محبت جتانے کو جی چاہتا ہے
یہ فن آزمانے کو جی چاہتا ہے
بہت ہو چکا لن ترانی کا قصہ
یہ چلمن اٹھانے کو جی چاہتا ہے
جنھیں ڈھونڈتے تھے وہ اب روبرو ہیں
نگاہیں چرانے کو جی چاہتا ہے
بدن چھلنی کر کے، جگر زخمی کر کے
بہت مسکرانے کو جی چاہتا ہے
مہ و مہر و انجم، گل و جاسمیں کو
ترے در جھکانے کو جی چاہتا ہے
دہکتا ہوا رُخ، سلگتے ہوئے لب
یہیں دل جلانے کو جی چاہتا ہے
جو محشر کی مانند بکھری ہیں رخ پر
وہ زلفیں ہٹانے کو جی چاہتا ہے
اے کاشف یہ کیسی تری خستگی ہے
کہ خود کو مٹانے کو جی چاہتا ہے
Mash
بہت