ویسے تو کوٹ کا استعمال سب سے پہلے فوجیوں کے یونیفارم کے طور پر ہوا تھا اور دھیرے دھیرے یہ عام لوگوں کی زندگی میں آ گیا۔ سب سے پہلے لوگ اسے اپنے آپ کو ٹھنڈی سے بچانے کے لیے استعمال کرنے لگے، پھر وہ دھیرے دھیرے اپنی کشش کی بنا پر ترقی کے منازل طے کرنے لگا۔ آج عالم یہ ہے کہ ہر چہار جانب اس کا چرچا ہے، ہر محفل کی وہ زینت ہے، تمام بڑے لوگوں کی شان ہے، ہر آفس کی جان ہے۔ ڈپلومیٹک پارٹیاں تو اس کے بغیر نامکمل اور ادھورى ہیں۔ اکبر الہ بادی نے کہا تھا؎
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس زمانے میں کوٹ کی بڑی اہمیت ہے۔ انسان اپنی شخصیت کو جاذب نظر بنانے کے لیے اس کا سہارا لیتا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ ہر پیشہ کے افراد اپنے پیشے کو چمکانے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں چاہے پروفیسر ہو یا کوئی بزنس مین سب کوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ کوٹ کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ آج کل سڑکوں پر پھیری لگانے والے اور گھر گھر چورن بیچنے والے بھی اس کا خوب استعمال کرتے ہیں۔
بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس کی اہمیت اور افادیت سے ہر کس وناکس واقف ہے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب سے ٹرین میں ملاقات ہوئی جن کى سعودی عرب سے ابھی آمد ہی ہوئى تھی، وہ اپنے کوٹ کو النگنى سے لٹکائے ہوئے تھے اور اس کے قریب کسی کو پھٹکنے بھی نہیں دے رہے تھے۔ میں نے کہا آپ کوٹ کی بڑی حفاظت فرماتے ہیں؟ تو کہنے لگے یہ کوٹ بڑا قیمتی ہے، میں نے اسے تین سو ریال میں بنوایا ہے اورسعودی عرب سے یہاں تک بڑی حفاظت سےلا یا ہوں، میری ہونے والی ساس نے فرمائش کی ہے کہ ہمارا داماد جب پہلی بار ہمارے گھر آئے تو اس کے بدن کی زینت کوٹ ہی ہو۔
اور شاید اس کی اہمیت ہی کے پیش نظر ہمارے یہاں شادی میں جہیز کى لسٹ میں دیگر سامانوں کے ساتھ لڑکے کے لیے ایک عدد کوٹ کی فرمائش ضرور ہوتی ہے جسے لوگ شادی کے دن بڑے شوق سے زیب تن کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس کی حفاظت کے لیے اسے گٹھری میں باندھ کر رکھ دیتے ہیں اور ٹھنڈی کے موسم میں اسے نکال کر بغیر پریس کے لنگی پہ ہی زیب تن کر لیتے ہیں۔
بلکہ آج کل لوگ اس سے بھی زیادہ جری ہو گئے ہیں۔ایک شادی میں مجھے شرکت کا موقع ملا ۔جب کپڑے کی خریداری ہو رہی تھی تو آخر میں کوٹ کی باری آئی،دکاندار نے بڑے پیار سے پوچھا کہ آپ لوگ کوٹ کے لیے کون سا کلر پسند فرمائیں گے؟ایک صاحب جھٹ سے بولے ایسے کلر کا دیجیے جو لنگی پہ بھی چل جائے، یہ سن کر دکاندار کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، حالانکہ شا عر کہتا ہے؎
کوٹ پینٹ کی شان بڑھائے
سردی بھی کچھ دور بھگائے
اور اس کوٹ کی حالت تو اس وقت اورقابل دید ہوتی ہے جب یہ کوٹ تھوڑا پرانا ہو جاتا ہے تو اسی کوٹ کو ٹھنڈی میں لوگ اپنے بچے کو پہنادیتے ہیں کہ وہ اورکوٹ (overcoat) کا بھی کام کرے، اپنی یہ بے زار حالت دیکھ کر کوٹ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میں کس نا قدر کے ہتھے چڑھ گیا جو میری شان بان کى مٹی پلید کر گیا۔ حالانکہ اس میں کوٹ کی کوئی غلطی نہیں ہے، بس مسئلہ یہ ہے کہ وہ جہیز کے سامان کے ساتھ آیا ہے اور جہیز کے سامان کا حال تقریبا یہی ہوتا ہے۔فاعتبروا يا أولي الأبصار!
بہت خوب… اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ما شاء اللہ
اچھی کوشش ہے، اللہ تعالیٰ زبان وقلم میں برکت دے۔