راستے میں جو آؤ جاؤ گے
اِس مسافر کا درد پاؤ گے
اِس طرح جو مجھے ستاؤ گے
میرے بِن تم بھی رہ نہ پاؤ گے
کون ہوں میں کہاں سے آیا ہوں
جتنا سوچو گے جاں جلاؤ گے
ایک دھوکہ ہوں میں نظر کا فقط
تم حقیقت نہ دیکھ پاؤ گے
نہ ہی لیتا ہوں نہ ہی دیتا ہوں
کس طرح جوڑو گے گھٹاؤ گے
نام ہی تو ہے جوڑ دو اپنا
ناک اپنی ہی تم کٹاؤ گے
دل میں آتا ہوں پر نہیں جاتا
تم مجھے کس طرح بھلاؤ گے
جانے والے سنو سنو اک بات
نیند میں خوب بڑبڑاؤ گے
تیر و تلوار خنجر و شمشیر
آز ماؤ گے مات کھاؤ گے
درد پھیلا ہے روح کی تہ تک
زخم سہلا کے کیا بناؤ گے
میں ہوں سورج سنو مرے مہتاب
وصل کی شب کبھی نہ پاؤ گے
شمسؔ کے دل میں کود جاؤ تم
عشق ہوگا تو ڈوب جاؤ گے
بہت خوب پروفیسر صاحب