مؤرخہ 12/9/2017 صبح 7:00 بجے ناشتے کے بعد جامعہ عالیہ سے مئو جنکشن پہنچا۔ ٹرین آئی اور سوئے بنارس روانہ ہوگیا۔
ٹرین دھیرے دھیرے کسی اژدہے کی طرح مسافتوں کو نگل رہی تھی۔ جب وہ پٹری تبدیل کرتی تو پہلی پٹری کا دل ٹوٹتا محسوس ہوتا تھا اور شاید کھٹر پٹر کی آواز اس کے دل ٹوٹنے کی آواز یا بے وفائی کا شکوہ ہوتا تھا- واللہ اعلم- وہیں دوسری پٹری لذت وصال سے چیخ اٹھتی تھی۔
میرے کمپارٹمنٹ میں مختلف مزاج کے لوگ تھے۔ کہیں جھڑپیں کہیں گپ شپ، کہیں سیاست کی باتیں تو کہیں مذہب کی، میں سمجھتا ہوں کہ ٹرین وہ رحم دل ماں ہے جو اپنی آغوش میں بیٹھے فرزندوں کے اختلافات کا بالکل برا نہیں مانتی اور انھیں ان کی منزلوں تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے۔
ٹرین کے ساتھ وقت بھی اپنی منزلیں طے کر رہا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ٹرین وقت کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی، دونوں کو ہم سفر کرنے کے لیے مودی جی بُلِٹ ٹرین کا اجراء کرنے والے ہیں۔ بنارس جانے کا مقصد جہاں مادر علمی کی زیارت تھی وہیں برادرم خبیب حسن سے ملاقات اور ممتاز شاہد کا اولیں دیدار کرنا تھا۔
“سنتے رہے ہیں آپ کے اوصاف سب سے ہم
ملنے کا آپ سے کبھی موقع نہیں ملا”
ٹرین میرے سارے وجود کو جھنجھوڑتے ہوئے بنارس پہنچی۔ اسٹیشن پہنچ کر کسی شوخ حسینہ کی طرح اس نے سیٹی بجائی۔ سیٹی کی آواز سننا تھا کہ مسافرین اس کی طرف لپک پڑے اور جس کو جہاں جگہ ملی وہیں “جاگزیں” ہو گیا۔ اور میں نے بنارس اتر کر ٹرین کو الوداع کہہ دیا۔
بنارس ایک مشہور شہر ہے۔ منشی پریم چند، آشوتوش بھٹاچاریہ، بسم اللہ خان، برجو مہاراج، بھارتیندو ہریش چند، تلسی داس، جے شنکر پرشاد، ڈاکٹر مدن موہن مالویہ (مؤسس بنارس ہندو یونیورسٹی)، لال بہادر شاستری (سابق وزیراعظم ہند)، جھانسی کی رانی اور سنت روی داس یہیں کی زمین کی پیداوار ہیں۔ گوتم بدھ سے لے کر کبیر داس تک سب کی یادیں یہیں محفوظ ہیں۔ مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ اسی کا دھڑکتا دل ہے۔ بنارس ہندو یونیورسٹی اسی کے جگر گوشے میں ہے۔ مزید یہ کہ وزیر اعظم نریندر مودی یہاں کے ممبر آف پارلیمنٹ ہیں۔ علامہ عبدالحق محدث بنارسی تلمیذ امام شوکانی، علامہ محمد سعید محدث بنارسی، علامہ عبدالمجید حریری، علامہ ابوالقاسم سیف بنارسی، علامہ ابو مسعود قمر بنارسی، مولانا ابو عبیدہ عبدالمعید بنارسی وغیرہم یہیں پیوند خاک ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے استاد محترم مولانا محمد یونس مدنی کی کتاب “تراجم علمائے اہل حدیث بنارس” پڑھیں، جس کا مراجعہ و نظر ثانی استاد محترم مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی ایڈیٹر ماہنامہ محدث بنارس نے کی ہے۔ یہ کتاب محدث فورم پہ موجود ہے۔
ہندو مذہب میں بنارس کی خاص اہمیت ہے۔ یہ شہر صدیوں سے دریائے گنگا کے کنارے ہلالی شکل میں آباد ہے اور سیاحوں کی جنت ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق گنگا میں غسل کرنے سےگناہ دھل جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں اشنان کرنے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ بنارس میں گنگا کی کل 80 گھاٹیں ہیں۔ یہاں بکثرت مندر ہیں، جہاں پورے ملک سے زائرین آتے رہتے ہیں اور نذر و نیاز اور طواف کرتے رہتے ہیں۔
گھاٹ پر چتاؤں کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں پڑتی، ہندو عقیدے کے مطابق جس کو یہاں نذر آتش کیا جائے اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ یہ قادیانیوں کے بہشتی مقبرہ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔
یہاں ننگے باباؤں کا بھی ایک موسم آتا ہے اور ان کے لِنگ (شرمگاہ) کی پوجا ہوتی ہے۔
صبح بنارس کے بارے میں جوش نے کہا تھا:
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
اور “پری رُخان بنارس ہزار رنگا رنگ” کے کیا کہنے!!
صبح بنارس کے سلسلے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے “عشرت کرتپوری” کی کتاب “صبح بنارس” پڑھیں۔ ریختہ پہ یہ کتاب موجود ہے۔ مشہور زمانہ شاہی طرز تعمیر کی یادگار گیان واپی مسجد یہیں ہے۔
خیر! یہی کوئی بارہ بج رہے تھے۔ شہِ خاور شرر باری میں مصروف تھا اور زمین توے کی طرح گرم اور ہر شخص پسینے سے شرابور۔
جامعہ کے گیٹ پہ خبیب بھائی نے میرا استقبال کیا۔
خبیب بھائی ایک مقناطیسی کشش کے مالک ہیں۔ میرے دیرینہ رفیق اور بے تکلف دوست ہیں۔ آنکھیں رشکِ غزالہ، زلفیں نیم شب کا استعارہ اور چہرہ درد کا مارا۔ مولانا آزاد کے غلام اور بہترین تحریری صلاحیت کے مالک ہیں۔
ظہرانہ سے فارغ ہو کر گفتگو کا گھوڑا دوڑ پڑا۔ اسی دوران ممتاز شاہد بھی غیر شریفانہ انداز میں تشریف لے آئے، پہلی ملاقات تھی اس لیے دیدنی تھی۔ اب قیس جنگل میں اکیلا نہیں تھا ساتھ میں دو دیوانے اور ہوگئے اور خوب گزرنے لگی۔
عصر بعد ساحلِ گنگا کی سیر کا منصوبہ بنا۔ چونکہ یہ ہمارا منصوبہ تھا نہ کہ حکومت ہند کا اس لیے تکمیل تو ہونی ہی تھی۔ چنانچہ ہم عصر بعد ساحلِ گنگا پہنچے تو حسد کے مارے سورج کا چہرہ زرد ہونے لگا۔ اور شہر بنارس کا کیا کہنا، بس اتنا عرض ہے کہ:
تمھارا شہر بھی ہے شہر زلیخا جاناں
وہ پیمبر ہے جو دامن کو بچا کر نکلے
ساحل گنگا ٹہلتے ہوئے دل بار بار گرداب میں پھنستا محسوس ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ وہ گرداب خود ہمیں پھانسنا نہیں چاہتا۔
شام کے وقت بھی شدید گرمی تھی، اس لیے آئس کریم بلب ہوکر نسواں غلاف ہائے حلیب کے پس منظر میں دو عدد سیلفی لی گئی۔
ممتاز شاہد امتیازی خصوصیات کے مالک ہیں۔ دلآویزی ورثہ میں پائی ہے۔ حسنِ تخیل کا مَلَکہ مشاطہ حسن نے آپ کے ہر موئے تن میں ودیعت کر رکھا ہے۔ ساحلی سیاحت کے بعد غروب آفتاب کے وقت سطح زمین پر فروزاں ماہ و مہر سے اپنی آنکھیں بگھارتے ہوئے ہم جانب جامعہ روانہ ہوئے۔
بنارس سے دہلی کا سفر
میرے پاس وقت کم تھا۔ اس لیے کہ اسی روز رات نو بجے مجھے بنارس سے دہلی نکلنا پڑا۔ گنگا کی سیر سے لوٹنے کے بعد جلد از جلد دہلی جانے کی تیاری کی۔ دیر ہو چلی تھی اور ٹرین کا وقت بھی قریب تھا اس لیے ڈنر ہوٹل میں ہوا ورنہ دوپہر کی طرح رات کا کھانا بھی خبیب بھائی کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ملتا۔ رخصت ہوتے وقت ممتاز شاہد نے زبردستی زاد سفر کے طور پر ایک بڑا سا پیک تھما دیا جس میں بسکٹ، کیک اور وہ جملہ اشیاء خوردنی تھیں جو ہم بچوں کو پسند ہوتی ہیں۔ خبیب حسن نے اسٹیشن تک پہنچانے کے بعد بھی ساتھ نہ چھوڑا۔ انھوں نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک ٹرین نہیں آجاتی وہ ساتھ ہی رہیں گے۔ ٹرین آنے میں ابھی وقت تھا۔ ویسے بھی ہماری انڈین ریل ٹائم ٹیبل کی پابندی کے بجائے آزادانہ روش اختیار کیے ہوئے ہے۔ چنانچہ مختلف موضوعات چھیڑے گئے، کتاب زندگی کے مختلف اوراق زیر بحث آئے۔ کنواروں کے خاص موضوع پر خاصی اور خصوصی گفتگو ہوئی۔ شرارتوں کا مقابلہ ہوا تو پتہ چلا کہ وہ “شریر” والے شریر ہیں اور میں “شر” والا۔ چائے کی چسکیاں گفتگو کا ایندھن تھیں اور ارد گرد کے نظارے اس کا ڈیکوریشن۔ پہلی بار دل چاہ رہا تھا کہ کاش ٹرین مزید تاخیر سے آئے تاکہ گفتگو کا سلسلہ مزید جاری رہے۔
ساڑھے دس بجے ٹرین آ گئی۔ خبیب بھائی نے مجھے میری نشست پہ بٹھا کر چین کا سانس لیتے ہوئے الوداع کہا مگر میں بے چین تھا، اور یہ اضطراب بجا تھا کہ “منڈواڈیہہ” جیسی جگہ جہاں “فرقہ نازیہ طائفہ” کا بسیرا ہو اس آدھی ادھوری، اندھی اندھیری شب میں نکلنا معنیٰ خیز و نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا تھا۔
خیر اس کے بعد کے احوال راوی “تاریک” بتاتا ہے۔ واللہ اعلم
تین سو تیرہ خراٹے بھرنے کے بعد بیدار ہوا تو صبح ہو چکی تھی۔ میرے ہمزاد سے منقول ہے کہ یہ 313 خراٹے آس پاس بیٹھے مشرکین کے 1000 خراٹوں کے برابر تھے۔ خیر “دروغ بر گردن راوی، و راستی بر گردن ناقل”۔ صبح کچھ صبیح چہرے دیکھنے کو ملے، سراپا شام زلفیں، دوپہر کی طرح گرمی، بارش کی طرح آنکھیں، ٹھنڈی کی طرح قدرے سمٹا ہوا وجود، بہار کا لہجہ لیکن لُو سی تندی، لب خزاں رسیدہ لگ رہے تھے۔ شاید سفر کی تکان کا اثر تھا یا مجھ آسیب کا…..استغفر اللہ لی و لکم۔
کچھ دیر بعد سامنے کی برتھ پر تین عدد “نعت خواں” حضرات تشریف لائے۔ نعت کے حوالے سے وہ لوگ آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ میں بھی ان حضرات کی گفتگو کو بغور سماعت کرنے لگا اوہ ہوں ہاں کے ذریعے ان کی باتوں میں شریک بھی ہوجاتا تھا۔
میں اس وقت جینز شرٹ میں ملبوس تھا۔ ان حضرات نے مجھے جب اسلام پسند مسلمان محسوس کیا تو میری جانب متوجہ ہوئے۔ پھر انھوں نے مجھ سے کچھ سوالات کیے۔ ان کے سوالات کچھ اس طرح تھے:
1- کیا آپ صحیح العقیدہ “سنی” مسلمان ہیں؟
میں نے پراعتماد لہجہ میں ہاں کے لیے گردن ہلا دی۔ مگر ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ دین کا “گہرا” علم مجھے نہیں ہے۔
2- کیا آپ کے یہاں فاتحہ و درود ہوتا ہے؟
میں نے کہا جی ہاں! بلکہ اس (فاتحہ خلف الامام اور تشہد اولی میں درود) کی خاطر ہم نے کئی لوگوں سے بحثیں بھی کی ہیں۔
3- مزارات و مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہیں یا نہیں؟
میں نے ٹھنڈی آہ (جو گرمی کی وجہ سے ذرا گرم ہوگئی تھی) بھرتے ہوئے کہا “نہیں ابھی تک تو زیارت نہیں ہوئی ہے مگر دل میں بڑی تمنا ہے کہ مقامات مقدسہ (مکہ مدینہ وغیرہ) کی زیارت ہو۔
پھر اس کے بعد عاجز پر ان حضرات نے خاصا کرم کیا۔ اپنا وزیٹنگ کارڈ وغیرہ عنایت فرمایا، حلوے میں بھی شریک کیا اور “فأصبحتم بنعمته إخوانا” کا مصداق ٹھہرے۔ دراصل ان حضرات کا حضرت نظام الدین اولیاء دہلی میں نعت خوانی کا پروگرام تھا۔
مجھے اس بات کا دلی طور پر بے حد افسوس ہوا کہ ہم نے مسلکی امتیازی مسائل کو عین اسلام بنا دیا ہے۔ بوجوہ میں ٹرین میں خاموش ہی رہا۔ ٹرین کے اندر کی گفتگو اور باہر کے مناظر سے محظوظ ہوتا رہا۔ خیر! ہم سفر اچھے تھے اس لیے سفر بآسانی طے ہو گیا۔
اچھا ہے کاشف
کسی سفر نامے میں آپ علم و فن کی بستی اور شعر و سخن کی آماجگاہ مئو ناتھ بھنجن اکر رک گئے تھے ، اج مئو سے بنارس اور بنارس سے دار الحکومت دلی پہنچادیا ہے ۔
اب دیکھنا ہے گلا پڑاؤ شمالی ہند میں ہوتا ہے یا جنوبی ہند میں ۔
اطلاعا عرض ہے کہ مولانا یونس صاحب کی کتاب میں ” اہل حدیث ” کا اضافہ ہے ۔
ہاں ایک کتاب جو عام علماء بنارس پر ہے وہ مفتی عبد الباسط نعمانی صاحب کی ہے ۔
لکھتے رہیں ۔
شکریہ ۔
شکریہ
بہت بہت شکریہ شیخ
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
ماشاء الله
بہت اچھا سفرنامہ لکھا ہے آپ نے۔۔ البتہ سفر نامہ سے ایک نئی چیز دریافت ہوئی وہ یہ کہ آپ بھی جہری نیند سوتے ہیں 😅😅 جو لوگ سری نیند کے عادی ہیں ان کا مقابلہ جب کبھی ٹرینوں میں جہری نیند والوں سے ہوتا یے تو ان کو گاؤں والوں کا پہرہ۔۔۔۔ جاگتے رہو۔۔۔ رہ رہ کر یاد آتا ہے😍
ہاہاہاہا ویسے جہری نیند ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کو خاموش کرانے والی بیوی نہ ہو
بہت خوب اور دلربا تحریر ہے اس نوجوان کی اللہ کرے کہ اس کی اڑان صرف ریل کے سفر اور بنارس سے دہلی تک نہ رہے اللہ اے ہند سے ساری دنیا کے سفر پر لے جائے ہماری نیک تمنائیں ساتھ ساتھ رہیں گی( حافظ درانی )
بہت بہت شکریہ محترم پروفیسر درانی صاحب
آمین ثم آمین یا رب العالمین
ماشاءاللہ بہت خوب، کیا مسافر نامہ ہے، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اتنی سی عمر میں اردو پر کیا زبردست گرفت ہے رواں دواں تحریر، خوبصورت انداز بیان، منظر نگاری کا تو کمال ہے، لطیف طنز، کیا کیا لکھا جائے، ہر طرح سے ایک بہترین تحریر کے لئے مبارک باد پیش ہے.
جتنی بار پڑھا جائے ہر بار ایک چاشنی ملتی ہے
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
بہت بہترین…
آج سے کاشف شکیل کی جگہ كاشف رحيل سے متصف کرنا مناسب لگ رہا ہے… کیونکہ اب بھلا سفر كرنے والے کو سفیر تو نہیں کہے گے..
بہت ہی عمدہ ..
واقعی آپ کی تحریر لاجواب ہے..
اللہ مزید توفیق دے
السلام علیکم
کاشف بھائی بہت عمدہ تحریر ہے ،آپ کے عناوین برابر پڑھتا رھتا ہوں ،بارك الله في علمك ،وطول الله عمرك في طاعته آمين
مکمل تحریر ایک بار اور تحریر کے بعض اجزا کئ بار پڑھے… 😍😍😂😂
ان خوبیوں سے بھی مطلع ہوا جو میرے اندر تھیں اور میں ہنوز بے خبر تھا😍😍🤪🤪
بہت اچھا لکھا ہے، مزہ آگیا۔ ایک بار پڑھنا شروع کیا تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ختم ہوا۔۔۔تشنگی برقرار ہے، برسات ہوتی رہے!
لاجواب تحریر ہے بھائی.کتنی ہی بار پڑھو مزہ کم نہیں ہوتا.قابل ستائش ہیں کاشف بھائی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ