محبت جتانے کو جی چاہتا ہے

کاشف شکیل شعروسخن

محبت جتانے کو جی چاہتا ہے

یہ فن آزمانے کو جی چاہتا ہے


بہت ہو چکا لن ترانی کا قصہ

یہ چلمن اٹھانے کو جی چاہتا ہے


جنھیں ڈھونڈتے تھے وہ اب روبرو ہیں

نگاہیں چرانے کو جی چاہتا ہے


بدن چھلنی کر کے، جگر زخمی کر کے

بہت مسکرانے کو جی چاہتا ہے


مہ و مہر و انجم، گل و جاسمیں کو

ترے در جھکانے کو جی چاہتا ہے


دہکتا ہوا رُخ، سلگتے ہوئے لب

یہیں دل جلانے کو جی چاہتا ہے


جو محشر کی مانند بکھری ہیں رخ پر

وہ زلفیں ہٹانے کو جی چاہتا ہے


اے کاشف یہ کیسی تری خستگی ہے

کہ خود کو مٹانے کو جی چاہتا ہے


2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Oomer riyaloo

Mash

Abdur Rahman khan Noori

بہت