جاگتی سوتی نگاہوں میں سفینے ڈوبے
تیری یادوں کے سمندر میں جزیرے ڈوبے
لہلہاتی ہوئی فصلوں پہ سرکتا آنچل
کہکشاؤں میں ترے جلووں کے سایے ڈوبے
میں مچلتا ہوں ابھی بھی انہیں کھلیانوں میں
آم کے باغ میں شعلوں کے فسانے ڈوبے
تجھ سے ہے دور ترے سپنوں کا شہزادہ مگر
تاج کے نقش میں تیرے ہی نگینے ڈوبے
میں کھڑا ہوں وہیں اب تک دلِ بیتاب لیے
مینڈھ کے خم کے پرے دید کے ڈورے ڈوبے
دوڑتا پھرتا ہے بچپن لیے قدموں کا کفن
شوقِ طفلی میں جوانی کے گھروندے ڈوبے
کربِ خاموشی ہے ہنگامہء افشا سے سوا
بحرِ پندار میں الفت کے ٹھکانے ڈوبے
لوٹ آؤں گا میں اک دن وہی کشکول لیے
دشتِ دولت میں وفاؤں کے جنازے ڈوبے
شوخ جذبوں کا تلاطم یمِ سرگوشی میں
سیبِ رخسار میں ہونٹوں کے کنارے ڈوبے
کوئی بھی جچ نہ سکا تیرے سوا اے جاناں
تیرے پرتو میں حسینوں کے نظارے ڈوبے
میں ہوں مجبورِ وفا تو بھی ہے محبوسِ رسوم
دودِ تنہائی میں ہی سانسوں کے نغمے ڈوبے
شوق ہے محوِ سفر ظلمتِ شب میں جاناں
اس کی آنکھوں میں ترے حسن کے تارے ڈوبے
بھولنا جبر تھا حالات کا وقتِ رخصت
شمسؔ ڈوبا تبھی یادوں کے اجالے ڈوبے
میں ہوں مجبورِ وفا تو بھی ہے محبوسِ رسوم
دودِ تنہائی میں ہی سانسوں کے نغمے ڈوبے
بہت خوب پروفیسر صاحب
بہت خوب پروفیسر
ماشاء اللہ
محبوس رسوم۔۔۔۔؟
مطلب جناب
۔۔
سیب رخسار میں ہونٹوں کے کنارے ڈوبے
مزہ آگیا
بہت خوب صاحب
شوخ جذبوں کا تلاطم یم سرگوشی میں
مطبل کیاہے
واہ واہ❤️❤️