ہے نفرت چار سو ایسی محبت بد دلی ٹھہری

شمس الرب خان شعروسخن

 

ہے نفرت چار سو ایسی محبت بد دلی ٹھہری

میں تنہا ہوں مری الفت ہی میری خود سری ٹھہری


نہیں ہے شوق مجھ کو روز مرنے اور جینے کا

کروں کیا جب مری ہی موت میری زندگی ٹھہری


وہ اہلِ جبر تھے مجھ کو جلانا ان کی خوبی تھی

میں بے کس تھا اڑی جو راکھ میری سرکشی ٹھہری


دیا کیوں مجھ کو حکمِ قم بتادے اے مسیحِ جاں

قیام و زندگی کیسی جو تیری بندگی ٹھہری


نہ چھیڑو ذکر مجنوں کا نہ ہی فرہاد کا یارو

جنوں کیسا وفا کیسی جو ان کی پیروی ٹھہری


تھے ان کے ہاتھ میں پتھر جو میرے ہی صنم کے تھے

جنوں کی راہ میں پہلی ہی منزل خود کشی ٹھہری


لگا کر میرے ہونٹوں سے پیالہ چھین لیتا ہے

مری تشنہ لبی ساقی کی میرے دل لگی ٹھہری


سفر کرتے ہوئے چھوڑا تھا جس کو قیر گوں کہہ کر

وہی رہ شمسؔ کے منزل کدے کی روشنی ٹھہری


آپ کے تبصرے

3000