ریاض الدین مبارک کا‌ سفرنامہ: ایک نظر

کاشف شکیل

قرآن پاک نے بارہا سیر و سیاحت اور سفر کی ترغیب دی ہے۔ اللہ نے مناظر قدرت سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے والوں کو اپنے پاک کلام میں سراہا ہے۔ دراصل مناظر فطرت کو اگر اچھا ناظر مل جائے تو وہ اس کی آنکھوں کے راستے سے دل میں اتر جاتے ہیں۔ اب اگر یہ ناظر قوت اظہار میں عمدگی کا حامل ہو تو اپنے الفاظ سے مناظر تخلیق کرکے سفرنامے کی شکل میں قاری کو مستفید کرتا ہے۔
سفرنامے کی روایت بہت قدیم ہے اور متبرک بھی۔ قرآن پاک نے سیدنا نوح اور سیدنا موسی علیہما السلام کا سفرنامہ درج کیا ہے۔ بائبل سفرناموں سے بھری ہوئی ہے۔ خود ہمارے پیغمبر دنیا کے سب سے بڑے ادیب اور فصیح شخص جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر معراج سے بہرہ مند ہوئے تو اس کے احوال امت کے حوالے فرمائے۔ آپ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سفر طائف کا واقعہ، کارکردگی اور اپنے تاثرات بیان کیے۔ تمیم داری رضی اللہ عنہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس منعقد فرمائی اور ان سے روداد سفر سنا۔ خلاصہ یہ ہے کہ سفرنامے کی ریت کافی پرانی ہے۔
اردو زبان میں سفرنامے کو فنی‌ حیثیت حاصل ہے۔ سفرنامے میں سفرنامہ نگار اپنے سفر کے مشاہدات، تاثرات، کیفیات، قلبی واردات اور دیگر حالات و کوائف مرتب کرتا ہے اور دوران سفر یا سفر کے بعد اسے پیش کرتا ہے۔ جناب ریاض مبارک صاحب کا سفرنامہ اس لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ ان کے سفر اور سفرنامے میں بیس سال کا فاصلہ ہے۔ آج سے تقریبا بیس بائیس سال قبل آپ نے مختلف ممالک کا سفر کیا۔ پھر زندگی کے سفر میں مشغول ہوگئے۔ چند ماہ پہلے ایک واٹساپ گروپ دبستان میں آپ کا تفصیلی انٹرویو ہوا جس کو “دی فری لانسر” نے نشر کیا۔ اس انٹرویو میں آپ نے اپنے سفر کے مشاہدات اور ان پر اپنے تاثرات کو کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ سب کا اصرار ہوا کہ آپ سفر کے جملہ احوال ضرور لکھیں۔ چنانچہ یہ وقیع علمی و ادبی سفرنامہ زیر تحریر آیا۔
آپ کا سفرنامہ شام، قاہرہ اور یوروپ علمی و ادبی مواد سے لبریز جداگانہ اسلوب کا حامل ہے۔
آپ کے سفرنامے کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی معقولیت پسند طبیعت جذبات کو عقل سے الگ نہیں ہونے دیتی۔ آپ جہاں اعلی درجے کی جمالیاتی حس رکھتے ہیں وہیں جذبات کو عقل پر غالب نہیں آنے دیتے۔ اپنی پسندیدگی کو محض اپنے دل سے اٹھنے والی آواز نہیں بتاتے بلکہ اس کا معقول سبب بھی بتاتے ہیں۔
تاریخی مقامات سے گزرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ یہاں کے مسافر نہیں بلکہ رہنما ہیں۔ ایک ہی جگہ پر مختلف زاویے سے بحث کرتے ہیں۔ آپ کی اسلامی، فن شناس اور ادبی شخصیت کسی بحث کو تشنہ نہیں چھوڑتی۔ مثلا آپ سیریا کی راجدھانی دمشق کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی وجہ تسمیہ، آبادی، ماحول، اسلامی حیثیت، آب و ہوا، اہم مناظر، سیرگاہیں، شہر کی بابت وہاں کے مکینوں کے تاثرات، اس پر لکھی مصنفات، وہاں وفات پانے والے مشاہیر، سلطنت اسلامیہ میں اس شہر کا مقام، فضیلت اور اہمیت نیز یہاں کی خاک سے نکلنے والے فقہاء و محدثین، علماء اور ماہرین فن سب اس خوبی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ دامن اختصار اور قاری کی دلچسپی دونوں ہی متاثر نہ ہونے پائے۔
آپ کی یاد داشت کا کمال یہ ہے کہ بائیس سالہ قبل کے سفر کی جزئیات اس طرح بیان کرتے ہیں گویا اسے دیکھ رہے ہوں:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
آپ کے سفرنامے میں منظر کشی کمال کی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
“رات کے اندھیرے میں نیل کے پل پر کھڑے ہوکر تھوڑی دیر میں نے نگاہ دوڑائی صرف جل تھل پانی دکھ رہا تھا اور نیل کے دونوں کناروں پر آباد عمارتوں کی روشنیوں کا عکس نیل کے منظر کو مزید دلکش و جاذب نظر بنائے ہوئے تھا گویا نیلے آسمان کے چمکتے ستارے اتر کر نیل کی مچھلیوں کے سروں پہ آ بیٹھے ہوں اور جانے کی جلدی میں پانی کی تہ میں بیٹھی مچھلیوں کو اشاروں میں کچھ کہہ رہے ہوں جس کی وجہ سے پانی میں ارتعاش سا پیدا ہورہا تھا۔ خیر تھوڑی دیر بعد ٹیکسی ایک ہوٹل کے پورچ میں آن کھڑی ہوئی۔ ہوٹل کا نام تھا الفراعنہ۔”
آپ جمالیات کے بیان میں اس قدر آگے نہیں جاتے جہاں حقیقتوں کی زمین ختم ہو کر تصورات کا سمندر آ جاتا ہے۔ ہر سکے کے دونوں رخ دیکھتے ہیں اور جہاں خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں وہیں تلخ حقائق کے اظہار میں بڑے بے باک نظر آتے ہیں۔ مثلا ذیل کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
“ظاہر ہے جس شہر میں حریت ذات کے نام پر نشہ کرنے کی قانونی اجازت ہو وہاں کیا کیا مراعات نہ حاصل ہوں گی بس تصور کیجیے اور حقیقی دنیا سے ورچول دنیا کا سفر کیجیے وہاں کی دنیا بخوبی سمجھ جائیں گے، یوروپ نے علم و ٹیکنالوجی میں بے شک ترقی کے منازل طے کیے ہیں اور اس پر ناز کرنے کا انھیں حق بھی ہے لیکن حیا اور شرافت ان سے چھن گئی ہے۔ وہ اپنے ہوس کی آگ کھلے عام جانوروں کی طرح بجھاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسی کو ماڈرن تہذیب کہتے ہیں اور ایمسٹرڈیم اس تہذیب کا شہوار ہے۔”
ایک خوبی جو بہت کم ادباء کے یہاں نظر آتی ہے وہ مناظر کو زبان دینے کی ہے۔ آپ کے سفرنامے کا یہ حصہ دیکھیں کہ کس قدر مختصر الفاظ میں آپ نے ابوالہول کے بارے میں قاری کو ایک زبردست تاثر دیا ہے:
“ابوالہول واقعتا عجائب روزگار میں سے ہے میں اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ ایسا لگا جیسے وہ اپنی زبان حال سے اعلان کر رہا ہو کہ میں لازوال ہوں میں نا قابل تسخیر ہوں مجھے جاودانی حاصل ہے میں رہتی دنیا تک بے مثال ہوں۔”
اس اقتباس کے بعد آپ نے ابوالہول کے سلسلے میں جو علمی و تاریخی گفتگو کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے سفرنامے میں آپ محض سفرنامہ نگار نظر نہیں آتے بلکہ ساتھ میں ایک مؤرخ اور تجزیہ نگار بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی کے نام کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ “دراصل جرمنی کو جرمن زبان میں Deutschland، فرینچ میں allemagne اور اسی سے متقارب اسپینیش میں Alemania کہتے ہیں۔ اسی اسپینیول لفظ سے ہی عربوں کا المانیا ماخوذ ہے جبکہ برٹش اور امریکن اس ملک کو جرمنی Germany کہتے ہیں پھر انگریزی ڈومیننٹ ملکوں نے انگریزوں کی تقلید میں جرمنی ہی کہا اور یہی نام زبان زد ہوگیا۔”
آپ نہ صرف اردو ادب کے ماہر ہیں بلکہ انگریزی اور عربی ادب کا بھی اچھا درک رکھتے ہیں اس لیے چلتے چلتے یورپین اور عربی ادباء پر بہت خوبصورت کلام کرتے ہیں۔ سفرنامہ جرمنی میں آپ نے گوئٹے کا بہت شاندار ذکر کیا ہے۔ اپنے سفرنامے کے ذریعے قاری کو محض سیر و تفریح نہیں کرائی بلکہ اپنے درد مند دل سے ایک فکر بھی پروسی ہے۔ مثلا آپ رقم طراز ہیں:
“ہندوستان کو قدرت نے بے پناہ آبی وسائل سے مالامال کیا ہے۔ شمال سے جنوب اور مغرب سے مشرق تک اس ملک میں کئی ندیاں بہتی ہیں۔ ہندوستان کے بیشتر شہر انہی ندیوں پر آباد ہیں لیکن ان کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انھیں شہر کی تمام غلاظتوں اور آلائشوں سے پاٹ کر متعفن کردیا جائے۔ نجانے کیا وجہ ہے بھارت واسیوں کو صفائی سے جنم کا بیر ہے شاید قدرت نے انھیں ذوق جمال سے ہی محروم رکھا ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے دوسرے ممالک ایسی ندیوں کو نعمت سمجھ کر ان کی صفائی ستھرائی پر بہت دھیان دیتے ہیں، ندیوں کے دونوں جانب خوبصورت وسیع سڑکیں بناتے ہیں اور جا بجا تفریح کے پوائنٹس بنا کر شہر کو رونق بخشتے ہیں۔ ان ندیوں کے کنارے آباد ہوٹلوں اور مکانوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے ارباب حل و عقد ان ملکوں کا دورہ کرتے ہیں اور اس قسم کے خوشنما مناظر بھی دیکھ کر آتے ہیں لیکن عبرت نہیں لیتے۔”
میں آخر میں مولانا رفیق احمد رئیس سلفی (علیگڑھ) کا تبصرہ نقل کر کے اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا۔ آپ فرماتے ہیں:
“اس طرح کے علمی سفرنامے تنقیدی بصیرت، وسیع علم اور تیز مشاہدے کے بعد ہی لکھے جاسکتے ہیں۔ یہ صنف ادب ہماری جماعت میں معیاری تحریروں سے خالی ہے۔ ریاض الدین مبارک اپنے گہرے علم اور منفرد اسلوب کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ موصوف سے درخواست ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے ملک عزیز کی قیادت کو بھی آئینہ دکھاتے رہیں تاکہ یہاں بھی تہذیب و ثقافت کی وہ اعلیٰ قدریں پروان چڑھ سکیں جن سے یہ ممالک فیض یاب ہورہے ہیں۔”
ریاض صاحب نہ صرف مختلف ممالک کے مسافر رہے ہیں بلکہ انھوں نے وہاں ایک مدت بھی گزاری ہے۔ فی الحال سعودی سفارتخانے سے وابستہ ہیں اور ممبئی یونیورسٹی میں ایڈوانس ڈپلومہ کے پروفیسر۔ اس لحاظ سے آپ کا یہ سفرنامہ آپ کے تجربات کا نچوڑ ہے۔
دعا ہے کہ اللہ ریاض مبارک صاحب سے مزید علمی و ادبی کام لے اور صحت و عافیت کے ساتھ ان کی عمر دراز فرمائے۔ آمین

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
عامر انصاری ممبرا

ماشاءاللہ الحمد للہ کاشف ! آپ نے حق ادا کردیا ۔ امید کہ ریاض بھائی کے اور بھی سفرنامے سامنے آئیں گے ہاں کہیں ” رفعت الاقلام و جفت الصحف ” والا مسئلہ تو نہیں کیونکہ سفرنامے پر آپ کا تبصرہ پڑھ کر اول وہلہ میں یہی خیال آیا ۔ کچھ احباب سفر نامے لکھتے رہتے ہیں جن سے بہت سی نئی معلومات ملتی رہتی ہیں ۔ احباب میں : ڈاکٹر شمس کمال انجم ریاض مبارک (آپ نے ” متمدن بنجارے ” کی بڑی عمدہ اصطلاح وضع کی ہے) ثناء اللہ تیمی عبد الغفار سلفی اور آپ کے بھی سفرنامے… Read more »

خبیب حسن

کمال ہے یار ❤️❤️