ذکر آبگینوں کا ہو اور چھم سے نسوانیت ذہن میں نہ آئے ممکن ہی نہیں۔
ٹھیک سمجھے یہاں خواتین کا ہی ذکر ہورہا ہے- دنیا کی سب سے سچی زبان مبارک (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انھیں ” آبگینہ ” کہہ کر پکارا ہے۔
کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی گئی کہ یہ آبگینے کیوں ہیں، ان کی شخصيت، طبیعت، فطرت، بناوٹ، نزاکت کو آخر کن اجزاء سے اللہ رب العزت نے گوندھا کہ یہ اپنی سرشت میں شرم وحیا، ایثار و وفا، صبر و رضا اور عفت و عصمت کے ساتھ وقار و احترام کو لکھواکر لائی ہیں۔
ایک لفظ میں کہوں یا سو شبدوں میں، بحیثیت عورت یہ تمام اس کی اپنی بنیادی خوبیاں ہیں اور اہل دنیا سے عورت اسی بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے وہ عزت، وہ مقام و مرتبہ دیا جائے جو بعثت نبوی کا اہم مشن ٹہرا تھا۔
آج ایک مکمل شریعت ہاتھ میں لے کر پھرتے ہوئے بھی ہم شرمسار نہیں ہوتے کہ خواتین کے حقوق کا عام استحصال، اس کی ارزانی ہماری زبان حال و قال کی چغلی کھارہے ہوتے ہیں۔ بچیاں آج بھی باپ کے گھر میں داخل ہوتے ہی سہم جاتی ہیں، خوفزدہ ہوکر کسی کونے میں دبک جاتی ہیں، آج بھی بہت سے گھروں میں بیٹوں کو دال کے ساتھ انڈوں کا آملیٹ اور بچیوں کو صرف دال روٹی اور چٹنی پر اکتفا کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ حصول تعلیم میں بھی یہی معاملہ ہے بچی کو صرف مکتب کی تعلیم دلاکر گھر بٹھادیا جاتا ہے جو کسی طور مناسب نہیں۔ معاشرہ اگر بہترین افراد چاہتا ہے تو اسے بھی بہترین مائیں تیار کرنی ہوں گی۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ بیٹیوں کی جہالت کا خمیازہ پوری قوم اٹھاتی آئی اور صدیوں اٹھاتی رہے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کمزور کمزور سی بچیوں کو علم و آگہی، اخلاق و تہذیب، اعتماد و محبت کے ذریعے آنے والے اس وقت کے لیے مستعد کیا جائے جس میں اسے نسل انسانی کی مربیہ بننا ہے۔ قوم و ملت کے لیے اچھے کردار اور مضبوط فکر کی مائیں عطا کی جائیں۔
میں نے آج تک تاریخ نبوی کا کوئی واقعہ ایسا نہیں پایا جس میں نبی کریم کے آنے پر سیدہ فاطمہ زہراء ڈر سے کہیں چھپ گئی ہوں۔ بلکہ میں نے تو ایک والد اور بیٹی کی اس محبت میں دیکھا کہ کہیں نبی محترم (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی بیٹی کے لیے اٹھ کر دروازہ تک آتے ہیں، کبھی اٹھ کر چادر بچھاتے ہیں کبھی پیشانی پر بوسہ دیتے ہیں، کبھی اعتماد میں لے کر اپنے معاملات میں مشورہ چاہتے ہیں، کبھی ہاتھ میں پکڑی ہوئی پلیٹ سے روٹی اور گوشت کا ٹکڑا اپنی لخت جگر کو بھجواتے ہیں اور تو اور حالت نزع میں بھی سیدہ فاطمہ کی دلجوئی کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ عدیم النظیر اور لازوال محبت کی یہ اعلی اور نایاب مثال ہے۔
ممکن ہوتا تو نبی محترم کی زندگی کا ہر وہ گوشہ جو نسوانی رشتوں کے تعامل و تفاہم کے تعلق سے آپ کی انسان دوستی اور عدل پروری پر گواہ ہے سب کچھ تفصیلا ذکر کرتی۔ بیوی، بیٹی، بہن اور ماں کے ان رشتوں کو نبھانے کے علاوہ اللہ کے رسول نے دنیا کی ہر عورت کو محترم گردانا ہے چاہے وہ عورتوں کی جماعت کی نیابت کرنے والی اسماء بنت یزید رضی اللہ عنھا کے سوالوں کا جواب دے رہے ہوں، یا کہ ان کی فصاحت اور دلیری کی تعریف کر رہے ہوں۔ اللہ کے نبی نے عورت کی صلاحیتوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ رسول رحمت نے حضرت خنساء (رض) کے مرثیے بھی سنے اور ان کے ادبی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے اس کی قدردانی کرتے ہوئے انھیں شاعرہ اسلام کے لقب سے بھی نوازا۔ کسی صحابیہ کو رقیہ کرنے کی اجازت دی تو کسی کو عمل جراحی میں مسلمانوں کی مدد کرنے کی درخواست کی۔ کسی کی فنی صلاحیتیں دیکھ کر اسے کتابت کا میدان دے دیا، کسی کو دعوت دین اور درس و تدریس میں اپنا معاون بنالیا۔ کسی میں حکمت و تدبر دیکھ کر انھیں مجلس مشاورت میں شامل کیا۔ سیاسی اور مالیاتی نظام کی سمجھ بوجھ رکھنے والی صحابیات اور ازواج سے مشوروں کے ساتھ ساتھ انھیں تجارت کی اجازت بھی دی۔
آپ آنکھیں کھول کر، کان پھیلا کر دیکھ لیں اور سن لیں کہ نبی رحمت کے دل میں اگر خواتین کی عزت، احترام اور ان کے حقوق کے تئیں اتنی وسعت ہے تو کیا ہمیں اپنے غلط رویوں اور منفی رجحانات پر ایک بار بھی نظر نہیں ڈالنی چاہیے۔
دنیا کی ہر عورت عزت و احترام کی اتنی ہی مستحق ہے جتنی خود آپ کی مستور بیٹی یا بیگم بالخصوص ان خواتین کے تعلق سے آپ پر زیادہ ذمہ داری آتی ہے جو دعوت دین سے جڑی ہوئی ہیں اور اس کار خیر میں تقریر وتحریر سے اپنے حصے کا دیا جلانے کی کوششیں کررہی ہیں۔
شرک و بدعت اور الحاد نے جہاں سماج کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی جماعت عورتوں کی ہی ہے۔ آزادی نسواں، فیمنزم اور حق مساوات جیسے دلفریب نعروں تلے بھی ہماری چند ملی بہنیں حقائق سے پردہ اٹھانا خوب جانتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان جیسی دوسری خواتین بھی محاسن اسلام کی قدردانی کرتے ہوئے حق و باطل، ظلمت و ضیا، صبا و صرصر کا فرق ملاحظہ رکھیں اور اسی آگاہی کی خاطر اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو مکمل کرتے ہوئے، آگے آکر، اپنے حالات سے لڑتے ہوئے، کتاب و سنت کی تعمیل کرتی ہوئی، اسلامی حدود و ضابطہ میں رہتے ہوئے اپنے آس پاس یا سوشل میڈیا پر ایک داعیہ کا رول ادا کرتی ہیں تو اللہ سے ان کی استقامت کے لیے دعا کیجیے۔ ملت کی ہر بچی کو زیور علم سے آراستہ کیجیے نہ کہ ان کی شخصيت کے تجسس میں ان کی ذاتی اور دعوتی زندگی کے دائرہ حیات کو تنگ کرنے کی کوشش کریں۔
یقینا یہ امت مسلمہ کے اولین فرائض میں سے ایک ہے اور بلا تخصیص اللہ نے دونوں پر ادع الی اللہ……. کا فریضہ عائد کیا ہے۔ ہاں البتہ دونوں کے دائرہ کار میں فرق ضرور ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود ہر خاتون ہرگز آپ کی “سوچ” کے مطابق فارغ اور بیکار نہیں ہے۔ وہ سوشل میڈیا اس لے استعمال نہیں کررہی ہے کہ اسے مردوں سے ستائش مطلوب ہے، بلکہ اس کی یہاں موجودگی اپنے پیغام کو عام کرنے میں بہ نسبت کسی اور میڈیم کے زیادہ سہولت مند اور کنوینینٹ ہے۔ وہ گھریلو ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے بھی بآسانی لکھنے پڑھنے کا عمل جاری رکھ سکتی ہے۔
اس لیے انباکس میں اتر کر اسے پھول پتیوں سے بھرا ہوا سلام اور صبح و شام چائے کی پیالیاں بھیجنے، صبح و شام بخیر کے ساتھ جمعہ کی پیشگی مبارکبادیاں دینے سے احتراز کریں۔ ایک سیکنڈ میں پچاس پوسٹ پر آپ کے نان اسٹاپ لائکس آپ کی سنجیدگی اور ذہنی فراغت کا بھر پور پتہ دینے والی ہوتی ہیں۔
خواتین کے تعلق سے آپ سبھی پر ایک اہم ذمہ داری لاگو ہوتی ہے کہ خواتین کا تذکرہ برسر عام یا اپنی کسی ذاتی مجلس میں نہ کریں۔ اگر تذکرہ کرنے کی ضرورت ناگزیر ہو تو مناسب الفاظ کے ساتھ مختصر تعارف کے ساتھ بات کریں۔ لوگوں کے سامنے کسی باپردہ خاتون سے شناسائی یا تعارف جتلانے کی خاطر بلا ضرورت اس کا نام لینا قطعا مناسب نہیں، اس کے لیے آپ اللہ کے یہاں جوابدہ ہوں گے۔ فتنوں اور اتہام کے دروازے وا نہ کریں بلکہ “تعاونوا علی البر والتقوی” کا فارمولہ اپنائیں۔
یہ نازک آبگینے ہیں انھیں جگمگانے دو، اپنی روشنی بکھیر نے دو:
“اسی کے ساز سے ہے زندگی میں سوز دروں”
انھیں ٹھیس نہ پہنچاؤ کہ یہ ٹوٹ جائیں گے۔ یہ میں نہیں کہتی یہ کہنے والا وہ ہے شارع علیہ السلام، جو کچھ بھی اپنی جانب سے نہیں کہتا رب جو بھی کہتا ہے وہ سراپا اس کی تعمیل بن جاتے ہیں۔ ٹھیس نہ پہنچانے سے مراد صرف جسمانی تشدد سے روکنا نہیں، حدیث میں مذکور لفظ “قواریر” اپنے آپ میں بہت وسعت رکھتا ہے۔
اللہ، سبحان اللہ!
اسلام کی تعلیمات میں عورت کے مقام اور معاشرے میں اس کے احترام سے متعلق ایک عمدہ تحریر۔اللھم زد فزد۔بچیوں کے ساتھ اپنائے جارہے دوہرے رویے کی شکایت بجا ہے۔پرورش،تعلیم اور تربیت کے معاملے میں بیٹا اور بیٹی کے درمیان فرق کرنا سراسر ظلم ہے ،ایسے والدین اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔شادی بیاہ میں بھی ان کی پسند اور ترجیحات کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہے۔مشرق کے روایتی اقدار کا پاس ولحاظ رکھنے کی وجہ سے اس کی زبان نہیں کھلتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی اپنی کوئی خواہش یا مرضی نہیں۔گھر میں… Read more »