش ہوگی، پھر انھوں نے اپنا نسخہ روانہ فرمایا اور اب ان مقالات کو پڑھنے کے بعد اپنا تاثر نقل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، میں اپنی اس کوشش میں کہاں تک کامیاب نظر آتا ہوں یہ فیصلہ قارئین ذی احترام کی نظر عنایت پر موقوف ہے ان کے مقالات کی پہلی جلد جو منظر عام پر آئی ہے وہ تقریباً 612 صفحات پر مشتمل ہے اور ابھی دوسری اور تیسری جلدیں آنی باقی بھی ہیں، ان کے مقالات مختلف النوع ہیں، تمام کو پڑھنا اور ان پر تبصرہ کرنا طوالت کا باعث ہوگا، اس لیے چند مقالات کا انتخاب کرکے ان پر تبصرہ کروں گا ان شاء الله۔
سب سے پہلے میں ان کے مضمون ’’فتوی نویسی کی تاریخ ‘‘ پر ایک نظر ڈالتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اس چھوٹے سے مضمون میں انھوں نے کس قدر معلومات کی ایک دنیا بسا دی ہے۔ یہ مضمون ماہنامہ التوعیہ دہلی کے شمارہ جولائی، اگست، ستمبر اور اکتوبر 1990 م میں شائع ہوا ہے لیکن پہلا شمارہ جولائی کا میرے پاس نہیں ہے اس لیے ’’مقالات‘‘ کتاب کے صفحات سے مدد لی گئی ہے۔
چنانچہ فتوی نویسی کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں: ’’لغت کی کتابوں میں کسی ایسی عبارت یا شعر کا ذکر نہیں، جس میں ’’فتوی‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہو، اگر چہ علماء اور فقہاء نے بعد میں دونوں ہی (فتوی اور فتیا) الفاظ عام طور پر استعمال کیے ہیں اس کی جمع ’’فتاوی‘‘ (ی پر کھڑی الف) یا ’’فتاوی‘‘ (واؤ پر زیر) معروف رہی ہے قرآن مجید میں بھی گیارہ مقامات پر اس کے مشتقات وارد ہوئے ہیں جو استفتا (سوال پوچھنے) اور افتا (جواب کی وضاحت کرنے) کے مختلف صیغے ہیں اسی سے پوچھنے والے کو ’’مستفتی‘‘ اور فتوی دینے والے کو ’’مفتی‘‘ کہتے ہیں۔‘‘(مقالات،ص:253)
آگے مزید فتوی نویسی کی تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’ فتوی پوچھنے اور فتوی دینے کا سلسلہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوتا ہے پندرہ صدی کے طویل عرصے میں علماء نے اس شعبے کی دینی اہمیت کے پیش نظر ہمیشہ ہی اس کا خصوصی اہتمام کیا ہے، تمام مسلمان اپنے اکثر دینی و دنیاوی امور سے متعلق پیش آمدہ مشکلات اور مسائل کے حل کی خاطر برابر ان کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں، ان مسائل کا تعلق خواہ عقائد و عبادات سے ہو یا معاملات و اخلاق سے، یا باہمی اختلاف و نزاع سے، ہر حال میں وہ شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لیے مفتیوں سے مدد لیتے رہے ہیں اور انھوں نے بھی افتا کو اپنا فریضۂ منصبی تصور کرتے ہوئے ہمیشہ ہی ان کی رہنمائی کی ہے، افتا کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے قرآن مجید میں دو جگہ لوگوں کے فتوی پوچھنے کے جواب میں اللہ تعالی کے فتوی دینے کا ذکر آیا ہے (سورۃ النساء:۱۲۷، ۱۸۶) رسول اللہ صلی الله علیہ و سلم، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور دیگر ائمہ دین و علمائے اُمت نے اس ذمے داری کو بہ خیر و خوبی نبھایا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، عہد رسالت میں اور اس کے بعد بہت سے صحابۂ کرام نے اپنے اجتہاد سے بعض مشکل دینی مسائل میں فتاوی صادر فرمائے، علامہ ابن حزم (م ۴۵۶ھ) نے ایسے ایک سو بیالیس (۱۴۲) صحابہ اور بیس (۲۰) صحابیات کا ذکر کیا ہے جن سے فتاوی منقول ہیں۔ عہد صحابہ میں فتاوی کا سلسلہ زبانی اور تحریری دونوں طریقوں سے جاری رہا، مدینہ، مکہ،کوفہ بصرہ، شام اور مصر ہر جگہ لوگ مشکل مسائل کے سلسلے میں بعض جلیل القدر صحابہ کی طرف رجوع کرتے تھے جو وہاں مسند فتوی پر متمکن تھے، یہ سلسلہ تقریباً پہلی صدی کے اخیر تک جاری رہا، پھر تابعین اور تبع تابعین کا دور شروع ہوتا ہے، اس دور میں منصب افتا اجلہ تابعین و تبع تابعین کے سپرد رہا ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو صحابہ کرام کی موجودگی میں بھی فتوی دیتے تھے مثلاً سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر وغیرہ۔‘‘ (مقالات، ص: 255)
اوپر بیان کردہ تفصیل کے بعد وہ کہتے ہیں کہ دوسری صدی ہجری میں ہی اصول و قواعد میں اختلاف کی بنا پر فقہاء دو گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ کا نام اہل حدیث تھا جن کا فتوی دینے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حضرات احادیث نبوی اور صحابہ کے فتاوی کی بنیاد پر اپنے فتاوی کی بنیاد اور اساس رکھتے تھے، اور پھر دوسرا گروہ اہل الرائے کا تھا جس میں عراق کے فقہاء کی غالب اکثریت تھی ان کے پاس چونکہ احادیث کا ذخیرہ کم تھا اس لیے وہ فتوی دیتے وقت رائے اور قیاس کا استعمال کثرت سے کرتے تھے اور کچھ ایسے اصول و قواعد انھوں نے وضع کر لیا تھا جن کو پیش نظر رکھ کر پیش آمدہ مسائل حتی کہ محال اور غیر ممکن الوقوع بے شمار مسائل پر گفتگو کرتے، اپنی رائے کا اظہار کرتے اور اس کے بعد ان کو فقہ و فتاوی کی کتابوں میں جمع بھی کرتے رہے۔
چنانچہ فتوی نویسی کے عہد بہ عہد جائزہ لینے کے بعد شیخ عزیر رحمہ الله لکھتے ہیں:
’’کہ ابتدائی صدیوں میں فتوی نویسی کے وقت احادیث و آثار اور فتاوے صحابہ و تابعین پر اعتماد کیا جاتا تھا بعد میں تقلیدی مذاہب وجود میں آئے اور ان کے اصول و ضوابط وضع کیے گئے، چنانچہ فتوی نویسی میں جمود و تقلید کے آثار نمایاں ہوئے اس میدان میں بے شمار کتابیں تصنیف کی جا چکی ہیں جن میں اکثر حنفی علماء کی تصنیف کردہ ہیں، ان کے علاوہ شافعی، مالکی اور حنبلی مکتب فکر کے علماء نے بھی اپنے اپنے مسلک کے مطابق فتاوی کے مجموعے تیار کیے مقلدین کے علاوہ سلفی نقطۂ نظر کے حامل علماء نے بھی ہر دور میں اس فن پر کتابیں لکھیں، اور ان (مقلدین) کے بالمقابل علمائے حدیث کی ایک جماعت ہر دور میں ایسی رہی جو سلف صالحین (صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین) کے طریقے پر کار بند رہی ہے فتوی نویسی کے وقت انھوں نے وہی طریقہ اپنایا جو سلف کے یہاں رائج تھا۔‘‘
(مقالات، ص: 258-261 ایضاً التوعیہ، نئی دہلی ماہ اگست 1990 ص 11)
شیخ عزیر رحمہ اللہ نے اپنے مضمون ’’فتوی نویسی کی تاریخ“ میں عربی، فارسی اور اردو کی تقریباً اسی (80) کتب فتاوی کا ذکر کیا ہے، ان میں مطبوعہ کتابوں کے علاوہ قلمی نسخوں کا بھی ذکر ہے اور اسی فہرست میں علمائے اہل حدیث کے فتاوی کے متعلق لکھی گئیں تقریباً چودہ (14) کتابوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ مضمون 1989 م میں لکھا گیا تھا اس لیے اس میں دو کتب فتاوی کا ذکر نہیں ہے اس لیے کہ اس وقت وہ دونوں کتابیں زیور طبع سے آراستہ نہیں ہو سکی تھیں، اتفاق ہے کہ دونوں کی طباعت دو ہزار اٹھارہ (2018ء) میں ہوئی، ایک شیخ الحديث علامہ عبید الله رحمانی مبارکپوری رحمہ الله کا ’’فتاوی رحمانیہ‘‘ ہے اور دوسرے ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی رحمہ الله کا فتاوی ’’نعمۃ المنان‘‘ہے جب کہ مضمون میں اس بات کا اعتراف ہے کہ سابقہ تمام کتب فتاوی کو نقل نہیں کیا گیا ہے اور پھر مصادر میں بھی تقریباً اسی (80) امہات الکتب (یعنی اصل مصادر) کا ذکر ہے، پھر بعض کتب فتاوی پر قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے اور ان کے حسن و قبح پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی تحریر پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے کسی بھی کتاب پر گفتگو اس وقت کی ہے جب اس کتاب کو مکمل طور پر پڑھنے کے بعد اپنے اندر ہضم اور محفوظ کرلیا ہے۔ فتاوی کی کتابوں کی بعض خامیوں اور محققین کی تحقیق پر نقد بھی کرتے ہیں اور جہاں تعریف کرنے کی ضرورت پڑی ہے وہاں تعریف بھی کرتے ہیں، بر صغیر ہند و پاک میں جو کتب فتاوی مدون ہوئی ہیں میری گفتگو انہی کتابوں کے ارد گرد ہوگی، ان میں علمائے احناف اور علمائے اہل حدیث کی کتابیں شامل ہیں، سب سے پہلے ’’فتاوی عالمگیری‘‘ پر بات کرتے ہیں کیوں کہ یہ بر صغیر ہند و پاک کے فتاوی کے تعلق سے لکھی گئی کتابوں میں سب سے زیادہ شہرت رکھتی ہے اگر چہ ترتیب کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر آتی ہے۔
علمائے احناف کے فتاوی پر عمومی تبصرہ کرتے ہوئے شیخ عزیر رحمہ الله یوں رقم طراز ہیں:
’’علمائے احناف کے فتاوی کے مجموعوں پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے فقہی مسائل میں اپنے مذہب کی سختی سے پابندی کی ہے اور دوسرے مکاتب فکر کی آراء سے کم ہی استفادہ کیا ہے۔ اگر کہیں اپنے مذہب کے خلاف کسی کا قول نقل بھی کرتے ہیں تو اس غرض سے کہ اس کی تردید کریں، عام طور پر اکثر مفتی حضرات فتاوی کی پچھلی کتابوں پر اعتماد کرتے ہوئے فتوے لکھتے ہیں، کتاب و سنت سے براہ راست مسائل کی تحقیق نہیں کرتے، دلائل میں اگر کہیں احادیث کا ذکر بھی کرتے ہیں تو ہر طرح کی رطب و یا بس اور صحیح و ضعیف کو اکٹھا کرکے رکھ دیتے ہیں، ان کی تنقید و تحقیق پر یا تو اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ اس طرح اختلافی مسائل میں دوسروں کے مقابلے میں ان کے دلائل کی حقیقت آشکارا ہو جائے گی، یا پھر حدیث میں اس جیسی صلاحیت کے مالک نہیں ہوتے جس کا مظاہرہ وہ فقہی مباحث میں کرتے ہیں۔‘‘ (مقالات:286)
خط کشیدہ عبارت میں شیخ رحمہ الله کی پہلی بات ہی درست ہے اور دوسری بات کہ احناف ’’حدیث میں اس جیسی صلاحیت کے مالک نہیں ہوتے جس کا مظاہرہ وہ فقہی مباحث میں کرتے ہیں‘‘ اس بات سے اتفاق کرنا ذرا مشکل ہے۔ دار العلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث اور مشہور محدث مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ الله کا فن حدیث میں ایک اعلی مقام تھا اور وہ واقعی بلند پایہ محدث تھے اور ان کی لکھی ہوئی صحیح بخاری کی شرح ’’فیض الباری‘‘سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے ایک بے مثال محدث تھے جس کا اعتراف مولانا آزاد رحمہ الله نے بھی کیا ہے اور پھر آخری دور میں مسلک احناف کے اندر مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ بھی بڑے محدث کے لقب سے ملقب تھے اور فن حدیث میں ان کی نمایاں خدمات بھی ہیں۔ اسی طرح مولانا محمد زکریا کاندھلوی بھی شیخ الحدیث کے لقب سے معروف تھے اور ایک حدیث کی کتاب مؤطا امام مالک کی شرح بھی لکھی ہے اس لیے یہ کہنا کہ احناف ’’حدیث میں اس جیسی صلاحیت کے مالک نہیں ہوتے جس کا مظاہرہ وہ فقہی مسائل میں کرتے ہیں‘‘ بات درست نہیں ہے، یہ برصغیر میں احناف کے محدثین میں سے میں نے صرف بطور ثبوت چند کے نام پیش کر دیے ہیں ورنہ اور بھی معروف محدثین ہیں مثلاً مولانا خلیل احمد سہارن پوری، مولانا احمد علی سہارن پوری اور مولانا عبدالحیٔ لکھنؤی رحمہم الله، آخر الذکر نے تو احادیث کی بنیاد پر احناف کے بہت سارے مسائل کی مخالفت بھی کی ہے مگر ان کے ماننے والے ان کے نقش قدم پر نہیں چل سکے، اس لیے شیخ عزیر رحمہ الله کی پہلی بات ہی درست ہے کہ احناف اختلافی مسائل میں احادیث کی چھان بین اس لیے نہیں کرتے ہیں تاکہ حقیقت پر پردہ پڑا رہے اور ان کے مسائل کی حقیقت سے عوام آشنا نہ ہوسکے، اور علمائے احناف عموماً اپنی پوری زندگی حنفی مسلک کی تائید و توثیق اور اس کو ترجیح دینے میں ہی گزار دیتے ہیں الله تعالیٰ ان کو صحیح سمجھ کی توفیق دے و ما ذالك على الله بعزيز، اس بات پر مجھے مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ الله کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے جو ان کو ان کے استاذ علامہ و محدث انور شاہ کاشمیری رحمہ الله کے ساتھ پیش آیا تھا مفتی صاحب بیان کرتے ہیں:
’’ایک اجلاس کے موقع پر نماز صبح سے کچھ پہلے علامہ انور شاہ کشمیری کے کمرے میں آئے تو کیا دیکھا کہ شاہ صاحب یہ فقرہ مسلسل دہرا رہے ہیں کہ’’ہائے میں نے ساری عمر ضائع کر دی“ اس فقرہ کو بار بار سننے کے بعد میں نے شاہ صاحب سے کہا کہ حضرت آپ کی ساری عمر قرآن و حدیث پڑھانے میں گزری ہے اگر یہ مشغلہ تضییع عمر ہے تو اس کام میں جتنے لوگ بھی مشغول ہیں ان کی بابت کیا ارشاد ہے؟ اس کے جواب میں شاہ صاحب نے نہایت درد و اخلاص سے فرمایا: بھائی ساری دنیا میں دین کی اساس کھوکھلی کی جارہی ہے اور ہم اصل خطرے کا مقابلہ کرنے کے بجائے امام ابو حنیفہ رحمہ الله کی تائید و توثیق اور ان سے مخالف رائے رکھنے والے علماء کی تردید و تنقید میں لگے ہوئے ہیں یہ تضییع عمر نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ (وحدت امت ص 18 بحوالہ اللمحات ج 1 ص 9- 10)
اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر علمائے احناف کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کے مقابلے میں ان کے دلائل کی حقیقت آشکارا نہ ہو اسی لیے احادیث کا علم رکھنے اور پرکھنے کا ہنر ہونے کے باوجود احادیث کی زیادہ چھان پھٹک نہیں کرتے ہیں۔ اس کے بعد شیخ عزیر رحمہ الله احناف کے فتاوی میں جو نقص پایا جاتا ہےاس پر مزید گفتگو کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
’’ایک اور نقص جو ان فتاوی میں نظر آتا ہے، وہ یہ کہ عصر حاضر کے پیدہ شدہ مسائل سے متعلق ان میں تشفی بخش بحث نہیں ہوتی ہے، جسے پڑھ کر جدید تعلیم یافتہ حضرات مطمئن ہو سکیں، اکثر علماء اپنے اسلاف کے حوالے سے (جنھیں وہ بڑے بڑے القاب سے متصف کرتے ہیں) ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہیں جن سے مرعوب ہو کر کوئی شخص ازسرنو مسائل کی تحقیق کرنے کے لیے قدم اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا، ’’ تبلیغی نصاب‘‘ پڑھانے اور ’’بہشتی زیور‘‘ پہنانے کے بعد اگر کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے تو اسے یہ فتاوی پورا کر دیتے ہیں۔ “ (مقالات:286)
شیخ رحمہ الله کی اس عمومی گفتگو کے بعد اب جی چاہتا ہے کہ انھوں نے ’’فتاوی عالگیری‘‘ پر جو بات کی ہے اس کو نقل کیا جائے، اس لیے کہ اس کے متعلق ان کا نقطۂ نظر کچھ مختلف ہے اور اس کے تعلق سے کچھ صائب اور خوشگوار رائے رکھتے ہیں اور بڑی اچھی باتیں لکھی ہیں وہ لکھتے ہیں:
’’فتاوی عالمگیری کو بعض خصوصیات کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل ہے، اس میں جو مسائل بیان کیے گئے ہیں، وہ یا تو راجح اور مفتی بہ ہیں یا کتب ظاہر الروایہ کے ہیں، ایسے مسائل بہت کم درج کیے گئے ہیں جو شاذ اقوال پر مبنی ہیں، اختلاف اقوال کی صورت میں سیر حاصل بحث کے بعد وہی قول ذکر کیا گیا ہے جو راجح ہے، جملہ مسائل پر بحث و تمحیص اور ان کی تشریح و توضیح میں کمال احتیاط اور ذہانت کا ثبوت دیا گیا ہے مسائل کی تکرار اور متن میں حشو و زوائد سے پرہیز کیا گیا ہے، چونکہ علمائے فقہ کی ایک جماعت کی تگ و تاز علمی کا نتیجہ ہے، اس لیے ضخامت کے باوجود ان اغلاط و اسقام اور نقائص و عیوب سے بڑی حد تک پاک ہےجو عام طور دوسری فقہی کتابوں میں نظر آتے ہیں، اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مسئلہ کے ماخذ کا حوالہ دیا گیا ہے اور فقہ حنفی کی تمام اہم اور قابل ذکر کتابیں شامل ہیں، ابواب کی تقسیم اور مضامین کی ترتیب ”ہدایہ“ کے طرز پر ہے جس کی وجہ سے تلاش مسائل میں کوئی دشواری نہیں ہوتی، فتاوی عالمگیری کی یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اسے تمام عالم اسلامی میں قبولیت اور شہرت حاصل ہوئی، ہندوستان، مصر اور بیروت میں وہ بار بار چھپی، اس کے فارسی اور اردو اور بعض مباحث کے انگریزی ترجمے بھی ہوئے، ہندوستان کی انگریزی عدالتوں میں مسلمانوں کے شرعی مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک مدت تک فتاوی عالمگیری پر عمل ہوتا رہا، آج بھی مفتی، قاضی اور محقق علماء اس پر اعتماد کرتے ہیں۔‘‘ (مقالات ص 278/279 ایضا التوعیہ نئی دہلی ماہ اگست 1990 ص 20)
یہ باتیں عام علمائے احناف کے فتاوی کے تعلق سے تھیں جن پر نقد بھی ہے اور دوسری طرف فتاوی عالمگیری کی تعریف اور حقیقت بھی بیان کر دی گئی ہے، آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ بریلوی مکتب فکر کے علماء کے فتاوی پر کیا لکھتے ہیں، جب کہ وہ بھی احناف کی ہی ایک کمزور شاخ ہے جنھوں نے مسلک حنفی کی مٹی مزید پلید کی ہے چنانچہ ان کے تعلق سے مختصرا یوں رقم طراز ہیں:
’’بریلوی علماء فروعی مسائل میں اپنے دیوبندی بھائیوں کے ہم مسلک ہیں، لیکن وہ ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ان تمام بدعات و خرافات کے قائل نظر آتے ہیں جو بر صغیر میں رائج ہیں، اپنے فتاوی میں وہ ان سے سر مو انحراف کو ’’وہابیت“ قرار دیتے ہیں اور اپنے تمام مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں، ان کے پیشوا مولانا محمد رضا خان بریلوی (م1340ھ) کے مجموعۂ فتاوی ’’العطايا النبوية فى الفتاوى الرضوية‘‘ پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بدعات کی ترویج و اشاعت اور موضوع و بے اصل احادیث و اقوال سے ان کی تائید کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، اس سلسلے میں انھیں حنفی مسلک کی فقہی کتابوں میں موجود اپنے علماء کے فتوؤں کی بھی کوئی پروا نہ رہی، عقائد کے باب میں سیکڑوں مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں علمائے احناف کے اقوال واضح طور پر موجود ہیں بلکہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ الله نے بھی ان سے متعلق رائے دی ہے مگر مولانا بریلوی کو ان کے مطابق فتوی دینا پسند نہ آیا، ہمیشہ بدعت کو وہ سنت ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے، آج تک یہی روش ان کے تمام متبعین نے اپنے فتاوی اور دیگر کتابوں میں اختیار کر رکھی ہے۔‘‘ (مقالات ص 287 ایضا التوعیہ نئی دہلی ماہ ستمبر ص 37)
یہ حنفی مسلک کے درخت کی دو شاخوں کے فتوؤں کے متعلق ہمارے شیخ کا بے لاگ علمی تبصرہ ہے ایک شاخ کم جھکی ہے اور دوسری ضرورت سے زیادہ جھک گئی ہے۔ اب آئیے مسلک حق یعنی مسلک اہل حدیث کے ماننے والوں کے فتاوی پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں، جہاں ہر ایک مسئلہ کے تعلق سے فتوی دیتے وقت قرآن و حدیث، اقوال صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کے آثار اور ائمۂ مجتہدین کے اقوال سے دلیل اور حجت قائم کی جاتی ہے اور اس کے بعد فتوی صادر کیا جاتا ہے، علمائے اہلحدیث کے فتاوی میں کوئی بات بلا سند نہیں ملے گی، یہ ہمارے اسلاف کی سب سے بڑی خوبی ہے، ہمارے شیخ کی تحقیق کے مطابق مسلک اہل حدیث کے فتاوی کے مجموعے چودہ (14) ہیں اور بعد میں طبع ہونے والے چار مجموعوں: فتاویٰ رحمانیہ، فتاویٰ نعمۃالمنان، فتاویٰ بھوجیانی اور فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ کو شامل کر لیا جائے تو ان کی کل تعداد سولہ (18) ہو جاتی ہے اگر چہ ہمارے شیخ نے ’’فتاوی رحمانیہ“ پر مختصر گفتگو کی ہے اور جلد شائع ہونے کی امید ظاہر کی ہے، چنانچہ علمائے اہلحدیث کے فتوی دینے کے انداز اور طریق پر گفتگو کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں:
’’احناف کے بعد جب ہم علمائے اہل حدیث کے فتاوی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان کے یہاں فتاوی نویسی کا ایک دوسرا انداز نظر آتا ہے، وہ کسی امام کی تقلید کے بجائے تمام ائمہ کے اقوال سے استفادہ کرتے ہیں، مسائل کی تحقیق کے وقت پہلے براہ راست کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں پھر سلف صالحین (صحابہ، تابعین اور تبع تابعین) کی آراء سامنے رکھتے ہیں اور دلائل کےمطابق جو قول راجح ہوتا ہے، اس کے مطابق فتوی دیتے ہیں، وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے ان کے یہاں احادیث و آثار سے استدلال کرتے وقت اس بات کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے کہ پہلے ان کی چھان پھٹک کر لی جائے اور صرف صحیح احادیث پر اعتماد کیا جائے، حدیث کے علاوہ فقہ حنفی کی کتابوں پر بھی ان کی بڑی گہری نظر ہوتی ہے، حنفی مسلک کے علاوہ دوسرے مسلک کی فقہی کتابوں سے جا بہ جا اقتباسات دیے جاتے ہیں جن سے ان کی وسعت اطلاع کا علم ہوتا ہے،انھوں نے شروع سے فقہی مسلک کے بجائے ’’فقہ حدیث‘‘ کی دعوت دی ہے اور تمام ائمۂ مجتہدین کے احترام اور ان سب سے استفادہ کرنے پر زور دیا ہے، فقہ حنفی پر اکتفا کرنے کے بجائے انھوں نے مختلف فقہی مذاہب کے تقابلی مطالعے کی سفارش کی ہے یہ رجحان ان کے فتاوی اور دوسری تمام فقہی تالیفات میں نظر آتا ہے۔‘‘(مقالات ص 287/288 ایضا التوعیہ نئی دہلی ستمبر 1990 ص 37)
فتوی نویسی کی تاریخ اور اس میدان میں عرب و عجم کے جن کبار علماء اہلحدیث کی زریں خدمات رہی ہیں، شیخ نے اپنے اس مضمون میں ان کا ذکر جمیل چھیڑا ہے اور خاص کر علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله کو خوب خوب خراج عقیدت پیش کی ہے اور آزادی فکر کا تمام تر سہرا انہی کے سر باندھا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ تمام عرب و عجم میں تقلید کے برعکس کتاب و سنت اور آثار صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کی طرف ہر مسئلہ میں رجوع کرنا یہ سب ان کی اور ان کے شاگردوں کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے اور پھر اس آزادی فکر کو بر صغیر ہند و پاک میں وسیع پیمانے پر پھیلانے میں شاہ ولی اللہ محدث دھلوی (م 1176ھ) رحمہ اللہ کو اولیت حاصل ہے اس کے بعد ان کے شاگردوں کے شاگردوں کی رہین منت ہے چنانچہ بر صغیر میں کتاب و سنت کی روشنی میں فتوی نویسی میں کبار علمائے اہل حدیث پیش پیش رہے ہیں، جن میں سر فہرست نواب صدیق حسن خاں (م 1307 ھ)، شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دھلوی (م 1320 ھ) اور شیخ حسین بن محسن انصاری یمنی (م 1327ھ) رحمہم الله کا نام ہے اس کے بعد ان کے شاگردوں کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں مولانا محمد سعید بنارسی (م 1322 ھ)، مولانا عبدالجبار غزنوی(م1334ھ)، مولانا عبد الله غازی پوری (م 1337ھ)، مولانا عبدالرحمن مبارک پوری (م1353 ھ)، علامہ شمس الحق عظیم آبادی (م 1329 ھ)، مولانا عبدالجبار عمر پوری (م 1344 ھ)، مولانا ثناء الله امرتسری (م 1367 ھ)، مولانا عبد الله رو پڑی (م 1384 ھ)، اور متاخرین میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی (م 1387 ھ)گوجرانوالہ، مولانا محمد حنیف بھوجیانی (م 1408 ھ)، شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ مبارک پوری (م 1414 ھ)، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی (م 1398 ھ)، مولانا شمس الحق سلفی (م 1406 ھ)، مولانا رئیس احمد ندوی (م 1430 ھ)، مولانا عبد الحنان فیضی (م1438 ھ)، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی (م 1442ھ) اور ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی (م 1442 ھ) رحمہم الله شامل ہیں، مگر افسوس متاخرین میں سے صرف چار مشائخ کے فتاوے کے مجموعے :فتاوی سلفیہ(جو میرے پاس ہے بہت مختصر ہے) فتاوی رحمانیہ،فتاوی نعمۃ المنان(دونوں فتاوی کے مجموعے راقم کے پاس ہیں) اور علامہ بھوجیانی کے فتاوی زیور طبع سے آراستہ ہو سکے ہیں باقی انتظار کی منزل میں ہیں کب شائع ہوں گے الله اعلم بالصواب۔
جی چاہتا تھا کہ علمائے اہل حدیث کے فتاوی کے بعض مجموعوں پر تبصرہ کیا جائے، مگر بات بہت طول پکڑجائے گی اس لیے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اتنا عرض ہے کہ علمائے اہل حدیث یا سلفی مکتب فکر کے حاملین علماء کی اسی انداز فکر اور آزادی فکر کی کوششوں سے تقریباً دو صدیوں سے مختلف مکاتب فکر کی سوچ بچار میں قدرے تبدیلی آئی ہے اور سلفی فکر نے پورے عالم اسلام میں آزادی فکر کی ایک نئی لہر دوڑا دی ہے اور اب خواص ہی نہیں بلکہ عوام بھی اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ جو بات بھی کی جائے وہ کتاب و سنت کی روشنی میں دلائل کے ساتھ کی جائے۔ہمارے شیخ نے عرب وعجم کے بہت سارے سلفی علماء کا ذکر کیا ہے جن کی کوششوں سے عصر حاضر میں سلفی رجحان کو فروغ حاصل ہوا ہے اور آخر میں نتیجہ کے طور پر لکھتے ہیں:
’’ ان علماء کی کوششوں سے عصر حاضر میں سلفی رجحان کو بڑا فروغ ہوا، اور اس کا اثر تمام مکاتب فکر پر پڑا ہے اس کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ اب مصر، شام، کویت اور سعودی عرب میں فقہی مسائل پر غور کرنے کے لیے کمیٹیاں بنی ہیں جو مختلف مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل ہیں وہاں مسائل پر غور و خوض کے وقت تمام ائمۂ سلف کی آراء سے استفادہ کیا جاتا ہے اور دلائل کی روشنی میں راجح قول کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے آج ہمیں کسی ایک مسلک کی تقلید کے بجائے مسائل کے حل کے لیے یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔‘‘
(التوعیہ نئی دہلی ماہ اگست 1990 ص 18 ایضا مقالات ص 274)
ہمارے شیخ کے مضمون نگاری کا یہی انداز تھا کہ ایک ایک جزو سے بحث کرتے ہیں تاریخ کی تفصیل میں جاتے ہیں اور پھر نتیجہ نکال کر اس کا لب و لباب ہم سب کے سامنے رکھ دیتے ہیں، شیخ نے اپنے مضمون میں فتوی نویسی کی تاریخ پر علمی انداز میں جو گفتگو کی ہے اس کی تفصیل اس چھوٹے سے مضمون میں درج کرنا مشکل ہے اس لیے بس انہی چند سطور پر توقف کیا جاتا ہے، اب اس عالمگیریت اور سوشل میڈیائی دور میں، جہاں میڈیا کا بہت سارا منفی رول ہے وہاں اس کے بہت سے مفید پہلو بھی ہیں جن کا استعمال کرکے ہم کتاب و سنت کی آواز اور سلفی منہج و فکر کو عام بھی کر سکتے ہیں، انسان جس پر آشوب دور سے گزر رہا ہے وہ زیادہ تر اپنا وقت سوشل میڈیا پر گزارتا ہے اس دور میں سوشل میڈیا کو ایک انمول مقام حاصل ہے اس سے ہم کو فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے بہت سارے انسان سماجی اور معاشرتی الجھنوں کے شکار ہوتے ہیں اور زندگی کے بہت سارے مسائل میں گھرے ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے مسائل کو سلجھانے اور الجھنوں کو دور کرنے کے لیے مختلف مکاتب فکر کے در پر در بدر بھٹکتے رہتے ہیں اس کے باوجود ان کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی نہیں مل پاتی ہے اور وہ غیر صحیح عقیدہ کی تاریک راتوں میں کسی روشنی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بقول شیخ عزیر رحمہ اللہ ’’تبلیغی نصاب‘‘ پڑھانے اور’’بہشتی زیور“ پہنانے کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی اس کو کتاب و سنت سے ہٹے ہوئے فتاوؤں نے پوری کر دی ہے، اور تو اور مودودی، اسراری، غامدی اور جدید مرزائی افکار و نظریات نے عوام اور خواص کے ذہنوں میں ایسا زہر گھول کر ڈال دیا ہے کہ اس کے تدارک کے لیے بھی ہماری ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں کیوں کہ ہم صحیح کتاب و سنت کے داعی ہیں، اسی لیے اب کتاب و سنت، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین کے اقوال کی روشنی میں دیے گئے فتاؤوں کی عوام اور خواص سب کو سخت ضرورت ہے اور اس کمی کو صرف فکر سلف کے حاملین ہی پورا کر سکتے ہیں، فتاوی کے بہت سارے مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن کو ہم حالت حاضرہ کے مطابق جستہ جستہ سوال و جواب کے انداز میں سوشل میڈیا پر ڈال سکتے ہیں تاکہ عوام و خواص سب ہی اس سے مستفید ہو سکیں، و ما التوفيق الا بالله۔
ہمارے شیخ عزیر رحمہ اللہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے تھے اس کا حق ادا کر دیتے تھے، اور ہر فن پر ماہرانہ نظر رکھتے تھے، اگرچہ ان کا اصل موضوع لغت و ادب تھا لیکن وہ اپنے ذاتی مطالعہ کی بنا پر ہر ایک فن پر گہری نگاہ رکھتے تھے، کتابیں اور مضامین پڑھتے وقت وہ نوٹس اور حواشی ضرور لگاتے، اور اپنی وسعت مطالعہ کی بنا پر بعض محققین کی تحقیق سے عقلا و نقلا دلائل اور حوالوں کی روشنی میں اختلاف بھی کرتے تھے، جس سے ان کے وسیع تر نقد و نظر کا سراغ ملتا ہے، آئیے ہم یہاں ان کے بعض تنقیدی تبصروں پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔شیخ اپنے مضمون ’’فتوی نویسی کی تاریخ‘‘ میں مشہور زمانہ کتاب’’فتاوی عالمگیری‘‘ کی مدت تالیف کے بارے میں یوں لکھتےہیں کہ ’’اس کی تالیف میں کم وبیش آٹھ سال (1074 تا 1082 ھ) کی مدت صرف ہوئی “ اس کے حاشیہ میں مشہور مورخ اور سوانح نگار مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی ایک عبارت پر نقد کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
’’محمد اسحاق بھٹی نے اپنی کتاب ’’بر صغیر پاک و ہند میں علم فقہ‘‘ (ص 267) میں دو ’’سال‘‘ لکھا ہے جو قرین قیاس نہیں۔‘‘ (مقالات ص 278)
شیخ کا ایک مضمون ہے ’’حالی اور ابن رشیق ایک غلط فہمی کا ازالہ‘‘ اس مضمون میں ہمارے شیخ نے بڑے ہی تحقیقی انداز میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے جو علامہ حالی رحمہ الله سے ہوئی تھی، چنانچہ ابن رشیق (م 463 ھ) کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ:ابن رشیق کا شمار مشہور عرب ناقدین میں ہوتا ہے ان کی کتاب ’’العمدة‘‘ کے بارے میں ابن خلدون (م 808 ھ) لکھتے ہیں:
’’فن شعر پر اس جیسی کتاب نہ اس سے پہلے لکھی گئی، نہ اس کے بعد “ شیخ آگے لکھتے ہیں: ’’میں یہاں ابن رشیق یا ان کی کتاب’’العمدۃ ‘‘ سے متعلق زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا، اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کر دیا جائے جو حالی کے ’’مقدمہ شعر و شاعری “ کی پہلی اشاعت (مشمولہ ’’دیوان حالی ‘‘) 1883 م سے آج تک ادبی حلقوں میں پھیلی ہوئی ہے،اور حالی کے تنقیدی نظریات کا جائزہ لینے والے برابر اس غلط فہمی کا اعادہ کرتے رہے ہیں، تعجب ہوتا ہے کہ وحید قریشی اور رشید حسن خان جیسے محققین بھی ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے مرتبہ اڈیشنوں میں اس غلط فہمی پر متنبہ نہ ہو سکے۔‘‘
اس کے بعد ہمارے شیخ لکھتے ہیں:
’’حالی نے اپنی کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں ابن رشیق کی کتاب’’العمدۃ‘‘ کی عبارتوں کا ترجمہ کرکے ان کا چار مقامات پر ذکر کیا ہے اور حوالہ دیا ہے مگر جب شیخ اپنا ایم اے کا تحقیقی مقالہ ’’حالی کی تنقید اور شاعری پر عربی کے اثرات“ لکھ رہے تھے تو دوران تحقیق وہ سراپا حیرت و استعجاب بن کر رہ گئے جب ان کو معلوم ہوا کہ حالی کے نقل کردہ اقتباسات ابن رشیق کی کتاب ’’العمدة ‘‘ میں کہیں نہیں موجود ہیں، البتہ ایک مقام پر ابن رشیق کی طرف منسوب کرتے ہوئے علامہ حالی نے ایک شعر نقل کیا ہے جب کہ وہ شعر اصل میں ابو العباس الناشی الاکبر (م 293 ھ/ 906ء) کی ایک مشہور نظم کا آخری شعر ہے اور وہ شعر یہ ہے:
فاذا قيل اطمع الناس طرا
و اذا اريم اعجز المعجزينا
یعنی جب (وہ شعر) پڑھا جائے تو ہر شخص کو یہ خیال ہو کہ میں بھی ایسا کہ سکتا ہوں، مگر جب ویسا کہنے کا ارادہ کیا جائے تو معجز بیان عاجز ہو جائیں۔
اور اس نظم کا مطلع یہ ہے:
لعن الله صنعة الشعر، ما ذا
من صنوف الجهال فينا لقينا
شعر کی اس صنعت کاری یا شعر گوئی پر اللہ کی لعنت ہو، اس میدان میں ہمیں کیسے کیسے لوگوں سے پالا پڑا ہے۔
اچھے اور برے شعر کی عدم تمیز پر مذمت کرنے کے بعد ابن رشیق نے سترہ ابیات میں اچھے اشعار کے اوصاف بیان کیے ہیں جن کے تعلق سے حالی لکھتے ہیں:
’’ حق یہ کہ ابن رشیق نے جس لطافت اور خوبی سے عمدہ شعر کی تعریف کی ہے اس سے بہتر تصور میں نہیں آ سکتی، گویا جس رتبے اور پائے کے شعر کی اس نے تعریف کی ہے، اس رتبے اور پائے کا شعر اس کی تعریف میں انشا کیا ہے۔‘‘
حالی کی اس عبارت پر تنقید کرتے ہوئے ہمارے شیخ علامہ عزیر یوں لکھتے ہیں:
علامہ حالی’’پھر اسی کو بنیاد بنا کر ایک خاص عنوان کے تحت ابن رشیق اور ملٹن کے نظریات کے درمیان موازنہ کرنے لگتے ہیں ظاہر ہے یہ محض غلط فہمی پر مبنی ہے، ابن رشیق نے اپنی کتاب میں جہاں حقیقت شعر سے بحث کی ہے اس سے حالی واقف نہ تھے اور ایک دوسرے شخص کے ایک شعر کو ابن رشیق کی طرف منسوب کرکے اس پر بحث کی عمارت کھڑی کر دیتے ہیں، یہ طرز عمل آج تک تمام لوگوں کی غلط فہمی کا سبب بنا ہوا۔ ‘‘
اب آئیے باقی تین اقتباسات کا مطالعہ کریں جن کے لیے حالی نے ابن رشیق کی’’العمدة ‘‘ کا حوالہ دیا ہے مگر ’’العمدة‘‘ میں کہیں ان کا وجود نہیں “ ہم بخوف طوالت حالی کی نقل کردہ تینوں اقتباسات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور صرف شیخ عزیر کا ان اقتباسات کے تعلق سے جو تبصرہ ہے اس کو نقل کر رہے جس سے ہم سب کو شیخ عزیر کی وسعت معلومات اور عمیق تحقیق کا اندازہ ہوگا۔
شیخ عزیر لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالا تینوں اقتباسات کے متعلق غالبا یہ انکشاف حیران کن ہوگا کہ یہ ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘ سے لیے گئے ہیں، ابن رشیق کی’’العمدة ‘‘سے نہیں،’’العمدة‘‘ میں شعر کی تنقیح و تہذیب (کاٹ چھانٹ) اور شعر کہنے سے پہلے اساتذہ کا کلام یاد کرنے سے متعلق بحث ضرور ہے مگر ان الفاظ میں نہیں جن کا ذکر مذکورہ اقتباسات میں ہے، حقیقت یہ ہے کہ حالی کے سامنے ابن رشیق کی کتاب نہ تھی، انھوں نے ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘البتہ پڑھی ہے اس کا حوالہ دو جگہ انھوں نے’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں اور ایک جگہ اپنے ایک مقالے میں دیا ہے مذکورہ تینوں اقتباسات بھی اس سے ماخوذ ہیں۔‘‘
اس کے بعد ابن خلدون کی تینوں عبارتوں کو نقل کرنے کے بعد شیخ عزیر لکھتے ہیں:
’’ مذکورہ بالا عبارتوں کا ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں موجود اقتباسات سے موازنہ کیجیے، صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حالی نے ان کا ترجمہ کر دیا، اس طرح ابن رشیق کی طرف ان کا انتساب قطعا درست نہیں ٹھہرتا۔ بہر حال اس غلط فہمی کی جو بھی توجیہ کی جائے حقیقت یہ ہے کہ’’مقدمہ شعر شاعری “ کی تالیف کے وقت حالی کے سامنے ابن رشیق کی کتاب نہ تھی،انھوں نے جن خیالات کا انتساب ابن رشیق کی طرف کیا ہے،انھیں اب ابن خلدون کی طرف منسوب کرنا چاہیے اور جس شعر کی بنیاد پر انھوں نے ابن رشیق اور ملٹن کے نظریات پر بحث کی ہے، اسے ابو العباس الناشی الاکبر کا سمجھنا چاہیے، آئندہ ہمارے ناقدین، محققین اور مؤرخین ادب (اور خصوصا حالی کے سوانح نگار)حالی کے بیانات سے دھوکہ نہ کھائیں، حالی نے اگر چہ عرب ناقدین کی تحریروں سے کافی استفادہ کیا ہے لیکن اس سلسلے میں ابن رشیق کا نام لینا خلاف واقعہ ہے۔ ‘‘ (مقالات، ص:124-130)
یہ تھے ہمارے شیخ عزیر رحمہ اللہ دنیائے تحقیق کے شہنشاہ، اور تاریخ و ادب کے عظیم جانکار، شیخ عزیر کے ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم نوامصلح نوشہروی نے سچ کہا ہے:
وہ محقق وہ مؤرخ وہ ادیب بے مثال
جس کا ہر اک کار ہو شہ کار، ہیں وہ خال خال
حادثہ جاں کاہ ہے جس کی تلافی ہے محال
ہے رخ زیبائے بحث و علم پر گرد ملال
اب کہاں پائیں گے علم و فن کے متوالے اسے
وادی ام القریٰ میں ڈھونڈھنے والے اسے
(مصلح نوشہرو ی)
شیخ عزیر رحمہ اللہ کا ادبی ذوق بہت اعلی تھا، لغت اور ادب میں تخصص کی بنا پر ان کی عبارتوں میں سادگی کے باوجود پڑھتے وقت ادبی چاشنی کا احساس ہوتا ہے وہ وہ اس معنی میں ادیب نہیں تھے کہ انھوں نے اپنی کوئی نئی راہ ایجاد کی تھی،بلکہ ان کی سادہ عبارت آرائی میں ایسی کشش نظر آتی ہے جو ان کو دوسروں سے ممیز و ممتاز کرتی ہے۔ انھوں نے اردو اور عربی زبان کے ممتاز ادیبوں اور قلم کاروں کے شہ پاروں کو اتنی گہرائی سے پڑھا تھا اور ان کو اپنے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں بند کر لیا تھا کہ جب وہ کچھ لکھتے تھے تو اس کی خوشبو ان کی تحریر میں رچ بس جاتی تھی، ان کی زیادہ تر کتابیں اور مقالات عربی زبان میں ہیں، انھوں نے اردو زبان کو اپنے افکار اور خیالات کی ترسیل کے لیے کم استعمال کیا ہے، مگر جس قدر بھی لکھا ہے وہ ساری تحریریں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ جب بھی کوئی مضمون لکھتے تھے تو تحقیق کی آخری منزل تک ان کا سفر جاری رہتا تھا، ہم ان کی بعض تخلیقات اور تحقیقات سے اتفاق کریں یا اختلاف، مگر یہ ماننا پڑے گا کہ مصادر اور مراجع جو سات سمندر پار تھے ان کو بھی ہمارے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں، علمی تحقیق کی خاطر انھوں نے اسلامی اور عربی ممالک کی سیاحت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لندن اور فرانس تک کی زمینوں کو اپنی ترک تازیوں کا نشانہ بنایا، وہ ہر پہلو سے استدلال کرتے ہیں اور دلائل سے اپنے کیس کو مضبوط کرتے ہیں، مثلاً قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ کا استناد، ’’ اللمحات‘‘ پر تحریر کردہ مقدمہ، ’’خلیفۃ الله کا مفہوم‘‘، ’’خلیفۃ الله‘‘ سے متعلق احادیث کی تحقیق، حالی اور ابن رشیق (ایک غلط فہمی کا ازالہ)، مسدس حالی اور اس کے اثرات، غزالی یا غزالی (ز پر تشدید اور بدون تشدید)، انگلیوں پر گننے کا پرانا طریقہ، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات اور خدمات اور پھر ’’فتوی نویسی کی تاریخ‘‘ وغیرہ مضامین پڑھیے تو سراپا حیرت بن جانا پڑتا ہے کہ یہ شخص مراجع کی مطبوعہ کتابیں اور قلمی نسخے کہاں کہاں سے تلاش کر لاتا ہے اور قلم و قرطاس کو زینت بخشتا ہے:
گونا گوں پوشیدہ شہ پارے تھے محفوظات میں
کیا تعجب خیز رنگینی تھی معلومات میں
فقہ و تاریخ و ادب اور ’’مخطوطات“میں
خو بیاں کتنی سمٹ آتی تھیں اس کی ذات میں
(مصلح)
انسانی زندگی عموماً اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز اور خوشی و غم کا شکار رہتی ہے ہمارے شیخ عزیر بھی اس عمومی کلیہ سے مستثنیٰ نہ تھے، ان کو بھی ان چیزوں سے دو چار ہونا پڑتا تھا اور ہوتے رہے یہی وجہ تھی کہ دکتوراہ کا تحقیقی مقالہ مکمل کرلینے کے بعد بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں ناکام رہے کیوں کہ مشرف سے کچھ علمی اختلاف ہو گیا اور دونوں اپنے اپنے موقف پر اڑے رہے نہ مشرف پیچھے ہٹے اور نہ شیخ نے ہی سمجھوتے کی کوشش کی، اسی حالت میں کچھ دنوں کے لیے ہندوستان واپس آگئے، مگر ان کی علمی تگ و تاز میں کوئی فرق نہیں پڑا، ان کا علمی سفر اسی رفتار سے جاری رہا جس رفتار سے جاری تھا ان کی زندگی کا کل سرمایہ کتابیں اور قلم و قرطاس ہی تھے بحث و تحقیق ان کا اوڑھنا بچھونا تھی اور وہ اس کے خوگر بن چکے تھے اب اسی میں ان کی زندگی کا سکھ اور چین پوشیدہ تھا:
وہ مسافر اپنی منزل میں نہ در ماندہ ہوا
جب کبھی اپنے سفر پر دل سے آمادہ ہوا
اور
مہد علم دیں میں گزرا عہد طفلی اور شباب
تھا قلم سرمایہ اس کا، زندگی اس کی کتاب
اس کا شوق و ذوق و جذبہ بے مثال و بے حساب
وہ سمائے علم و فن کا آفتاب و ماہ تاب
روز مرہ کے بھی جب حالات میں گرہن رہا
آفتاب علم و فن اس وقت بھی روشن رہا
(مصلح نوشہروی)
ہمارے شیخ گردش دوراں سے لڑتے رہے، جس سر زمین پاک کی آب و ہوا ان کے جسم و جاں میں رچی بسی تھی اس کی تمنا ان سے کیوں کر جدا ہو سکتی تھی، یہی تو تقدیر تمنا تھی، تقدیر نے یارائی کی اور رب کائنات نے ان کی سحر گاہی کی آہ و زاری سن لی، پھر دوبارہ حرم مکی کا رخت سفر باندھا اور کشاں کشاں چل پڑے، کچھ دنوں تک اور علمی سفر جاری رہا اور پھر منزل مقصود مل ہی گئی اور آخر کار وہی آخری منزل ٹھہری، 1999ء میں ڈاکٹر علامہ بکر بن عبداللہ ابو زید رحمہ اللہ کی منتخب تحقیقی ٹیم کا رکن بن گئے اور اس کے لیے اپنی بقیہ زندگی وقف کر دی اور آخری سانس تک اسی سے وابستہ رہے، ڈاکٹر ابو زید رحمہ اللہ کا ایک عظیم علمی منصوبہ تھا جس کے تحت شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م 728 ھ) امام ابن القیم (م 751ھ) ذہبی دوراں علامہ عبدالرحمن بن یحییٰ المعلمی (م 1386 ھ) اور علامہ محمد الامین الشنقیطی صاحب ’’اضواء البیان‘‘ (م1393 ھ) کے قلمی اور مطبوعہ علمی تراث کو منظر عام پر لانا مقصود تھا۔ یہ اتنا پر وقار اور عظیم منصوبہ تھا کہ اس کے لیے با شعور اور باوقار ٹیم کی سخت ضرورت تھی، ڈاکٹر ابو زید رحمہ اللہ کی دور بیں نگاہ ہمارے شیخ عزیر پر بھی پڑی اور ان کو اس ٹیم میں شامل کر لیا، اب ایک پر سکون اور پر وقار ماحول میں شیخ عزیر کا عنان قلم اپنی رفتار میں چل پڑی، پھر کیا تھا ڈاکٹر بکر بن عبد اللہ رحمہ اللہ نے جو علمی ٹکسال قائم کی تھی اس سے نئے نئے علمی شہ پارے منظر عام پر آنا شروع ہوگئے اور پھر آخری بائیس تئیس سالوں میں شیخ عزیر کے قلم سے تقریباً تین درجن کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو کر لوگوں کی علمی پیاس بجھانا شروع کر دیں، بعض کتابیں باہم تحقیقی اشتراک سے وجود میں آئیں اور بعض کتابیں صرف شیخ عزیر کے قلم کی رہین منت ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمہما الله کی کتابوں پر بہتوں نے کام کیا ہے، لیکن جو کام شیخ عزیر اور ان کی ٹیم نے کیا ہے، شاید کسی نے کیا ہو اس لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تعلق سے جو شہرت اور مقبولیت شیخ عزیر کے حصے میں آئی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہو سکی:
منہج ’’بو زید‘‘ میں پنہاں ہے شان امتیاز
ابن یحییٰ، ابن قیم، ابن تیمیہ کا راز
ان کی ’’تحقیقات‘‘میں ہیں ان کی تحریروں کا ساز
ہے اسی شہ کار سے وہ سر بلند و سر فراز
یہ حیات بے وفا تو ایک رستاخیز ہے
کار علمی ہی ترقی کے لیے مہمیز ہے
(مصلح نوشہروی)
ہمارے شیخ عزیر نے کئی ملکوں کا علمی سفر کیا جن میں پاکستان، لندن، فرانس، جرمنی، ترکی اور امارات کا سفر خاص طور پر قابل ذکر ہے، شیخ عزیر جہاں بھی جاتے تھے اپنے گہرے علمی مطالعہ، وسیع معلومات اور خاص کر مخطوطات کو پڑھنے میں جو ان کو درک حاصل تھا اس کی بنا پر لوگ ان کی خوب پذیرائی کرتے، دلوں میں جگہ دیتے اور پلکوں پر بٹھاتے تھے، جب انھوں نے دبی، امارات کا سفر کیا اور مشہور زمانہ ’’مركز جمعة الماجد للثقافة والتراث دبى‘‘ اور خاص کر اس کے ’’قسم المخطوطات‘‘ کو دیکھنے کے لیے یہاں تشریف لائے تھے، افسوس راقم الحروف اُن دنوں وطن عزیز ہندوستان کے سفر پر تھا ورنہ کچھ خدمت کرنے کا موقعہ ضرور ملتا، وہ اپنا وقت بالکل ضائع نہیں کرتے تھے غالبا دو یا تین دن تھے اور پھر مکہ واپس چلے گئے جب کہ ان کے ہم سبق ساتھی اور دوست شیخ شہاب اللہ مدنی صاحب خود مرکز میں کام بھی کرتے تھے وہ چاہتے تو ہفتہ دس دن رک کر دبی کی اچھی طرح سیاحت کر سکتے تھے مگر اپنا کام کیا اور لوٹ گئے، وہ بزبان حال کہا کرتے تھے:
بہار راہ بھٹک جائے گی، جلائے رکھ
سر دریچۂ سیم سمن ابھی مجھ کو
(فضا ابن فیضی)
پاکستان میں تو ان کی محبوبیت کا عالم یہ تھا کہ علامہ محمد حنیف بھوجیانی اور مشہور سوانح نگار علامہ محمد اسحاق بھٹی رحمہما الله ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتے تھے شیخ عزیر جب بھی علامہ بھوجیانی رحمہ اللہ کی علمی خدمات اور ان کی سادگی کا ذکر کرتے تو ان کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی تھیں۔ بہر حال شیخ عزیر خورد و کلاں ہر ایک کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ تھے وہ نہایت ظریف انسان بھی تھے، جس طرح وہ نرم خو اور بلند اخلاق تھے، اسی طرح ان کو کبھی کبھی بعض علمی اختلافی باتوں پر طیش اور جلال بھی آ جاتا تھا اور یہ طیش و جلال کا ہی نتیجہ تھا کہ مشرف سے کسی علمی نکتہ پر بحث ہو گئی اور وہ مکمل جلال میں آگئے اور پھر وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری نہ لے سکے، یہ صفت ان کو اپنے والد محترم استاذ گرامی شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفی رحمہ اللہ سے وراثت میں ملی تھی۔
وہ جہاں پہنچا وہیں اس کی پذیرائی رہی
علم و دانش اور ظرافت بزم آرائی رہی
لطف و لین و ترشی و تیزی میں رعنائی رہی
اختلاف رائے میں یاروں کی یارائی رہی
باپ کی مانند بیٹے کو جلال آتا رہا
جو نہ جانے، اس کے دل میں اک سوال آتا رہا
(مصلح نوشہروی)
سطور بالا میں، میں نے لکھا ہے کہ شیخ عزیر نے تخصص ادب اور لغت میں کیا تھا مگر اپنے ذاتی مطالعہ کی بنا پر وہ حدیث، فقہ، اصول حدیث، اصول فقہ، تفسیر، اصول تفسیر، فن شعر و شاعری، تاریخ، اور سیر و سوانح ہر ایک میدان میں اتنا درک حاصل کر لیا تھا اور اب ان کا تخصص کسی ایک فن کا اسیر نہ تھا بلکہ ہمہ گیر اور آفاقی بن چکا تھا، سلفی اخوان میں ایک سے ایک اہل علم اور ماہر فن موجود ہیں، مگر ان کی طرح کسی کو آفاقیت اور ہمہ گیریت حاصل نہیں ہے، ہر شخص صرف اپنے فن کا ماہر ہے، جب کہ وہ ہر میدان میں ید طولی رکھتے تھے اور فن ’’مخطوطات‘‘ میں تو ان کا کوئی ثانی نہ تھا اور اپنی قوت حافظہ و قوت استحضار کی بنا پر جب کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسی میدان کے متخصص ہیں، اور کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتے وقت ذرا بھی ان کو ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی، وہ دھڑلے سے بات کرتے اور ہر سوال کا تشفی بخش جواب دیتے تھے، ان کی باتیں سن کر دل باغ باغ ہو جاتا تھا، لیکن علم کی پیاس بر قرار رہتی تھی دل چاہتا تھا کہ وہ علمی بارش جاری رکھیں اور ہم اس میں نہاتے رہیں۔
اصل میں اس کا تخصص ایسا آفاقی رہا
فن ’’مخطوطات‘‘ میں وہ ناز مشاقی رہا
چل بسا، جیسے نہ اب کوئی عمل باقی رہا
بزم یاراں میں نہ اب ایسا کوئی ساقی رہا
(مصلح نوشہروی)
مولانا آزاد رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ ’’غالب کو صرف اپنی شاعری کے اٹھ جانے کا غم تھا، لیکن میرے ساتھ کتنے فن دفن ہو جائیں گے مجھے نہیں معلوم “ آج آزاد کی اسی بات کو میں شیخ عزیر کے بارے میں کہتے ہوئے دم بخود ہوں:
جان کر من جملۂ خاصانِ میخانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
(جگر)
رحمہ الله و غفر له
ابن سعید لکھنوی
/26جمادی الاخر 1444ھ مطابق، 19/جنوری2023 ء
آپ کے تبصرے