یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کو مصیبت و پریشانی میں رنج و الم اور بیماریاں لاحق ہوتی ہیں چاہے وہ کسی بھی طبقے، فرقے اور مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو، زمانے کے الٹ پھیر موسموں کی تبدیلی سے مختلف پریشانیوں اور امراض و اسقام کا سامنا کرتا ہے اور وہ انھیں دور کرنے اور اس کے ازالے کے لیے مختلف ظاہری و مادی اسباب کو استعمال کرتا ہے کیوں کہ دنیا میں کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جس کی اللہ تعالی نے دوا نازل نہ کی ہو، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’ماانزل اللہ داء الانزل لہ شفاء‘‘ (بخاری کتاب الطب: ۵۶۷۸)
اللہ نے جو بیماری نازل کی ہے اس کے لیے شفا بھی نازل کی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:
’’لکل دائٍ دوائٌ فاذا أصیبَ دواء الداء برأ بإذنِ اللّٰہِ‘‘ (مسلم:۵۸۷۱)
یعنی ہر بیماری کی دوا ہے جب بیماری کی دوا پہنچ جاتی ہے تو وہ باذن اللہ شفایاب ہو جاتا ہے۔
لیکن بیماریوں کو دور کرنے کے جہاں مادی و ظاہری اسباب ہیں وہیں شریعت اسلامیہ نے کچھ ایسے روحانی اسباب بھی بیان کیے ہیں جن کو اپنا کر اور جنھیں اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے انسان بہت سارے مشکلات، غموں اور جسمانی و روحانی بیماریوں سے نجات پا سکتا ہے۔
ذیل میں چند روحانی اسباب کا ذکر کیا جارہا ہے:
اللہ سے دعا کرنا:
دعا مومن کا ہتھیار ہے اس ہتھیار کے ذریعے وہ بہت ساری مشکلات سے نجات حاصل کر سکتا ہے وہ پریشانیاں چاہے مادی ہوں یا معنوی و نفسیاتی اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ ہر پریشانی کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرے کیونکہ وہی مصیبتوں و پریشانیوں کو دور کرنے والا اور رنج و الم سے نجات دینے والا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
أَمَّن یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوئ َ(النحل:۶۲)
بے کس کی پکار کو جب وہ پکارے کون قبول کرکے سختی کو دور کرتا ہے؟
نیز مصیبتوں کے وقت اللہ تعالی سے دعائیں کرنا اور اسی سے ان مصائب کے ازالے کا سوال کرنا یہ انبیاء علیہم السلام کا شیوہ رہا ہے، چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام کو جب بیماری لاحق ہوئی تو انھوں نے اللہ سے دعا کی:
وَأَیُّوبَ إِذْ نَادَی رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ (انبیاء:۸۳)
تو اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں صحت و عافیت کے ساتھ ساتھ مال و اولاد سے بھی نوازا جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَآتَیْْنَاہُ أَہْلَہُ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ (انبیاء ۸۴)
حضرت ذکریا علیہ السلام اولاد کی دولت سے محروم تھے لیکن جب انھوں نے اللہ سے اپنی اس عظیم پریشانی کو دور کرنے کا سوال کیا تو اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور کہا:
یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً (مریم:۷)
’’اے ذکریا! ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے‘‘۔
اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے میں جب نیک اولاد کا سوال کیا تو اللہ نے انھیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا:
فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ (الصافات:۱۰۱)
اور ہم نے انھیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں کتاب و سنت میں بھری پڑی ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ جب انھیں کوئی مصیبت لاحق ہو تو سب سے پہلے رب کی طرف رجوع کریں کیوں کہ وہی مشکل کشا، دعاؤں کا سننے والا اور اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے۔
توکل علی اللہ:
اللہ پر بھروسہ اور توکل مصیبتوں سے نجات کا ایک اہم ذریعہ ہے، توکل کے ذریعہ اللہ تعالی انسان کو معاشی زندگی، دشمنوں کے خوف اور ہر قسم کے غموں اور برائیوں سے نجات دے دیتا ہے اور اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے:
’’وَمَن یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ‘‘ (الطلاق:۳)
’’اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا‘‘۔
نیز توکل علی اللہ ایمان کا ایک جزء بھی ہے، فرمان الٰہی ہے:
’’وَعَلَی اللّہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ (المائدہ:۲۳)
نیز اللہ پرتوکل اور بھروسہ کرنا یہ انبیاء و صلحاء کا طریقہ ہے، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالاگیا تو انہوں نے کہا:
’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘
اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہوچکے ہیں تو آپ نے فرمایا :
’’حسبنا اللہ ونعم الوکیل‘‘ (بخاری کتاب التفسیر:۴۵۶۳)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لَوْ أَنَّکُمْ تَوَکَّلْتُمْ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ ؛ تَغْدُوخِمَاصًا، وَتَرُوحُ بِطَانًا‘‘ (ابن ماجہ:۴۱۶۴، ترمذی ۲۳۴۴، صححہ الالبانی)
یعنی اگر تم اللہ پر ایسے ہی بھروسہ کرو جیسا کہ حق ہے تو اللہ تمہیں ایسے ہی روزی دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔
ذکرالٰہی:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ذکر کرنے کا حکم دیا ہے فرمایا:
’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْراً کَثِیْراً‘‘ (احزاب:۴۱)
مسلمانو! اللہ کا ذکر بہت زیادہ کرو کیوں کہ ذکر الٰہی سے بے چین اورمضطرب دلوں کو چین وسکون ملتاہے اور اللہ تعالیٰ غموں سے نجات دیتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم خوشیوں میں اللہ کو پہچانو وہ غموں کے وقت تمہیں یاد رکھے گا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱؍۲۲۳، علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنی زبان کو ذکر الٰہی سے تر رکھے کیوں کہ اس میں دنیا وآخرت کے غموں کا مداوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تھے تو اس عظیم مصیبت میں بھی اللہ کا ذکر کرتے رہے:
’’لَا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ‘‘
اور اس ذکر کی برکت سے اللہ نے انہیں نجات دی فرمان الٰہی ہے:
’’فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذَلِکَ نُنجِیْ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (انبیاء:۸۸)
تو ہم ایمان والوں کو ایسے ہی نجات دیتے ہیں۔ ’’یعنی جو بھی مومن اللہ کو اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا اللہ تعالیٰ اسے نجات دے گا۔(احسن البیان)
توبہ واستغفار:
یہ عمل بھی مصیبتوں اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے توبہ واستغفار کرنے سے اللہ تعالیٰ اولاد ورزق میں کشادگی اور بہترین سامان زیست عطا کرتا ہے چنانچہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا : اپنے رب سے استغفار کرو یقینا وہ بہت بخشنے والاہے وہ تم پرآسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا، تمہیں تمہارے مال و اولاد میں خوب ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہریں بنادے گا۔ (نوح:۱۰-۱۲)
نیز توبہ واستغفار سے بلائیں ٹلتی ہیں اور عذاب الٰہی سے پناہ ملتی ہے فرمان الٰہی ہے:
’’وَمَا کَانَ اللّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ‘‘ (انفال:۳۳)
یعنی اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کرتے ہیں۔
مشروع ادعیہ واذکار کا اہتمام کرنا:
یہ بھی رنج والم، تنگی وپریشانی سے نجات کا ایک اہم ذریعہ ہے شرعی ثابت شدہ دعاؤں کے اہتمام کرنے سے اللہ تعالیٰ مختلف قسم کی بیماریوں اورشیطانی وسوسوںسے انسان کی حفاظت فرماتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص شام کے وقت تین مرتبہ یہ دعا:
’’أعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَاخَلَق‘‘
پڑھے گا، اسے اس رات زہریلے جانور کا ڈسنا نقصان نہیں پہنچا ئے گا۔ (سنن ترمذی، امام ترمذی نے حسن کہا ہے)
اسی طرح جو شخص:
’’بِسْمِ اللّٰہِ الذِیْ لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیٌٔ فِی الأرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَھُوَالسَّمِیْعُ العَلِیْم‘‘
اس دعا کوصبح وشام تین مرتبہ پڑھے گا تو اسے کوئی ناگہانی مصیبت لاحق نہیں ہوگی اور دوسری روایت میں ہے کہ اس کو کوئی چیز تکلیف نہیں دے گی۔ (سنن ابی داود: ۵۰۸۸، ترمذی:۳۳۸۸، صححہ الالبانی)
اس کے علاوہ بھی بہت ساری دعائیں آپ ﷺ سے منقول ہیں مثلا آیۃالکرسی، سیدالاستغفار وغیرہ ہمیں ان کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کے ذریعہ غموں اور مصیبتوں سے نجات پا سکیں۔
شرعی جھاڑ پھونک کرنا:
شرعی اذکار کو پڑھ کر مریض پر دم کرنے سے بھی بیماریوں کا ازالہ ہوجاتا ہے اور انسان غموں ومصیبتوں سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ خود اپنے اوپر اور اپنے گھر والوں پر دم کیا کرتے تھے اور اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی آپ معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے۔ (بخاری:۵۷۳۵)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا ہے جیسا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچی کو دیکھا جس کا چہرہ سیاہ پڑچکا تھا تو آپﷺ نے فرمایا اسے جھاڑ پھونک کرو بے شک اسے نظر لگ گئی ہے۔ (بخاری:۵۷۳۹)
دوسروں کی مدد کرنا:
یہ عمل بھی غموں کے دور کرنے کا ایک اہم ذریعہ وسبب ہے کیوں کہ جب انسان دوسروں کی مدد کرتا ہے تو اللہ اس کی مشکلوں اور مصیبتوں کو دور کردیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جوکسی مومن کی دنیاوی مصیبت کو دور کرے گا تو اللہ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست پرآسانی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پرآسانی کرے گا اورجو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا،اللہ بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ (مسلم: ۷۰۲۸)
ان کے علاوہ بھی بہت سارے اسباب وذرائع ہیں جن کو انسان اپنا کر اور اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے مصائب وآلام، غموں اور مصیبتوں سے نجات پا سکتا ہے مثلا تقدیر پرایمان رکھنا، نیک اعمال کرنا، صدقہ وخیرات کرنا فرائض وواجبات کو ادا کرنا اور حرام کاموں سے اجتناب کرنا وغیرہ۔
اللہ رب العالمین ہمیں ان اسباب و ذرائع کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے اور کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭٭٭
آپ کے تبصرے