اردو ادب میں آج کتوں کو جو مقام حاصل ہے اس کے لیے ان کی آنے والی نسلیں پطرس بخاری اور ان کی آئندہ نسلوں کے پیچھے ہمیشہ دُم ہلاتی پھریں گی۔ ایسا نہیں ہے کہ پطرس سے قبل اردو میں ان کا نام لیوا کوئی نہیں تھا۔ البتہ ان کا ذکرِ خیر”ذکرِ غیر“ کی طرح ہوا کرتا تھا۔ پطرس نے پہلی بار انھیں بالی ووڈ کی عطا کردہ ذلّت کی پستیوں سے نکال کر اردو تہذیب کی پروقار بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اعزازی سند یافتہ ہونے کے بعد اب وہ چھوٹے سے لے کر بڑے تمام ادباء و شعراء کا موضوع سخن بن چکے ہیں۔ ان کی فطرت، خصلت اور عادت پر ہر زاویے سے نگاہ ڈالی جاتی ہے۔ پطرس بخاری نے اجتہادی قدم اٹھاتے ہوئے انھیں نگیٹیو رول سے چھٹکارا دلا کر ایک ایسے کردار کی شکل میں پیش کیا جو طرحی اور غیر طرحی دونوں طرح کے اشعار فی البدیہہ سنانے بلکہ دہاڑنے پر قادر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، بالی ووڈ کے اداکار، خصوصاً دھرمیندر، اپنے ہائی وولٹیج مکالموں مثلاً ”کتے، میں تیرا خون پی جاؤں گا“ اور ”تجھے کتے کی موت ماروں گا“ کے ذریعہ انھیں پھر بھی ویلن بنا کر پیش کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ کتوں کا خون پینے کی دھمکی دینے والے دھرمیندر کو اگر شک بھی ہو جائے کہ اس کے پسندیدہ ریستوراں میں بیف یا مٹن کے نام پر کتے کا گوشت سرو کیا جاتا ہے تو تمام مکالمے بشمول جملہ حقوق اُلٹیوں کے ساتھ باہر آ جائیں۔
چوکیداری سے لے کر وفاداری تک ان کے نام کی قسمیں کھانے کے باوجود انسان موقع ملتے ہی ان کی تحقیر و تضحیک کرنے سے نہیں چوکتا۔ کسی کو چاپلوس کہتے وقت خواہ مخواہ انھیں بیچ میں گھسیٹا جاتا ہے حالانکہ کتے دُم رکھ کر بھی اپنی دُم اتنی سرعت و کثرت سے نہیں ہلاتے جتنا انسان بغیر دُم کے دُم ہلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بزرگوں کو اکثر کہتے سنا گیا ہے ”برخوردار، یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر ہلانا پڑتاہے۔“ اب انھیں کون سمجھائے کہ یہ نظریہ اب متروک ہو چکا ہے۔دورِ جدید میں ترقی پانے کے لیے، خصوصاً پروموشن کے معاملے میں، ہاتھ پاؤں سے زیادہ دُم ہلانے کی افادیت مسلم ہے۔ مسلسل یوگا سے بھی قد میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا جتنا برمحل اور برموقع، بلکہ ہر موقع، دُم ہلانے سے ہوتا ہے۔ دُم بھلے ہی چھوٹی ہو، پتلی ہو مگر ”قابلِ حرکت“ ہونی چاہیے، اور اس کا وائی فائی بھی ہمیشہ آن رہنا چاہیے تاکہ کسی بھی سروِس نیٹ ورک کے زیرِ اثر آتے ہی بلا تفریق (بغیر پاس ورڈ کے) فوراً ”کنکٹ“ ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دھوبی کا کتا بھلے ہی گھر کا ہوتا ہو نہ گھاٹ کا، مگر بشری کتے گھر کے بھی ہوتے ہیں اور گھاٹ کے بھی۔ یہ چشم زدن میں ڈھابہ سے اعلیٰ مقام تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر ایوانِ زیریں ہو یا ایوانِ بالا، یہ ہر جگہ ”دُمدُماتے“ پھرتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ارتقا کی اس منزل پر پہنچ چکا ہے جہاں ”دَم دار“ نہیں، ”دُم دار“ شخصیات کامیاب ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے ”دَم خَم“ رکھنے والوں کو ”خَم دُم“ والوں کے سامنے سرنگوں ہوتے دیکھا گیا ہے کیوں کہ جب مؤخر الذکر کے حسّیاتِ کلبی بیدار ہوتے ہیں تو اس کی ”کَلبلاہٹ“ اوّل الذکر کو ”بلبلاہٹ“ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ ”کلبلی“ مچتے ہی اس کی تمام تر صلاحیتیں اس بھگدڑ میں روند دی جائیں گی۔یہی وجہ ہے کہ بیکراں آسمان میں بکھرے بے شمار ستاروں کے درمیان ”دُم دار ستارے“ کی حیثیت سائنسی اعتبار سے بھی منفرد اور اہم ہوتی ہے۔
اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کرنے کے باوجود پتہ نہیں مشیتِ ایزدی میں کیا سمائی کہ انسانوں کو اس سریع الاثر عضو ترقی و کامرانی سے محروم رکھا۔ ڈارون نے بھی اس زخمِ احساسِ محرومی پر اپنے نظریے سے خوب خوب نمک پاشی کی اور انسان کو اپنے تابناک بلکہ خیرہ کن ماضی کی یاد دلا کر کفِ افسوس ملنے پر مجبور کر دیا۔ بس پھر کیا تھا:
چلا وہ تیر جو بہتر تری کمان میں ہے
کسی کی ”پونچھ“ میں جادو، تری زبان میں ہے
کے مصداق، اس نے اپنے ہاتھ پیر اور زبان تینوں کو دُم کے کام پر مامور کر دیا۔ اگر عورتیں آنکھیں ”مٹکا کر“ اور کولھے ”ٹھمکا کر“ مردوں کو ”ٹپکا“ سکتی ہیں اور بڑے بڑے کام نکال لیتی ہیں تو مرد بھی ”دُم ہلا کر“ ترقی کی سیڑھیاں چڑھ بلکہ پھلانگ سکتا ہے، البتّہ بحیثیت شوہر، یہ اسلحہ صرف ”بندگی“ کی علامت ہے۔ یہ افسوسناک امر ہے کہ اس فن میں حضرت انساں نے کتوں سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے لیکن ان کے نام کا تخلص خود کی بجائے ہمیشہ دوسروں سے منسوب کرتا آیا ہے۔
اردو ادب میں کتوں کی مقبولیت سے متاثر ہو کر اب سیاست دانوں نے بھی انھیں اپنا برانڈ امبیسڈر بنانے کی سعی شروع کر دی ہے۔ کبھی کسی کو اپنی کار تلے کچلے جانے والے کتوں میں کسی صوبے کے مظلوم و مقتول انسانوں کی شبیہ نظر آتی ہے تو کسی کو زندہ جلتے ہوئے دلت بچوں میں سنگسار ہوتے کتوں کا عکس نظر آتا ہے، کبھی کوئی نیتا کسی مشہور صحافی کی تذلیل کے لیے بے دھڑک اور بلا اجازت کتوں کا نام ایسے استعمال کرتا ہے گویا کسی رشتے کے تحت اپنا حق سمجھتا ہو۔ وہ تو انسانوں کی قسمت اچھی ہے کہ دنیائے سگ میں کوئی ”بابا سگ گیٹکر“ نہیں پیدا ہوا اور وہ ہنوز ذلّت و خواری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اکثر سوچتا ہوں صدیوں سے کچلے جا رہے کلبی جذبات اگر اچانک بھڑک اٹھیں اور انھوں نے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیا تو کیا ہوگا۔ سب سے پہلے تو قادر خان اور ان جیسے ستر اسّی کی دہائی کے دیگر کئی فلم مکالمہ نویس فوراً پولس ریمانڈ میں لے لیے جائیں گے۔ یہ دیکھتے ہی ان مکالموں کو اسکرین پر ادا کرنے والے اداکار پہلی ہی فرصت میں پیشگی ضمانت کی درخواست دے دیں گے۔ ہو سکتا ہے دھرمیندر کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری ہو جائے۔ فلموں سے لے کر سیاست تک، ہر جگہ ان کا رائلٹی فری نام بے دھڑک اور بے تحاشہ لیا جاتا ہے۔ اگر کتے حقوقِ حیواں (انیمل رائٹس) والوں کی پیروی سے شہ پا کر کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ دائر کرتے ہوئے رائلٹی کا مطالبہ کر بیٹھیں تو کئی فلمی شخصیات کنگال ہونے کے قریب آ جائیں گی۔ لہٰذا وہ فوری طور پر کل ہند کتا ایسو سی ایشن کے نمائندوں سے مل کر آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ یعنی عدالت سے باہر تصفیہ کے لیے دم ہلانے لگیں گی۔ لیکن اس درمیان ”ڈگنیٹی آف ڈاگ“ نامی تنظیم کا سربراہ خون کے بدلے خون کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ تجویز رکھے گا کہ کتوں کو ان انسانوں کا نام دیا جائے جنھوں نے زندگی بھر ذلیل انسانوں کو کتا کہہ کر پکارا تھا اور ”تذلیلِ سگ“ کے مرتکب ہوئے تھے۔ اپنے حق میں فیصلہ آتے ہی کتے ”چن چن کر“ فلمی و سیاسی شخصیات کا نام اپنے لیے منتخب کریں گے۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس نام کو اپنانے کے لیے کتوں میں خونریز جنگ چھڑ جائے گی…….لیکن جیتے گا وہی کتا جس کا سینہ چھپن انچ کا ہوگا۔
آپ کے تبصرے