زندہ رہنے کی یہ ترکیب نکالی جائے

ام ہشام معاشیات

دنیا ایک بازار ہے اور یہاں موجود ہر شئے کی قیمت ’محنت کی کرنسی‘ ہے۔جتنی زیادہ محنت اتنی اچھی خرید یعنی نیکی، بھلائی، برکت ، خوشی، سکون، کامیابی وغیرہ۔
انسان کے لیے تو وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، یہ فطرت کا ایک اٹل اصول ہے ۔نیتیں اچھی ہوں، عزم راسخ ہو تو پھر دنیا کی کوئی شئے انسان کو کامیاب ہونے سے روک نہیں سکتی ۔ہر وہ کام جس میں خلق خدا کی بھلائی مقدّم رکھی گئی ہو اور کام کے معیار سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا گیا ہو وہ کام کبھی ماند نہیں پڑتا۔اس کی ترقی، اس کی شان اُس کی سج دھج روز افزوں اور قابل دید ہوتی ہے ۔
زمین پر چلتے پھرتے کچھ معمولی سے لوگ ہمیں سکھا جاتے ہیں کہ ’’زندگی میں معجزات یونہی ظاہر نہیں ہوتے۔ پہلے محنت کرنی پڑتی ہے پھر معجزے ظاہر ہوتے ہیں اور انسان کامیاب ہوتا ہے۔‘‘
تو آئیے دیکھتے ہیں ایسے ہی ایک ’فرد‘کو نہیں بلکہ ’ہزاروں‘ پہ مشتمل ایک طبقہ کو جو پچھلی ایک صدی سے کام کرنے والوں اوررزق حلال طلب کرنے والوں کے لیے انوکھی مثال بن کر جی رہے ہیں ۔
آپ ممبئی آئیں لوکل ٹرین کا سفر کیا ہو اور ’ممبئی کے ڈبّے والوں کو نہ دیکھا ہو ایسا ممکن نہیں‘۔سفید کپڑوں میں ملبوس،سرپر گاندھی ٹوپی اور پیروں میں کولہا پوری چپلیں اَڑیسے ہوئے یہ ’ڈبہ والے‘ ہیں۔
یہ کم وبیش پچھلے ایک سو اکتیس(۱۳۱)سالوں سے ممبئی کے دفاتر میں کام کرنے والے نوکری پیشہ افراد کے لیے کھانے کا ڈبّہ پہنچانے کا کام کرتے آرہے ہیں۔وہ کہتے ہیں نا ! کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کچھ ایسا ہی پس منظرڈبّہ سروسز کا بھی ہے ۔
ایک پارسی نوکری پیشہ انسان نےایک دوسرے فرد کو مقرر کیا کہ وہ اس کے گھر کا تازہ بنا ہوا کھانا روزانہ اجرت لے کر اس کے دفتر پہنچادیا کرے۔اور بس ! پھر۱۸۹۰میں یہیں سے شروعات ہوئی۔
آگے چل کر مَہادیو ہاواجی بَچّے نامی ایک فرد نے سو آدمیوں کے ساتھ مل کر گھر سے باہر کام کرنے والے افراد کو دوپہر کا کھانا وقت پر پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔اور آج انھی ڈبّے والوں کی تعداد کم وبیش پانچ ہزار ہے ۔پانچ ہزارملازمین پر مشتمل محنت کش ، مخلص طبقہ روزانہ دو لاکھ لوگوں کے کھانے کے ڈبّے اُن کے گھروں سے اُٹھاکر اُن کےدفتر تک پہنچاتے ہیں ۔ان کی محنت ، ہمت اور ایمان داری قابل رشک ہے کہ سردی، گرمی اور برسات میں بھی وہ اپنے اس فریضے سے کبھی غافل نہیں ہوتے ۔صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک یہ ڈبّے والے مسلسل متحرّک ہوتے ہیں اس دوران صرف بیس منٹ کا وقت ہوتا ہے ان کے پاس تاکہ وہ کھانا کھاسکیں۔ساٹھ سے پینسٹھ کلو وزن لے کرچالیس چالیس ڈبوں کےساتھ بذریعہ لوکل ٹرین صرف چار گھنٹوں میں کھانا گھروں سے لے کر دفتر پہنچادیتے ہیں۔
سب سے کمال کی بات تو یہ ہے کہ آ ج تک ڈبّے والوں نے اپنا یہ ریکارڈ قائم رکھا ہوا ہے کہ کھانا پہنچانے کے دوران نہ ہی کوئی ڈبّہ کسی دوسرے غلط پَتے پر پہنچا ہے ،نہ ہی متعین وقت سے کسی کو دیری سے کھانے کا ڈبّہ ملاہے ۔
اس قدر مضبوط ،منظّم اور مستحکم نظام کو چلانے کے لیے ان کے پاس طریقہ کار فقط ایک ہوتا ہے وہ ہے ’کوڈنگ سسٹم‘۔ یہ ایک متحرّک اور بیدار سلسلہ ہے جس کے ذریعے سے ڈبے وصول کرنے والوں کے علاقے ، دفاتر اور منزلے مخصوص نمبرات اور انگریزی حروف تہجی آئل پینٹ سے لکھے گئے ہوتے ہیں ۔ہر ڈبہ والا اپنا ڈبہ بآسانی سمجھ لیتا ہے اور بغیر کسی خلط ملط کے اسے درست پَتے پر پہنچادیتے ہیں۔
ڈبّے والوں کے اسی سسٹم پر دنیا عش عش کر اٹھی ہے۔ملکی ،غیر ملکی سطح پر کئی ڈاکیو مینٹری فلمیں بنائی گئیں۔نیشنل جیوگرافی، ڈسکوری، بی بی سی جیسے بڑے چینلز اور میڈیا نے بھارت آکر بہت قریب سے ان کےکام ، اصول اور پالیسیوں کا جائزہ لیا۔دنیا کے کئی ملکوں نے ڈبے والوں کے اس کام کو نہ صرف سراہا بلکہ انھیں اپنے ملک بلواکر اعزاز بھی بخشا۔ ان کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھاگیا اور ان سے مشورے بھی لیے گئے ۔
ترقی یافتہ ممالک کا ان سادہ دل ڈبّے والوں میں اس قدر دلچسپی لیناہی اپنے آپ میں دلچسپ ہے۔۲۰۰۳ میں پرنس چالرز اور رچرڈ بینسن بھی کِھنچے چلے آئے، ان سے ملاقات کی اور ڈبّہ یونین کو اسی ضمن میں اعزاز سے نوازا اور انھیں اپنے بیٹے پِرنس ہیری کی شادی میں مدعو بھی کرگئے۔
ان کے اس جاں فشاں ٹیم ورک کو دیکھنے کی خاطر ممبئی میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد سال بھر جاری رہتی ہے۔ ہزاروں طالب علم اپنے پراجیکٹس کی تکمیل کے لیے ان کے ساتھ پورا پورا دن گزارتے ہیں اور بڑی باریکی سے ان کے کام کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ان کا نیٹ ورک لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے ۔بغیرکسی ٹیکنالوجی ، جدید ذرائع نقل وحمل اورسہولیات کے یہ طبقہ دوسری عوامی خدمات کے بالمقابل انتہائی تیز رفتار، آسان اور معتمد ہے۔
امر تعجب تو یہ ہے کہ’’ان کی تنظیم اور اس کے ساتھ متوقع مسائل ہونے کے باوجود یہ کبھی کسی ہڑتال پر نہیں گئے ۔نہ ہی کبھی اپنے مسائل کے لیے شور مچاکر دوسروں کا نقصان کیا ۔کیونکہ انھوں نے ۱۹۸۲میں ممبئی مل مزدوروں کی ہڑتال میں چھ سو مزدوروں کی موت سے گہرا سبق لیا تھا۔‘‘
ان سے خدمات حاصل کرنے میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوتا۔ گزشتہ چار پانچ سالوں سے گرچہ سروسنگ سسٹم میں کئی کمپنیوں نے اپنی مختلف النوع خدمات مہیا کروائی ہیں مثلاسویگی، زومیٹو اور فوڈپانڈاوغیرہ۔لیکن پھر بھی یہ ڈبے والوں کی ’کارکردگی‘کو ذرا بھی متاثر نہیں کرسکے۔ ڈبے والوں کی بے مثال خدمات اور ان کے کام کا معیار اب بھی لاکھوں لوگوں کے دلوں پر راج کررہا ہے ۔
یہ ساری بھاگ دوڑ بذریعہ لوکل ٹرین ، سائیکل اور ہاتھ گاڑی سے ہوتی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ موٹر سائیکل اور وین کا استعمال کیوں نہیں کرتے ؟ تو انھوں نے کہا ’’اگر ہم ٹریفک میں پھنس گئے تو ہمارے کلائنٹس کو کھانا وقت پر کیسے ملےگا؟اسی لیے ہم نے اصول بنایا کہ ہم پٹرول ڈیزل کی بجائے سائیکل اور ہاتھ گاڑیوں کا استعمال کریں گے تاکہ قدرتی ذخائر کی بچت کی جاسکے، ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جاسکے اور لوگوں کو بلا کسی تاخیر کھانا پہنچایا جاسکے۔‘‘
شاید یہی وجہ ہے انھیں ملک کی معاشی اور تجارتی سطح پر6 Sigma ملا ہوا ہے ۔ کامیاب معاشیات کے چھ اصول کو معاشیات کی زبان میں سِکس سِگما کہا جاتا ہے اور ممبئی کے ڈبہ والوں نے اس میں ہاورڈ بزنس اکیڈمی سے99.96فیصد کا درجہ حاصل کیا ہوا ہے۔
دراصل سگما کے چھ اصول یہ ہیں
۱۔کم وقت میں زیادہ کام
۲۔کم قیمت میں زیادہ بڑا کام
۳۔ماحولیاتی آلودگی میں کمی
۴۔نفع کا تناسب برقرار رکھنا
۵۔موسمی خساروں سے بزنس کو محفوظ رکھنا
۶۔صارفین کا اعتماد اور اطمینان جیتنا
مذکورہ چھ اصول مکمل طریقے سے ممبئی کے ڈبّے والوں کے طریقہ کار میں شامل ہیں۔
یہ یقینا ڈبّہ والوں کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں اپنے قابل ترین اسٹاف اور جدید ساز وسامان کے ساتھ بھی سِکس سِگما کے اصولوں پر مکمل نہ اترسکیں اور نہ ہی اتنا شاندار نتیجہ پاسکیں۔
جفاکشی اور ایمانداری سے ہٹ کر اگر کسی اور ناحیہ سے بات کی جائے تو ان کی یونین میں ہر قسم کے انسان کو نوکری پر رکھاجاتا ہے اور بلا کسی تمیز کے ان کو ایک جیسی تنخواہ ہی دی جاتی ہے۔ خواہ آپ تعلیم یافتہ ہوں یا نہ ہوں۔
ڈبّہ یونین میں داخلے کے وقت کڑی شرائط پر داخلہ ملتا ہے ۔شراب یا کسی دوسرے نشہ میں ملوث لوگوں کو یہاں کام نہیں دیا جاتا ۔ملازمت کی تقرری سے پہلے کم وبیش چھ مہینہ کی مشق کروائی جاتی ہے اورتب جاکر ان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
انسانیت نوازی کی ایک اور بڑی مثال یہیں سے ملتی ہے کہ ہر ماہ ان کی تنخواہ سے یونین کچھ رقم پس انداز کرتی ہے جو یتیم اور بیوہ کے رفاہی تنظیم کو جاتی ہے۔
کسی ایک ڈبّے والے کی موت پر اس کی تنخواہ سے دس گنا زیادہ پیسے یونین ادا کرتی ہے ساتھ ہی متوفی کی بیوہ کو ہر ماہ کا خرچ،بچوں کی مفت تعلیم اور طبی سہولیات کا ذمہ یونین خود پر لیتی ہے۔
فی کس ٹفن پر پانچ سو سے ہزار روپیہ ماہانہ لیا جاتا ہے۔ گھر سے دفتر پہنچانے کے لیے ممبئی کے ہر ریلوے اسٹیشن پر ایک ڈبّہ آفس موجود ہے ۔
یہ فقط کسی ایک کا کام نہیں ۔ہاتھوں ہاتھ کئی لوگ مل کر اس مشکل کام کو آسان بناتے ہیں تاکہ گھر سے بھوکے پیٹ نکلنے والا انسان سکون سے دوپہر کے وقت اپنے گھر کا صاف ستھرا کھانا کھاسکے۔اور گھر کے کاموں میں گھن چکر بنی خواتین اپنی سہولت کے مطابق بخوشی اور محبت کے ساتھ اپنے پیاروں کے لیے کھانا بھیجواسکیں۔
ان کی اجتماعیت ، ترتیب وتنظیم ، حکمت عملی ، قومی محبت اورمنصوبہ بندی دَرشاتی ہے کہ مستقل مزاجی ، محنت اور نیک نیتی کام کو کامیابی کی اس منزل پر پہنچادیتی ہے جہاں وسائل وذرائع کی کمی کا رونا دھونا نہیں ہوتا بس ایک منزل پر نظر ہوتی ہے اور دوسرے اپنے طریقہ کار پر۔ممبئی کے ویرار اسٹیشن سے لے کر چرچ گیٹ اسٹیشن تک، پنویل سے لے کرسی ایس ٹی اسٹیشن تک کے اتنےلمبے اور دشوار گزار راستوں پر ایلومینیم کے ڈبوں میں اپنا پیار اپنی لگن کا پیغام ممبئی کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔
ڈبے والے ہمیں سکھاتے ہیں:
ہر وہ کام جس میں خلق خدا کی بھلائی مقدّم رکھی گئی ہو اور کام کے معیار سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا گیا ہو وہ کام کبھی ماند نہیں پڑتا ۔اس کی ترقی ، اس کی شان، اُس کی سج دھج روز افزوں اور قابل دید ہوتی ہے ۔
ان کی زندگی سکھاتی ہے کہ انسانی زندگی میں معجزات یونہی ظاہر نہیں ہوتے پہلے محنت کرنی پڑتی ہے پھر معجزے ظاہر ہوتے ہیں اور انسان کامیاب ہوتا ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mo Mubarak Rain

شکراً جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
ہمت افزا مضمون میں، مشاغلِ دنیا میں خدمت خلق سب سے اہم اور مقدم پیشہ ہے، محنت جفاکشی معجزانہ ترقی عطا کرتی ہے،