نئی تہذیب کے انڈے

ام ہشام سماجیات

ایک انٹرویو کے انکشافات نے پوری دنیا کو حیرت وتاسف میں ڈال دیا ہے۔ اوپرا ونفری (Oprah winfrey) عالمی سطح پر ایک مشہور ٹاک شو کی پروڈیوسر اور ساتھ ہی ایک مقبول ومعروف میڈیائی ہستی ہیں۔ان کے انٹرویوز دنیا بھر میں اپنی شہرت بٹورتے ہیں، وجہ ان کا بیباکانہ انداز اور پرا عتماد لہجے میں مقابل سے گہرے سے گہرے راز نکلوالینا ہے۔حال ہی میں انھوں نے برطانیہ کے شاہی خاندان کے دو اہم ر ُکن مَیگھن مارکل اور پرنس ہیری کا ایک انٹرویو لیا۔پرنس ہیری، برطانیہ کے شاہی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ یہ پرنس چارلس کے بیٹے ہیں اور میگھن مارکل ان کی اہلیہ ہیں۔انٹرویو کی خاصیت یہ ٹھہری کہ یہ انٹرویوپورے دو گھنٹے چلا اور اس میں شاہی خاندان سے جڑے کئی اہم خلاصے سامنے آئے۔شاہی گھرانے کے اس’ جوڑے‘ نے اپنے خاندان کی ایسی کئی باتوں سے پردہ اٹھایا جو دنیا کے لیے گرچہ نئے تو نہیں ہیں لیکن حیرت و عبرت کا مقام ضرور ثابت ہوئے۔
میگھن نے بتایا:’’ شاہی گھرانہ جیسا نظر آتا ہے ویسا ہے نہیں ۔‘‘
ہیری سے شادی کے وقت وہ طلاق شدہ تھیں ۔ اس لیے انگلینڈ چرچ کے پادریوں کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں کا دباؤ تھا کہ یہ شادی نہ ہو۔جس کی ایک بڑی وجہ تھی میگھن کی رنگت۔ میگھن کی رنگت نسلًا سیاہی مائل ہونے کی وجہ سے بھی لوگ ان کی شادی کی مخالفت کرتے ہوئے پائے گئے۔کیونکہ میگھن کے والدین mixed race تھے۔
انٹرویو میں انھوں نے مزید باتیں کھولیں کہ’’ گرچہ مخالفتوں کے باوجود ہماری شادی ہو تو گئی لیکن تب سے اب تک مسلسل ہمیں بیرونی اور اندرونی اذیتوں کا دوہرا سامنا ہے ۔جسے میں پوری طرح بیان بھی نہیں کرسکتی۔ اس پورے عرصے کی قید وبند نے مجھے ڈپریشن کا مریض بنادیا۔اور کئی دفعہ میرے دل میں خود کشی کا بھی خیال آیا۔‘‘
میگھن نے کہا شادی سے پہلے ہی انھیں عوامی دنیا سے مکمل کٹ جانے کی سخت ہدایات دی گئی تھیں اور شادی کے بعد اس سلسلہ میں مزید تیزی آگئی تھی جس کی پابندی وہ کرتی بھی رہیں۔
ان کے فون ریکارڈ کیے جانے لگے، انھیں رشتہ داروں اور دوستوں سے آزادانہ ملنے پر بھی پابندی تھی، اپنی مرضی سے باہر آنے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ شاہی گھرانے کے معتقدین کی طرف سے ان کی ذات ہمیشہ ’مشق ستم‘بنی رہی ۔لوگ آن لائن انھیں گالیاں دیتے، کوستے ،بھدے تبصرے کرتے ان کی رنگت سے لے کر لباس ، جوتوں پر بھی کمنٹ کیے جاتے ۔بار بار کہا جاتا کہ وہ ’شاہی خاندان کے لیے نہیں بنی تھیں‘ حتی کہ حالت حمل کی اس ’خاص ہئیت‘ کا بھی مذاق بنایا جاتا۔وہ کہتی ہیں کہ۲۰۱۸ میں ان کی شادی کے بعد سے اب تک ان تمام باتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
اس کے علاوہ جس دھماکہ خیز بات کا انکشاف پرنس ہیری نے کیا وہ بات شاہی گھرانے کی مکمل ساخت کو مسخ کرنے کو کافی ہے۔ایک بیٹے (پرنس ہیری ) نے یہ کہا کہ اس سے اُس کے پیدا ہونے والے بچے کے تعلق سے اس کے خاندان میں پوچھا جاتا ہے کہ’’ جب تمھارا بیٹا پیدا ہوگا تو اس کی جلد کی رنگت کیسی ہوگی ؟‘‘تم جیسی یا میگھن جیسی؟ کیونکہ ان کی اہلیہ میگھن کارلے ایک ’مخلوط النسل‘ہیں۔اس لیے دوران حمل ان لوگوں سے ایسے بے تُکے غیر انسانی سوالات پوچھے گئے۔جس کی وجہ سے اس جوڑے کو گہری تکلیف پہنچی ۔انھوں نے ایک سال قبل ایک اور بڑا فیصلہ لیا ’ شاہی گھرانے کو چھوڑکر خود کفیل ہونے کا‘۔وہ ایک سال سے کینڈا میں الگ گھر میں رہ رہے ہیں اور اپنی معاشی جدو جہد میں مصروف ہیں ۔
ان کا قصہ تو تمام ہوا ۔لیکن ہمیں سوچنے کے نئے زاویے مل گئے ، سمجھنے اور سیکھنے کو کئی اسباق مل گئے۔ چکا چوند بھری دنیا اور اس کے باسیوں کی زندگی کیا سچ مچ ویسی ہی ہوتی ہے جیسے ہم سوچتے ہیں ؟دنیا کی ایک بڑی طاقت جس کے پاس کامن ویلتھ جیسے رسوخ ہیں ان کے اپنے شاہی گھرانے سے نسلی تعصب کی آواز اٹھی اور تفریق دکھائی پڑی۔
خلاصہ یہ کہ میگھن کو شاہی گھر کا فرد بنا کر گھر میں شریک تو کرلیا گیا لیکن اس کے ساتھ سلوک اب بھی نسلی، امتیازی، اچھوتوں والا ہی کیا جارہا تھا۔وہ اختیارات سے کوری زندگی جی رہی تھیں۔ان کی شخصی زندگی اور اس کی آزادیاں کچل کر رکھ دی گئی تھیں ۔اور ان سب کےباوجود انھیں کسی قسم کی کوئی سیکیوریٹی نہیں دی گئی ۔انھوں نے بار بار اپنے ساتھ ہونے والے معاملات کی شکایات گھر کے افراد سے کی۔لیکن سبھی نے سکوت اختیار کررکھا تھا جب کہ وہ اپنی بہو اور بیٹے کے تحفظ کے لیے بہت کچھ کرسکتے تھے۔
آزادی ، اختیارات ،کھل کر جینے کا احساس کس قدر خوش کن اور مستحکم ہوتا ہے کہ انسان کے پاس کچھ نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ روکھی سوکھی کھاکر ، اپنے بچوں کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر میٹھی نیند سوسکتا ہے۔دولت اور مادی آسائشوں کے پیچھے خود کو ہلکان کرنے والے ان کی زندگیوں سے سبق لیں کہ مال ودولت ، ناموری و شہرت انسان کو خوشی اور سکون نہیں دے سکتے ۔اپنی زندگی ، سماج، مذہبی اقدار، تہذیب و ثقافت کو ارزاں اور گراں سمجھ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ میگھن اور ہیری جیسوں کی زندگیوں سے سبق لیا جائے۔
جس اسلام کو آپ فرسودہ کہہ کر پس پشت ڈالتے ہیں وہ تنہا ایسا مذہب ہے جو آپ کے بنیادی ، فطری ، حقوق کی آواز اٹھاتا ہے۔محمد ﷺ کی بعثت کا سب سے پہلا اثر اور بڑا فائدہ سماج کے دبے کچلے افراد کو ہی ہوا۔ جس کے متعلق اللہ نے بھی قرآن میں آیتیں اتاریں:
’’اے انسانو! ہم نے تمھیں ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تمھیں گروہ اور قبائل بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘(الحجرات:۴۹)
پھر یہی نہیں بلکہ ان تعلیمات کو اپنے نبی کی زندگی میں ڈھال کر دنیا کے لیے ایک اسوہ بنادیا۔ نبیﷺ نے ایک بڑی عمر کی بیوہ خاتون سے نکاح کیا۔یہ جوڑا رہتی دنیا تک ایک مثالی جوڑا ہے ۔ اور نبی کریم ﷺ نے اس طرح دنیا کو انسان دوستی کی ایک نئی راہ دکھائی۔
مذہب بیزاروں کی جانب سے بارہا سوال اٹھائے گئے کہ اسلام عورت کی ذاتی اور شخصی زندگی کو پابندیوں اور حقوق کے بار سے دباکر ختم کردیتا ہے ۔دنیا ایک بار دیکھے تو، آزادی کے متوالوں نے عورتوں کے مساوی حقوق اور آزادی نسواں کے نام پر مکاریوں اور عیاریوں کے جو پتَّے پھینکے ہیں اس میں ہر جانب سے عورت پر ہی داؤ لگایا گیا ہے ۔عورت تو ان کی تہذیب میں زمانہ قدیم سے پستی چلی آرہی ہے، آج بس ذرا طریقے بدل گئے ہیں ۔پہلے اسے گناہوں کا مجسمہ سمجھا جاتا تھا مخصوص ایام میں اسے اچھوتوں کی طرح الگ کردیا جاتا تھا ۔ اسے نہ اپنی پہلی شادی ختم کرنے کا حق تھا، نہ دوسری کرنے کا جواز ۔اب بھی یہ سارے کام ہوتے ہیں، بس ذرا طور طریقوں میں کچھ فرق آگیا ہے ۔ یوں بھی آزادی کا خول بڑا وسیع ہے بہت کچھ ڈھانپ لینے کی وسعت ہے اس میں ۔بظاہر علمبردار انسانیت بنے ہوئے اس شاہی گھرانے میں ان کے اپنے ہی افراد نام ونمود اور بے تحاشہ دولت مند ہونے کا تاوان ادا کررہے تھے۔جو خاموش زہر میگھن کے رگ وپے میں اتارا جاتا رہا ۔اس کے اثرات اب جاکر دنیا کے سامنے آئے ہیں میگھن کی زبان کھلنے کے بعد لیکن ایسے لاکھوں واقعات ہماری بصارت اور سماعت سے پَرے ہیں۔
للچائی ہوئی نظروں سے اہل مغرب کے مخدوش اور شوریدہ نظام زندگی کی تمنا کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ ہوش سے کام لیں۔اسلام کو اپنی مرضی سے پسند اور اختیار کرنے والے سمجھیں کہ یہ دین فطرت ہے اور پاسبان انسانیت بھی۔ اس پر مطمئن ہو کر جمے رہیں ۔اس کی تعلیمات کو زندگی میں رائج کریں، اسے فروغ دیں، اسلام کو سمجھیں اور سمجھنے کے لیے قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں۔
اسلام ایک مکمل مذہب ہے جو انسان کو ذاتی ، علمی ، عملی اور معاشرتی حقوق عطا کرتا ہے اور نہ صرف عطا کرتا ہے بلکہ ان مراعات کی نگہبانی بھی کرتا ہے اور ایسا نہ کرنے والوں کا مواخذہ بھی کرتا ہے۔اپنے جائز حقوق کے لیے ، اپنی عزّ ت نفس کی حفاظت کے لیے وہ مقام جہاں خاموشی موت کے دروازے پر چھوڑ آئے وہاں اسٹینڈ لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ہم یہاں میگھن اور پرنس ہیری کے شاہی خاندان کی عیش وعشرت بھری زندگی سے دستبرداری کو قابل ستائش سمجھتے ہیں۔میگھن کے لیے اس وقت کچھ بھی آسان نہ تھا ۔شاہی گھرانے کی باتیں ان کی چہار دیواری سے باہر نہیں آسکتی تھیں ۔میگھن نے انھی باتوں کو دنیا کی چوپال پر لاکر رکھ دیا۔انھوں نے بلا خوف وخطر اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کیا اور اپنی فیملی کو محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اس لیے جب رنگ ونور کے قمقموں کے پیچھے کی دوڑ اور نام ونمود اور شہرت کےسراب آپ کو تھکادیں تب خاموشی کے ساتھ سر جھکا کر چلے آئیے گا ۔اللہ کا در،اس کے دین کی مراعات اپنے بندے کے لیے ہمیشہ کھلی ہوئی ہیں۔کیونکہ اس نے اپنی دنیا اور اپنا دین دونوں انسانوں کے لیے ہی بنایا ہے۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
أمجد أيوب ھندی

لا جواب تحریر
اللہ قبولیت سے نوازے آنکھیں کھول دینے والی تحریر
جو رہ اسلام پر گامزن راہگیروں کو امید و خود اعتمادی اور مذہب اسلام پر افتخار کا درس دے

عبدالقادر

ماشاءاللہ بارک فیکِ۔۔آمین کیا لکھا ہے آپ نے ،بہت مزہ آیا،اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین، واقعی چشم کشا ،بصیرت بیں تحریر ہے ۔۔۔۔!

کفایت اللہ فارس

لاجواب تحریر
مغربی تہذیب کی غلاظتیں اب باہر آنے لگی ہیں، عائلی نظام بالکل تباہ ہو چکا ہے، یقینا یہ تہذیب خودکشی کی طرف بڑھ رہی ہے

Khan Anam

بہترین تحریر!
بہت اچھا موضوع منتخب کیا گیا ہے۔ بالکل آنکھیں کھول دینے والی تحریر ہے۔ اسلامی نظریے كا ذکر قابلِ تعریف ہے۔ ماشاء اللہ۔ 👏🏻🌹