خدمت خلق کا اسلامی تصور

عبدالعلیم عبدالعزیز عبادات

انسان ایک دوسرے سے مل جل کر رہنے والا حیوان ہے، تنہائی سے اسے وحشت ہوتی ہے، اکیلے پن سے گھبراتا ہے، اسی لئے اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بہت سارے اصول بتلائے ہیں انہیں میں سے خدمت خلق اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک بھی ہے، کسی کے ہاتھ میں چند سکے ڈالدینا یا مادی مدد ہی خدمت خلق نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے، بے سہاروں کو سہارا دینا، دکھوں اور رنجم وغم سے چور شخص کے خانہ دل کو فرحت سرور سے معمور کرنا، کمزوروں پر دست درازی نہ کرنا، لوگوں کو شر سے محفوظ رکھنا اور دوسروں کے درد کو اپنے دل میں محسوس کرنا در اصل خدمت خلق ہے …
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
جو دوسروں کے درد کو محسوس نہ کرسکے وہ انسان کہلانے کے قابل نہیں …
تو از محنت دیگراں بے غمی
نشاید کہ نامت نہند آدمی
اسلام نے خدمت خلق اور رفاہی کاموں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے، حاجتمندوں کی ضرورت پوری کرنے، محتاج، نادار، تہی دست اور مفلوک الحال لوگوں سے ہمدردی، خیر خواہی اور ان کی مدد اور داد رسی کو عبادت کا درجہ عطا کیا ہے، اللہ نے فرمایا:
“نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کرو؛ بلکہ حقیقتًا نیک وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی پر قیامت کے دن پر فرشتوں پر کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کے باوجود قرابت داروں یتیموں مسکینوں مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے غلاموں کو آزاد کرے “. (البقرة: 177)
اسلام سراپا خدمت خلق سے عبارت ہے، دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، حسن سلوک اور رفاہی کام اس کا طرہ امتیاز ہے، اسی لئے اس دین کو دین رحمت اور لانے والے کو رحمۃ للعالمین کا خطاب ملا، اسلام نے خدمت خلق کی ترغیب دلائی ہے اور مختلف اسلوب کے ذریعہ اس پر ابھارا ہے، کبھی عبادت کا درجہ دے کر، کبھی اجرو ثواب کا وعدہ کرکے، تو کبھی اسے سب سے محبوب اور پسندیدہ عمل قرار دے کر؛ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:
ایک آدمی نبی ﷺکے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول! کون سا شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے اور کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ کے ہاں وہ شخص ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے ۔ اور اللہ کو سب سے زیادہ پسند عمل وہ خوشی ہے جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دے، یا اس سے مصیبت دور کرے ،یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی بھوک ختم کرے، اور اگر میں کسی بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چلوں تو یہ مجھے اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک ماہ اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ جس شخص نے اپنا غصہ روکا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ ڈال دے گا، جو شخص اپنے غصے کے مطابق عمل کرنے کی طاقت کے باوجود اپنے غصے کو پی گیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو امید سے بھر دے گا۔ اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت پوری ہونے تک اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن ثابت قدم رکھیں گے جس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے (اور یقیناً بد اخلاقی عمل کو خراب کر دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے).(سلسلة الأحاديث الصحيحة: 906)
اس حدیث میں بڑے ہی لطیف انداز میں خدمت خلق کی ترغیب دی گئی ہے، یہی نہیں بلکہ اسلام نے مرنے کے بعد ثواب کا ذریعہ ہی خدمت خلق کو قرار دیا، فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
“جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے”. (مسلم:1631)
صدقہ جاریہ یعنی ایسا کام جس کا فائدہ لوگوں کو پہنچتا رہے جیسے کہیں نل لگوا دیا کہیں درخت لگوا دیا تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں، یا ایسا علم تصنیف وتالیف وغیرہ کی شکل میں چھوڑا جس سے انسانیت مستفید ہو رہی ہو، ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ:
“سات قسم کے اعمال ایسے ہیں کہ اس پر بندے کو قبر میں مرنے کے بھی اجر ملتا رہتا ہے: تعلیم دینا، نہر بنوانا، کنواں کھودوانا، کھجور کا درخت لگانا، مسجد بنانا، مصحف کا وارث بنانا اور ایسی اولاد چھوڑنا جو استغفار کرتی رہے”. (صحيح الجامع: 3602)
اسی طرح راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ سے تعبیر کیا، راستوں پر بیٹھنے سے منع کیا اور جو بیٹھے اسے خدمت خلق کی تعلیم دی، مسافروں کو تکلیف دینے سے روکا، اگر کوئی راستہ بھٹک گیا ہے تو اس کی راہنمائی کا حکم دیا، مظلوم کی مدد کی تعلیم دی، اگر کوئی اپنا سامان سواری پر رکھ رہا ہو تو اس میں اس کی مدد کا حکم دیا اور ان سب چیزوں کو راستے کا حق بتلایا ہے، نابینا اور ضعیف البصر آدمی کو راستہ دکھلانے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راہ سے ہٹانے کی تعلیم دی-
یہی نہیں بلکہ جو کسی کی مدد نہیں کرسکتا اسے دوسروں کو اپنے شر وفساد سے محفوظ رکھنے کی تلقین کی اور اسے بھی صدقہ کہا ہے،
الغرض انسان کا جو بھی عمل دوسرے کو تکلیف دے، اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سایہ حاصل کرنے کی جگہ میں، شاہراہ میں اور ٹھہرے ہوئے پانی میں بول وبراز کرنے کو لعنتی عمل قرار دیا ہے (مسند أحمد:2715)
کیونکہ اس سے راہ گیروں کو تکلیف پہنچتی ہے. نیز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی خدمت خلق کا اعلیٰ نمونہ تھی اور صحابہ کرام کی زندگیاں نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کا پرتو اور آئینہ تھیں، بطور مشتے نمونہ از خروارے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں: مدینہ منورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھوکا آدمی آیا اور کھانا طلب کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوئے اور ازواج مطہرات کی طرف ایک آدمی بھیجا. تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ اس وقت گھر میں پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے. تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ جو اس شخص کو مہمان بنائے گا اللہ اس پر رحم فرمائے گا، چنانچہ ایک انصاری صحابی اسے بطور مہمان اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے پوچھا کہ کیا گھر میں کھانے کے لئے کچھ ہے؟ کہنے لگی کہ صرف بچوں کا کھانا موجود ہے، تو انصاری نے کہا بچوں کو کسی چیز سے بہلا دو اور جب مہمان اندر آجائے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا گویا کہ ہم بھی کھانا کھا رہے ہیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور مہمان کے ساتھ سب گھر والے بیٹھ گئے، لیکن کھانا صرف مہمان نے ہی کھایا پھر جب صبح ہوئی اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے آج رات اپنے مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس سے اللہ بہت خوش ہوا.  (مسلم)
نیز انسان تو انسان اسلام نے جانور اور چرند پرند کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی ہے،  ان کو ایذاء پہنچانے اور تکلیف دینے سے سختی سے منع کیا ہے، چنانچہ ایک فاحشہ اور زانیہ عورت کو ایک کتے کو_ جو پیاس کی شدت سے زندگی اور موت کی جنگ میں زندگی ہار رہا تھا_ پانی پلانے کی وجہ سے بخشش ومغفرت کا پروانہ عطا کیا، اور ایک عورت کو _جس نے بلی کو قید کرکے رکھا، پھر نہ اسے کھانا دیا نہ پانی اور نہ ہی آزاد کیا کہ اپنے پیٹ کا انتظام کرے یہاں تک بھوک وپیاس کی تیز چھری نے زندگی کی شہ رگ کاٹ دی، اور اس کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا_ عذاب کی دھکی دی ہے. اور اسی پر بس نہیں بلکہ اسلام نے جنات _جن کو ہم دیکھ نہیں سکتے بلکہ محسوس بھی نہیں کرپاتے_ ان کے ساتھ بھی حسن سلوک، اچھے برتاؤ، اور شفقت ومحبت کی تعلیم دی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہڈی، گوبر اور کوئلہ سے استنجاء کرنے اور جانوروں کو ذبح کرنے میں ہڈی کے استعمال سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ جنات کی خوراک اور اشیاء خورد نوش ہے. (بخاري: 5544، ابوداؤد: 39)
اس قدر واضح تعلیمات کے باوجود آج خدمت خلق سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، رفاہی کاموں کے سلسلے میں ہمارا جذبہ سرد پڑچکا ہے اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا تصور ختم ہوگیا ہے، کسی کی مدد کرنا تو دور اپنے شر سے بھی لوگوں کو نہیں محفوظ رکھتے …
دیوار کیا گری ہے مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے ہیں
خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے بارے میں ہمارا نظریہ یکسر بدل چکا ہے، آج “ہم بچا کھچا سالن، فریج میں پڑی چیزیں، پھٹے پرانے کپڑے، خراب جوتے دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم خدمت خلق کے اعلی درجے پر ہیں، یاد رکھیں! جب تک ہم دوسروں کو اپنی پسندیدہ چیزیں نہیں دیں گے اس وقت تک خدمت کے اصل ذائقے کو نہیں چکھ سکیں گے”.
اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی کو بھی تکلیف پہنچے، کہیں بھی رہتا ہو اس کے درد کا ہمیں احساس ہونا چاہئے …
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
لہذا آج ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات کو نافذ کیا جائے، زندہ ہیں تو زندہ دل رہیں، قلب وجگر ہے تو درد کو محسوس کریں کہ اس کا تعلق زندگی کے بنیادی مقاصد سے ہے
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
شہاب الدین کمال

بہت خوب… اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین…