ہیں کتنے روز یہ بوڑھے شجر نہیں معلوم

ام ہشام معاملات

(۱)پروگرام کے دوران بار بار میری نظریں اس بزرگ خاتون کے چہرے پر کچھ اس طرح جاکر ٹھہر جاتیں کہ میری لڑکھڑانے لگتی۔ محسوس ہوتا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔
جوں ہی پروگرام ختم ہوا، ضعیفہ بھیڑ کو ہٹاتی ہوئی سیدھی مجھ تک آگئیں ۔میں نے سلام کو ہاتھ بڑھائے تو نظر انداز کرتے ہوئے میرے ہاتھ اور چہرے کو چُومنے لگیں ۔اور پھر گلے سے لگ کردفعتا رونا شروع کردیا ۔
رونا کیاتھا ، مانو کوئی بچّہ ماں کے گلے سے لگ کر رورہا ہو۔پھر میں نے بھی دانستا انھیں خاموش کرانے سے گریز کیا کہ پہلے بڑی بی رو کر اپنا غم ہلکا کرلیں پھر ان سے آگے کوئی بات ہو۔
(۲)وہ جنٹلمین اب پچاسی(۸۵)کے لپیٹے میں ہیں۔ ایک ریٹائرڈ لیکن باشعور معمر انسان جس کی بیمار بوڑھی بیوی پچھلے چار سالوں سے بستر کی ہوکر رہ گئی تھی۔
ان کا معمول بن گیا تھا کہ وہ رات کے ساڑھے دس بجے بس پر سوار ہوکر گھر سے دو اسٹاپ آگے جاتے تاکہ وہ بیوی اور خود کے لیے دو وقت کفایت کرجانے والی ، چھ(۶) عدد تازہ گھر کی بنی گیہوں کی روٹیاں لاسکیں۔آج کل جنٹلمین ایک بھرے پُرے گھر میں تنہائی کے عذاب سے دوچار ہیں ۔شریک سفر زندہ تھیں تو بڑی محنت سے کھانا وغیرہ بنالیتے لیکن اب تنہائی نے ہمت بھی توڑدی ۔اب تو عربوں کی طرح دودھ کھجور یا دودھ روٹی پر گزر بسر ہوتی ہے۔ باقاعدہ کوئی ڈش نہیں بناتے۔
بڑی بی مجھ اجنبی کے گلے لگ کر جب تڑپ تڑپ کر روچکیں تو انھوں نے کہا: ’’تم میرے گھر چلو اور جو باتیں والدین کے حقوق پر تم نے پروگرام میں بتائیں وہی باتیں میرے گھر والوں کو سمجھادو ۔ مجھ سے راستہ چلا نہیں جاتا لیکن پوتے پوتیوں کو اسکول پہنچانے اور لانے کا کام میرے ذمہ ہے۔ذرا سی دیر ہوجائے تو مجھے بہت جلدی جلدی چلنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے میں گر جاتی ہوں اور اکثر مجھے چوٹیں آتی ہیں ۔لیکن میرے بیٹے اور بہو یہ بات نہیں سمجھ رہے، وہ کہتے ہیں چلنا آپ کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے ۔صبح صبح بستر سے اٹھا نہیں جاتا لیکن بیٹے کی ناراضی کے خوف سے اٹھ کر بچوں کے اسکول جانا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ سودا سلف لانا بھی میری ہی ذمہ داری ہے۔‘‘
وہ بار بار ایک ہی جملہ کہتیں:’’ بیٹا! میری بوڑھی ہڈیوں میں اب طاقت نہیں رہی۔ تم میرے گھر چل کر کچھ اچھی باتیں انھیں بھی سمجھادو تاکہ وہ مجھ سے زیادہ کام نہ لیں۔‘‘
ایک بوڑھے اور تھکے ہوئے جسم کو جسے خود راستہ چلنے کے لیے ہمہ وقت کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اسے بچوں کا محافظ بناکر گھر سے باہر کے کاموں پر لگادیا جاتا ہے یہ کس قدر شرمناک اور افسوسناک بات ہے۔
اور وہ جنٹلمین ، رات کے وقت بس میں سوار ہوکر روٹی خریدکر لانا کتنا عجیب سا لگتا ہے۔مجھے بھی یہ بات بہت زیادہ عجیب لگی تھی، کیونکہ میں نے اس باہمت ، نیک دل اور’ فرشتہ صفت‘انسان کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔بچپن سے لے کر اب تک دیکھتی آرہی ہوں ۔
کیا وجوہات رہی ہوں گی کہ بیٹے کی فیملی ہونے کے باوجود مستقل بیمار رہنے والا یہ بزرگ جوڑا دو وقت کی دال روٹی کا محتاج تھا؟
پہلی بزرگ خاتون اور دوسرے جنٹلمین بزرگ دراصل الگ الگ حالات و واقعات میں اپنی سگی اولاد کے ہاتھوں ایک ہی طرح سے ڈسے گئے تھے جس کا تریاق ان کی اپنی اولاد کے پاس ہی تھا ۔
بہت سارے لوگوں نے ایسے یا اِس سے زیادہ افسوسناک واقعے دیکھ یا سُن رکھے ہوں گے۔ افسوس کیا ہوگا دُکھ جَتایا ہوگا تسلیاں بھی دی ہوں گی ۔لیکن کیا ان سب سے بزرگان کی تسلی کا سامان ہوجائے گا ؟
شاید نہیں ،نام نہاد معاشی و ثقافتی ترقی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مصروفیات کا سب سے بڑا خمیازہ آج اگر کسی کو بھگتنا پڑا تو وہ ہیں ہمارے گھروں کے بڑے بزرگ۔بالخصوص بزرگ والدین کو ، پیسے بنانے کے چکر میں ایک فاصلہ پر رکھ دینا ایک طرح سے ان کو آدھی موت دینے کے مترادف ہے۔اور رہی سہی کسر ان کے ساتھ ناروا سلوک اور زیادتیوں نے مکمل کر رکھی ہے۔جس کی وجہ سے بزرگان اپنی موت سے پہلے ہی مرجاتے ہیں۔
یہ بھی تبھی ہوتا ہے جب ’عصائے پیری‘کہلائی جانے والی اولاد ،سزا کا ڈنڈا بن کر والدین پر برسنے لگتی ہے۔والدین اس قدر خائف ہونے لگیں کہ جائز باتیں بولنا چھوڑدیں اپنے حق اور ضرورت کی چیزیں بھی طلب کرنے میں خوف محسوس کرنے لگیں ۔
چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ترستے ہوئے بزرگوں کو ترساکر معاشرہ کس قسم کی ترقی کررہا ہے ؟ہم بے شک پیرنٹننگ کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن اچھی تعلیم وتربیت کا جو اصل منبع ہمارے گھروں میں بزرگوں کی صورت میں موجود ہے بچوں کو جان بوجھ کر ان کے سایہ عاطفت سے محروم رکھا جارہاہے۔اور بزرگ اپنے پوتے پوتیوں پر اپنی محبت وشفقت نچھاور کرنے کی آس لیے اندر ہی اندر گھل گھل کر ختم ہو جاتے ہیں۔
مذکورہ واقعات سے کشیدہ مسائل سے تقریبا ملتے جلتے مسائل ہرگھر میں موجود ہیں لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔پھر وہ بزرگ مرد یا عورتیں جن کا شریک سفر انھیں زندگی کی راہوں میں تنہا چھوڑگئے اب اگر وہ اپنی بنیادی اور ناگزیر ضروریات کے لیے دوبارہ شادی کرنا چاہتے ہیں تو پھر سے یہ سماج اور اس کی واہیات، غیر شرعی، بوسیدہ ذہنیت ان بزرگوں کو ننگ وعار دلاتے ہیں۔انھیں ان کی پیری ضعیفی کا واسطہ دے دے کر دوسری شادی سے منع کرتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کون ہے جو آدھی رات کھانستے ہوئے باپ کے سرہانے ان کی تیمارداری کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوسکتا ہے ؟اور وہ کون سی بیٹی ہے جو اپنے میاں اور بچوں کو چھوڑ کر باپ کے گھر ہفتہ ہفتہ قیام کرے گی اور بوڑھے باپ یا ماں کی ضروریات کا خیال رکھے گی؟
شاید بوقت ضرورت کوئی بھی ایسی خدمات کے لیے میسر نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی تو زوجین کی طرح ایک دوسرے کی ضروریات کو کماحقہ پورا نہیں کرپائے گا۔
تو پھر انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقہ کو حالات کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑدیا گیا ؟
دراصل بڑھاپے کی نفسیات کا سب اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کے چھوٹے، اسے عزت وتکریم دیں ۔اس کی رائے کا احترام کریں اور اسے گھر اور معاشرے میں نمایاں مقام ملے، مشاورت میں شامل کیے جائیں۔
شاید بڑھاپے کا یہ وہی دور ہوتا ہے جب انسان دوبارہ بچپن کی طرف لوٹ جاتا ہے اور نبی رحمتﷺ نے اپنی دعاؤں میں اسی ارذل عمر سے پناہ بھی طلب کی تھی۔
کبھی اس بوڑھے کا دل گول گول جلیبیوں پر مچل جاتا ہے تو کبھی ٹھنڈی ٹھنڈی آئسکریم اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کبھی گول گپّے کا چٹخارہ اسے بے چین کردیتا ہے۔
بچپن کے بعد یہ بڑھاپے کا ہی دور ہوتا ہے جب زبان الگ الگ ذائقوں کی تمنا کرتی ہے۔ آنکھوں سے نظر آتی رنگ برنگی اشیاء کو جلدی سے چکھ لینے کی بڑی بےتابی ہوتی ہے۔
لیکن بڑھاپے کی خواہشات بھی کبھی پوری کی جاتی ہیں یہ تو بس لعنت ملامت کی خاطر ہوتی ہیں۔ بوڑھوں کو بے قرار کرنے کے لیے ۔سب سے زیادہ تنقید انھیں کھانے پینے میں برداشت کرنی پڑتی ہے۔ان کے لیے مقوی غذاؤں کا اہتمام نہیں کیا جاتا ، نہ ہی ان کے اندر کے بچے کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کبھی وہ بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتےہیں ، ان کی اخلاقی و روحانی تربیت کرنا چاہتے ہیں ،انھیں خیر وشر کی تمیز دلانا چاہتے ہیں ۔ لیکن ہم ان کے نظریات اورطریقوں سے مطمئن نہیں ہوتے اس لیے انھیں بچوں کی تعلیم و تربیت سے پرے رکھ کر اولاد کو معلّم زماں گیجٹ اور اسکرین کے حوالے کردیتے ہیں۔
بزرگ کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں، اپنے پرانے شوق کو زندہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم اسے فضولیات کا نام دے کر انھیں اپنے بچوں اور گھر کے فالتو اور محنت طلب کاموں پر لگادیتے ہیں۔
وہ گھر سے باہرنکل کر اپنے جیسے لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں ان کی مجلسوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں لیکن انھیں گھر کا چوکیدار بناکر خود سیر سپاٹوں کے مزے لیے جاتے ہیں۔
مقام افسوس ہے کہ ہم سن رسیدہ لوگوں کی خواہشات کو اپنی مصروفیات، مفادات اور خود غرضی تلے روند دیتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ پہلے پہل ہم سے بحث وتکرار کرتے ہیں، پھر لڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔اور تھک ہار کر بالآخر ہر طرح کی دفاعی کوشش ترک کرکے، زندگی اور خوشیوں سے منہ موڑ کر چپ سادھ کر اپنے خول میں سمٹ جاتے ہیں۔
جس عمر میں بزرگ والدین کو سکون سے دو وقت کی روٹی کھلانی چاہیے،ان کے لاڈ اور چاؤ کرنے چاہئیں، اس عمر میں یہ بوڑھی ہڈ ّیاں اپنے حالات سے مجبور ہو کر اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے والے ہٹّے کٹّے لوگوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ ان کے رعشہ زدہ ہاتھ چوکیدار یا چپراسی کے فرائض نبھاتے ہیں۔خون جگرپلا پلاکر ایک نومولود کو توانا جوان کرنے والی ماں کو اس کی پیری میں تحفظ و وقار کے بدلے در بدر کی ٹھوکریں ملتی ہیں۔وہ اپنی بنیادی اور چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے دوسروں کی محتاج بنادی جاتی ہے۔وہ گھروں میں جھاڑو کٹکے کے کام کاج کرتی ہے ، کسی اسکول ،آفس یا کارخانے کی گرد صاف کرتی ہے۔ یا پھر سردو گرم موسم سے بے نیاز سڑک کنارے کھلونے ،سبزیاں بیچتی پھرتی ہے۔
ہر جگہ ، ہر گھر میں اس قسم کی افراط وتفریط موجود ہے طبقہ طبقہ کا فرق ہے بس ۔ خوشحال طبقہ کے بزرگ گرچہ کہیں کام نہیں کرتے ،لیکن ان کی زندگی بھی اختیارات اور خوشیوں سے خالی ہوتی ہے بلکہ وہ کسی غریب یا متوسط طبقہ کے مقابلہ اور زیادہ تنہا ہوتے ہیں۔
ہمیں اپنا آپ ٹٹولنے کی ضرورت ہے، ممکن ہے کہیں کسی جگہ ہم ان کے قصوروار بن رہے ہوں۔یہ بوڑھے شجر، ان کے وجود سے ہماری زندگیوں میں خیر وبرکت ہے یہ ہمارے لیے جنت کی ضمانت اور رب کی رضا کا پروانہ ہیں ۔ان کے دم سے ہماری اولاد میں خود اعتمادی اور خوش اخلاقی کا دریا موجزن ہے۔زندگی کی پر پیچ راہیں ان کی رہنمائی کی طلبگار و محتاج ہیں۔
بزرگوں کو زک پہنچانا شر ک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔نماز جیسی توقیفی عبادت میں بھی نبی رحمت ﷺ نے معمر افراد کے لیے تخفیف کا حکم دیا ، ان کے اکرام کا خیال رکھنا ایک اچھے مسلمان کی پہچان ہے:
إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ: إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ
(ابوداود:۴۸۴۳)اللہ کی تعظیم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بزرگ (سن رسیدہ) مسلمان کی عزت کی جائے۔

آپ کے تبصرے

3000