جب اللہ نے آدم و حوا علیہما السلام کی تخلیق کی اور انہیں جنت میں ٹھہرایا، تو شیطان کے جھانسے میں آکر دادا آدم علیہ السلام سے غلطی سرزد ہوئی، حکم الہی کی مخالفت کربیٹھے تو اللہ نے دونوں کو جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا، قرآن کریم میں اللہ نے اس واقعہ کو تفصیل سے ذکر کیا ہے، چنانچہ فرمایا:
{وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡن، فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡن} (البقرۃ:35-36)
“اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم !تم اور تمہاری بیوی جنّت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا ہی دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ !تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور ایک وقتِ مقّرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے”.
اور جب اللہ نے آدم اور حوا علیہما السلام کو جنت سے نکال کر مصائب و مشکلات اور ابتلاء و آزمائش کے “کان” میں ڈھکیلا تو ساتھ ہی ایک حسین تحفہ بھی دیا، اور ان پر اپنا کرم کرتے ہوئے ایک خاص عہد وپیمان کیا اور اعلان کردیا کہ جو بھی اس عھد کو پورا کرے گا وہ اس کی رضامندی اور جنت کا مستحق ہوجائے گا، چنانچہ فرمایا:
{قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡن} (البقرة:38)
“ہم نے کہا: اترو یہاں سے سب! تو اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئےتو جو اس کی تابعداری کریں گے ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”.
اس آیت کریمہ میں اللہ نے عہد وپیمان کو پورا کرنے والوں اور ربانی ہدایت کا اتباع کرنے والوں سے خوف اور حزن و ملال کی نفی کردی ہے جو کہ در حقیقت ہر قسم کے شرور وفتن کی نفی ہے.
اسی طرح ھدایت کے متبعین کو ضلالت وگمراہی اور شقاوت وبدبختی سے محفوظ کردیا، فرمایا:
{قَالَ اہۡبِطَا مِنۡہَا جَمِیۡعًۢا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی ۬ ۙ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشۡقٰی} (طه:123).
“فرمایا تم سب یہاں سے اترجاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے! پر اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو جو اس کی پیروی کرے گا، نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا!”.
اس آیت میں اللہ نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ آسمانی ھدایت کی تابعداری کرنے والے نہ تو دنیا میں گمراہ اور بدبخت ہونگے، نہ ہی آخرت میں اس سے دوچار ہونگے.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے:
” تكفل الله لمن قرأ القرآن وعمل بما فيه أن لايضل في الدنيا، ولايشقي في الآخرة، ثم قرأ:(فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ هُدًی ۬ ۙ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشۡقٰی). (تفسیر ابن کثیر، ومفتاح دار السعادة ص:64)
“جس نے قرآن مجید پڑھا اور اس میں موجود احکامات پر عمل کیا، تو اللہ نے ایسے شخص کی ذمہ داری لے لی ہے کہ وہ نہ تو دنیا میں گمراہی اختیار کرے گا اور نہ ہی آخرت میں بدبختی میں مبتلا ہوگا، پھر آپ نے مذکورہ آیت کی تلاوت کی”.
قرآن وحدیث کے مطالعہ اور تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی گمراہی و بدبختی اور فساد وبگاڑ کا دارو مدار دو چیزوں پر ہے:
(1) شبہات
(2) شہوات
یعنی باطل شبہات کے پیچھے پڑجانا جو انسان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی خبروں کی تصدیق سے روکدے اور شہوات کا اتباع کرنا جو انسان کو شرعی احکامات کی تابعداری سے منع کردے، ان دونوں _شبہات وشہوات_ کی وضاحت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے، اس کے انجام سے ڈرایا ہے اور اس سے بچنے کی سخت تاکید کی ہے. چنانچہ اللہ نے فرمایا:
{فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوۡفَ یَلۡقَوۡنَ غَیًّا} (مریم:59)
“پھر ان کے بعد ایسے جانشین پیدا ہوئے جنہوں نے نماز ضائع کر دی اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ گئے سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا”.
حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: یہ اس امت کے لوگ ہوں گے جو چوپایوں اور گدھوں کی مانند سرعام راستوں میں گناہوں کا ارتکاب کریں گے، نہ تو اللہ تعالیٰ سے ڈریں گے اور نہ ہی لوگوں سے شرمائیں گے.(ابن كثير 3/ 173)
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” إني أخاف على أمتي اثنتين ؛ القرآن واللبن، أما اللبن فيبتغون الريف، ويتبعون الشهوات، ويتركون الصلوات، وأما القرآن فيتعلمه المنافقون فيجادلون به المؤمنين “.(مسند أحمد، 17421 )
)شیخ شعیب ارناؤط رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے)
مجھے اپنی امت پر دو چیزوں کا خوف ہے:
قرآن اور دودھ، رہی بات دودھ کی تو لوگ (اس کی وجہ سے) سر سبز وشاداب زمین کی تلاش میں نکل جائیں گے، شہوات کی پیروی کریں گےاور نمازوں کو چھوڑ دیں گے، رہی بات قرآن کی تو اسے منافقین سیکھیں گے تاکہ اس کے ذریعہ اہل ایمان سے جدال کریں.
اللہ تعالیٰ نے بگاڑ وفساد اور بدبختی کے ان اسباب کو ایک ہی آیت میں دھمکی بھرے لہجے میں بیان کیا ہے، فرمایا:
{کَالَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡکُمۡ قُوَّۃً وَّ اَکۡثَرَ اَمۡوَالًا وَّ اَوۡلَادًا ؕ فَاسۡتَمۡتَعُوۡا بِخَلَاقِهِمۡ فَاسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِخَلَاقِکُمۡ کَمَا اسۡتَمۡتَعَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ بِخَلَاقِهِمۡ وَ خُضۡتُمۡ کَالَّذِیۡ خَاضُوۡا ؕ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ} (التوبة:69)
“ان لوگوں کی مانند جو تم سے پہلے تھے۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور مال واولاد میں تم سے بڑھ چڑھ کر تھے، تو انہوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا اور تم نے بھی اپنے حصہ سے فائدہ اٹھالیا، جیسا کہ تم سے پہلے کے لوگوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا اور تم نے بھی اسی طرح بکواس کی جس طرح انہوں نے کی۔ یہی لوگ ہیں جن کا سب کیا دھرا دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگیا، اور یہی لوگ خسارے میں ہیں”.
اس آیت میں اللہ نے انسان کے بگاڑ کی اصل وجہ شہوات و شبہات کا اتباع بتلایا ہے، چنانچہ دنیا میں مزے لوٹنا اور اپنے حصے سے فائدہ اٹھانے کا تذکرہ کیا ہے جو ان شہوات کو شامل ہے جو متابعت امر سے روکتی ہے، اسی طرح باطل شبہات میں پڑنے، بکواس اور بے سروپا باتیں کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے، اور دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کی بربادی کی خبر دی ہے.
اسی طرح اللہ نے سورہ مدثر میں جہنمیوں کی زبانی ان کی گمراہی کی اصل وجہ نقل کرتے ہوئے انہیں دو چیزوں کا ذکر کیا ہے، چنانچہ جب جنتی جہنمیوں سے جہنم میں جانے کا سبب دریافت کریں گے تو وہ جواب دیں گے:
{ لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡن وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَآئِضِیۡن وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوۡمِ الدِّیۡن}.(المدثر:43-46)
“ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے، اور نہ غریبوں کو کھلاتے ہی تھے، اور کٹ حجتیاں کرنے والوں کے ساتھ مل کر کٹ حجتیاں کرتے تھے، اور ہم جزا وسزا کے دن کو جھٹلاتے رہے”.
الغرض قرآن وسنت کے نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ شہوات اور باطل شبہات ہی در حقیقت گمراہی اور بگاڑ کی جڑ ہیں، چنانچہ بعثت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذری امتوں _یہود ونصاری اور مشرکین وغیرہ_ کے بگاڑ کی اصل وجہ یہی تھی، یہودیوں کے دلوں میں شہوات نے گھر کرلیا تھا، وہ خباثت اور خواہشات نفس کی پیروی میں اس حد تک پہنچ گئے تھے کہ جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو سر تسلیم خم کرنے کے بجائے اپنے من کی باتوں کو ترجیح دی اور موسی علیہ السلام سے کہہ دیا:
{إِذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هٰهُنَا قَاعِدُوْنَ}
اور یہی حال کفار مکہ ودیگر قوموں کا تھا، اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت میں بھی ضلالت و گمراہی اور فتنہ وفساد اسی دروازے سے داخل ہوا، چنانچہ خوارج کا خروج، جبریہ کا جبر، معتزلہ کا اعتزال مرجئہ کی کٹ حجتی ، جھمیہ کی جہالت، اشعریہ کی بےشعوری انہیں کی وجہ سے ہے، انہوں نے اللہ اور رسول پر ایمان، ان کی اطاعت اور ان کی طرف سے دی گئی خبروں کی تصدیق کا دعویٰ کیا مگر بعد میں انہوں نے خواہشات کے گھوڑوں کو بے لگام چھوڑ دیا اور شکوک وشبہات کے خونی پنجوں سے تصدیق کے چہرے کو نوچ نوچ کر اسے لہولہان اور مخدوش کر ڈالا، اور قرآن وسنت کی جو باتیں ان کی فاسد عقلوں کے معیار پر پوری نہ اتریں ان کی یا تو فاسد تاویلیں کیں یا سرے سے ان کا انکار کردیا.
اللہ تعالیٰ ہمیں قلب سلیم عطا فرمائے آمین
آپ کے تبصرے