فن نعت گوئی اور چند مشہور نعتیں

ایم اے فاروقی ادبیات

اقرار توحید کے ساتھ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان،آپ کی اتباع اور آپ کی ذات کے ساتھ والہانہ محبت کے بغیر کوئی شخص کامل مومن نہیں بن سکتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عن انس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: ”لا یؤمن احدکم حتی أکون احب الیہ من والدہ وولدہ و الناس اجمعین‘‘۔ (رواہ البخاری و مسلم(

یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم میں کوئی مومن نہیں ہوسکتا ہے،یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں، حقیقت یہ ہے کہ محبت رسول دین کی عظیم بنیاد ہے اور بندے کا ایمان محبت رسول پر موقوف ہے، سچ کہا شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے:

خلاف پیمبر کسے رہ گزید

کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید

مپندار سعدی کہ راہ صفا

تواں رفت جز پئے مصطفا

پیغمبر کے خلاف جو بھی چلے گا وہ منزل پر کبھی نہیں پہنچے گا، سعدی مت سمجھو کہ راہ صفا پر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کیے بغیر چل سکتے ہو۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا میں چاہے جہاں مسلمان ہوں، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے دیوانہ وار محبت کرتے ہیں، وہ فقر وفاقہ کی زندگی گزار سکتے ہیں، ظلم و ستم کی چکی میں پس سکتے ہیں لیکن نبی کی محبت سے دست بردار نہیں ہوسکتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں رچی بسی ہے،مسلم معاشرہ کے ہر شعبہ میں محبت رسول کی گہری چھاپ نظر آئے گی،ادب اور شاعری بھی اس سے الگ نہیں ہے، اسی محبت رسول کے نتیجہ میں نعت گوئی کا فن وجود میں آیا، ہر شاعر جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے،وہ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار اشعار کے ذریعے ضرور کرتا ہے، نعت گوئی کا سلسلہ عہد نبوی سے اب تک جاری ہے، عربی، فارسی اور اردو نیز دیگر زبانوں میں نعتوں کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے، جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔

نعت گوئی کوئی آسان فن نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ نعت کہنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے، کار نعت کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے عرفی نے کہا تھا:

عرفی مشتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا است

ہشدار کہ رہ بر دم تیغ است قدم را

عرفی جلدی نہ کرو،یہ نعت گوئی کا راستہ ہے، کوئی صحرا نہیں ہے کہ آنکھ بند کر کے چلتے جاؤ، ہوش سنبھال کر چلو کہ اس راہ پر چلنا تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔

نعت گوئی کا رشتہ اسلامی عقیدہ اور ادب سے یکساں ہے،عاشق رسول شاعر کو عقیدے کی باریکیوں کا دھیان خاص طور سے رکھنا پڑتا ہے، مقام رسالت و عبودیت اور الوہیت کی حد بندیوں میں معمولی سا تجاوز اور پائے تخیل کی ذرا سی لغزش اسے کہیں سے کہیں پہنچا سکتی ہے،عقائد اور جذبات و خیالات میں توازن، اعتدال اور ہم آہنگی کے بغیر وہ نعت گوئی کے منصب سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔

عرفی کو یہ احساس تھا کہ نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے سے زیادہ مشکل کام ہے، لیکن اپنے ایک نعتیہ قصیدہ میں جذبات کی رو میں ایسے اشعار کہہ ڈالے جو سوئے ادب اور سوقیانہ پن کی مثال بن گئے،وہ کہتا ہے:

شاہد عصمت تلاش صحبت من کے کند

خون حیض دختر رز جوشد از لبہائے من

نعت گوئی میں غلو اور مبالغے کی زد کس طرح عقیدے پر پڑتی ہے اور اس کے ڈانڈے شرک سے کس طرح جا ملتے ہیں اس کی مثال اردو کے اس شعر میں دیکھیں:

کیا شان احمدی کا چمن میں ظہور ہے

ہر گل میں ہر شجر میں محمد کا نور ہے

ظاہر ہے اللہ رب العالمین کی وحدانیت اور خلاقیت ایسے مبالغے اور غلو کی اجازت قطعی نہیں دیتی ہے۔

ان مشکلات کے باوجود عہد نبوی سے تا حال شعرا نے اس فن پر طبع آزمائی کی ہے اور نعتوں کے شاہکار اور یادگار نمونے چھوڑے ہیں، خاص طور سے عربی،فارسی اور اردو میں نعتوں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

یہ واضح رہے کہ نعت گوئی نہ تو عربی و فارسی میں اور نہ اردو میں صنف ادب ہے،بلکہ ایک موضوع ہے جسے شاعری کی کسی بھی ہیئت میں برتا جاسکتا ہے، خواہ وہ قصیدہ ہو یا مثنوی یا غزل، اس موضوع کی وسعت بے پناہ ہے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اور سیرت کے حوالے سے اسلام اور اسلامی معاشرت کے سارے پہلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہے، حالاں کہ ابتدائی ادوار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شمائل و فضائل، سیرت کے کچھ واقعات، آپ کی ولادت با سعادت، واقعۂ معراج اور معجزات ہی اس موضوع کے محور تھے،لیکن بعد میں نعت کے موضوع میں اس قدر وسعت ہوئی کہ آپ کے اوصاف حمیدہ،فرامین مبارکہ،اخلاق نبوی کے تمام گوشے جیسے حسن اخلاق، حسن سلوک، حسن بیان،سادگی،آپ کی شجاعت و بسالت، زہد و قناعت، ایثار و سخاوت، رحمت و مودت، ہمدردی و بہی خواہی، شفقت و محبت سب کے سب نعت گوئی کے اجزا بنے، حتی کہ شاعر کے کسی شعر سے نعت گوئی کی فضا بنی تو اسے بھی نعت میں شامل کرلیا گیا۔

نعت گوئی کی ابتدا سب سے پہلے عربی زبان میں اور عہد نبوی میں ہوئی، شعر گوئی کے اعتبار سے عرب کی سرزمین بڑی زرخیز تھی، ایام جاہلی ہی سے یہاں شعرا کی بہت زیادہ قدر تھی، عرب کے کسی قبیلے میں شاعر پیدا ہوتا تو جشن منایا جاتا، وہ قبیلے کا مستحکم ستون تھا، عہد نبوی میں بہت سے ایسے شعرا موجود تھے جنھوں نے جاہلیت میں بھی مقبولیت اور شہرت حاصل کی تھی، جن میں لبید بن ربیعہ، عباس بن مرداس،حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ، کعب بن زہیر اور ابن زبعری کا نام سر فہرست ہے۔

کفار مکہ نے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کے لیے اپنی زبان دانی اور شاعرانہ قادر الکلامی کو جس طرح ہتھیار بنایا، اس کی تفصیل سیرت اور اسلامی تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے، پانی سر سے اونچا ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابۂ کرام سے فرمایا: تم لوگوں نے تلوار سے تو میری مدد کی ہے، کیا کوئی ایسا بھی ہے جو زبان سے میری مدد کرے؟ حضرت حسان بن ثابت نے سب سے پہلے اپنا نام پیش کیا، چنانچہ حضرت حسان کی سیادت میں مخالفین کی ہرزہ سرائیوں کا دندان شکن جواب دیا جانے لگا،آپ نے دفاع کا حق ادا کردیا، ذات اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں پرزور قصیدے کہے، آپ کا کلام سادہ،سلیس اور تاثیر سے بھر پور ہوتا تھا، اس میں کہیں بھی ابتذال کا شائبہ تک نہیں تھا، آپ کے ایک نعتیہ قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

الا ابلغ ابا سفیان عنی

مغلغلۃ فقد برح الخفاء

بأن سیوفنا ترکتک عبدا

و عبد الدار سادتہا الإماء

ھجوتَ محمدا فأجبت منہ

و عند اللہ فی ذاک الجزاء

أتھجوہ و لست لہ بکفء

فشرکما لخیر کما فدا ء

ھجوت مبارکا، برا، حنیفا

امین اللہ شیمتہ الوفاء

فان أبی و والدہ و عرضی

لعرض محمد منکم وقاء

ابو سفیان کو میری جانب سے یہ پیغام پہنچا دو کہ حقیقت ظاہر ہو چکی ہے۔

کہ ہماری تلواروں نے تمھیں غلام بنا کر چھوڑا، اب عبد الدار کے سردار کنیزائیں ہیں۔

تم نے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ہجو کی، میں نے اس کا جواب دیا،مجھے اس کا اجر اللہ دے گا۔

تم ان کی ہجو کرتے ہو،تم ان کے برابر کے نہیں ہو،تم دونوں میں بدتر بہتر کے لیے قربان ہوجائے

تم نے ایک بابرکت، نیک، اللہ والے اور اللہ کے امین کی برائی کی، جن کی فطرت میں وفاہے۔

میرے باپ، میرے دادا اور میری آبرو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی آبرو کے لیے ڈھال ہے۔

عہد نبوی کے دوسرے بڑے نعت گو شاعر حضرت کعب بن زہیر تھے،کعب کے اسلام لانے کا واقعہ اسلامی تاریخ میں معروف ہے، ان کا پورا خانوادہ شاعر تھا، کعب کے والد زہیر بن ابی سلمی جاہلی زمانے کے مشہور شاعر اور اصحاب معلقات میں سے ایک تھے، ان کا قصیدہ امثال و حکم سے پر ہے اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں اشعر العرب کہتے تھے، کعب کے بھائی بجیر بھی شاعر اور صحابی تھے، کعب کے بیٹے عقبہ اور پوتے عوام بھی شاعر تھے، گویا پورا گھرانہ”ایں خانہ ہمہ آفتاب است” کا مصداق تھا، کعب کا تعلق مزینہ قبیلے سے تھا، آپ کے بھائی بجیر پہلے اسلام لاچکے تھے، کعب اسلام کے شدید مخالفین میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ کی ہجو میں متعدد قصائد کہہ چکے تھے، حضرت بجیر نے آپ کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے شعرا کے قتل کا فرمان صادر کردیا ہے جو اپنے اشعار کے ذریعہ رسول اللہ اور اسلام کی مخالفت کرتے ہیں، تم مدینہ آکر دربار نبوی میں حاضری دو اور اپنے جرم کی معافی مانگو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بڑے رحم دل ہیں، وہ ضرور معاف کردیں گے، وہ نہ مانے اور ادھر ادھر بھاگتے رہے، زمین ان کے لیے تنگ ہوگئی، کہیں بھی انھیں جائے پناہ نہ ملی، آخر کار وہ مدینہ آئے، اپنے کسی شناسا کے یہاں ٹھہرے،فجر میں مسجد نبوی میں حاضر ہوئے، فجر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پڑھی، نمازبعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابۂ کرام کے جلو میں جلوہ افروز تھے، آپ کعب کو پہچانتے نہیں تھے، کعب سامنے آکر بیٹھ گئے،اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں دیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کعب آپ کی خدمت میں حاضر ہے،وہ معافی کا طلب گار ہے،کیا آپ اسے معاف کردیں گے؟ آپ نے ان کی معافی کی درخواست قبول کر لی، کعب نے کہا: اللہ کے رسول میں ہی کعب ہوں اور مسلمان ہوگیا ہوں،ایک انصاری صحابی نے کعب کا نام سن کر تلوار نکال لی اور کہا: ’’اللہ کے رسول اجازت دیجیے، اس گستاخ کا سر قلم کردوں،‘‘ آپ نے انھیں روکا اور فرمایا: انھیں چھوڑ دو،انھوں نے توبہ کرلی ہے، اسی موقع پر کعب نے دربار رسالت میں اپنا وہ مشہور مدحیہ قصیدہ پیش کیا، جس کا پہلا شعر تھا:

بانت سعاد فقلبی الیوم متبول

متیّم، اثرھا لم یفد مکبول

سعاد مجھ سے جدا ہوگئی، اس کے جانے کے بعد میرا دل مضطر و بے قرار ہے، وہ سعاد کی محبت کا ایسا اسیر ہے جسے فدیہ دے کر بھی رہا نہیں کرایا جاسکتا۔

حضرت کعب کا یہ قصیدہ پہلے شعر کی نسبت سے ”قصیدہ بانت سعاد” کے نام سے مشہور ہوا، قصیدے میں کل اٹھاون اشعار ہیں، تشبیب میں شاعر نے چودہ پندرہ اشعار سعاد کے حسن و جمال اور اس کے فراق میں بے قراری اور بے تابی کے بیان میں کہے، اس کے بعد اپنی ناقہ کی تیز رفتاری، اس کی قوت،اس کا نسب اور اس کے اعضا کے خوب صورت تناسب کا تذکرہ خالص مقامی انداز میں کیا،ناقہ کی تعریف میں جو الفاظ شاعر نے استعمال کیے، وہ اتنے پرشکوہ اور ثقیل ہیں کہ بغیر توضیح و تشریح کے ان کے معانی سمجھنا بھی مشکل ہے، چند اشعار بطور مثال پیش ہیں:

أمست سعاد بأرض لا تبلغھا

الا العتاق النجیبات المراسیل

و لن تبلغھا الا عذافرۃ

فیہا علی الاینِ إرقال و تبغیل

سعاد ایسی سرزمین میں داخل ہوئی کہ وہاں صرف اصیل،شریف اور تیز رفتار ناقہ ہی پہنچا سکتی ہے۔

اور صرف طاقت ور اور تھکن کے باوجود تیز دوڑنے والی اونٹنی ہی وہاں لے جاسکتی ہے۔

مراسیل، عتاق، ارقال اور تبغیل جیسے الفاظ ہمیں طرفہ بن العبد بکری کے معلقہ کی یاد دلاتے ہیں جس میں طرفہ نے اونٹنی کی تعریف میں اسی قسم کے الفاظ استعمال کیے ہیں، قصیدہ بانت سعاد کا اسلوب او انداز خالص جاہلی شعر کی روایت اور اسلوب کے مطابق ہے، شعر گوئی میں حضرت کعب کا مقام ان کے والد زہیر سے کم نہیں تھا، کعب نے اپنے والد کے نہج کی پیروی کی، اس زمانے کے دیگر شعرا کی طرح ان کا بھی زیادہ وقت سیر و شکار، ریگستانوں اور ٹیلوں کے درمیان گزرتا تھا، جس کا اثر ان کی شاعری پر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے،لیکن اسلام لانے کے بعد ان کی شاعری کے اسلوب میں کافی تبدیلی آگئی تھی،ایک ایسا اسلوب جو اسلامی فکر کا عکاس تھا،کعب کا یہ قصیدہ در اصل ایک مجرم شاعر کا معافی نامہ ہے، جواپنے جرائم پر شرمندہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے آپ کے رحم و کرم اور عفوو در گزر کا طالب ہے، وہ خوف و رجا کے درمیان لرز رہا ہے، کانپ رہا ہے، اسے اپنے جرم کے بڑے ہونے کا احساس ہے،اسی لیے خوف زدہ ہے، اسے آپ کی رحمت اور کرم پر یقین ہے،اسی لیے اسے امید ہے کہ وہ معاف کردیا جائے گا، اپنی اس کیفیت کا ذکر وہ مندرجہ ذیل اشعار میں کرتے ہیں:

فقد اتیت رسول اللہ معتذرا

والعذر عند رسول اللہ مقبول

مھلا ھداک الذی اعطاک نافلۃ

القرآن فیہا مواعیظ و تفصیل

لا تأخذنی بأقوال الوشاۃ و لم

اذنب وإن کثرت فیّ الاقاویل

لقد أقوم مقامًا لو یقوم بہ

أری وأسمع ما لو یسمع الفیل

لظل یرعد إلا أن یکون لہ

من الرسول بإذن اللہ تنویل

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس عذر خواہی کے لیے آیا ہوں،اور اللہ کے رسول عذر قبول فرماتے ہیں۔

آپ مجھے مہلت عنایت فرمائیں، اس اللہ نے آپ کو ہدایت کی، جس نے آپ کو رسالت کے علاوہ قرآن کا تحفہ دیا، جس میں ہر قسم کی نصیحتیں اور (احکام کی) تفصیل ہے۔

اے اللہ کے رسول! چغل خوروں کے الزامات پر مجھ سے مواخذہ نہ فرمائیں، میں نے گناہ کا ارتکاب نہیں کیا،اگرچہ مجھ پر بہت سی الزام تراشیاں کی گئیں۔

میں جس پر ہیبت مقام پر کھڑا ہوں، اگر ہاتھی بھی اس جگہ پر کھڑا ہوتا اور جو میں دیکھ اور سن رہا ہوں،اسے وہ دیکھتا اور سنتا تو وہ خوف کے مارے لرزنے لگتا مگر یہ کہ اس کے لیے اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے امان کی جود و سخا کرتے۔

چند ابیات کے بعد جب حضرت کعب نے یہ شعر پڑھا:

ان الرسول لنور یستضاء بہ

و صارم من سیوف اللہ مسلول

بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایسے نور ہیں جن سے روشنی اور ہدایت حاصل کی جاتی ہے، آپ اللہ کی شمشیر بے نیام ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرط مسرت سے اپنی ردائے مبارک کعب کوبخش دی، اسی وجہ سے قصیدۂ ”بانت سعاد” کا دوسرا نام قصیدۂ بردہ پڑگیا، عربی میں بردہ چادر کو کہتے ہیں، حضرت کعب زندگی بھر اسے متاع عزیز سمجھتے رہے، مشہور ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے وارثین سے یہ چادر بیس ہزار درہم میں خرید لی تھی، حضرت معاویہ کے انتقال کے بعد اموی خلفا نے اسے اپنے پاس رکھا، خاص مواقع اور عید میں وہ یہ چادر استعمال کرتے تھے۔

قصیدہ بانت سعاد کا خاص امتیاز یہ ہے کہ حضرت کعب جس ادبی ماحول کے پروردہ تھے، اس کا پورا عکس اس قصیدے میں نظر آتا ہے، شعراء جاہلی کی شعری روایت اور اسلوب کو انھوں نے بڑی خوب صورتی سے برتا ہے، اس کارتبہ ادبی اور فنی اعتبار سے اس قدر اونچا ہے کہ متقدمین اور متاخرین علما، مصنفین اور شعرا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا، مغرب اور مشرق میں اس کی خوب شہرت ہوئی، دنیا کی مشہور زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے، عربی ادب اور دین سے جن لوگوں کو لگاؤ ہے، ان کے ذہنوں میں آج بھی اس کا نام نقش ہے، ہر دور میں اس قصیدے کی تشطیر، تخمیس اور معارضے لکھے گئے، علماء کبار نیاس کی شرحیں لکھیں، اس قصیدے کی چند شرحیں یہ ہیں:

الاسعاد، لحل نظم بانت سعاد، لمسعود بن حسن بکری القنائی، بلوغ المراد، علی بانت سعاد لمحمد صالح السباعی، الجوھر العقاد فی شرح بانت سعاد لاحمد بن محمد الیمنی، فتح باب الاسعاد فی شرح بانت سعاد لعلی بن سلطان الہروی، کنہ المراد فی شرح بانت سعاد لجلال الدین السیوطی۔

حضرت کعب بن زہیر کے سن وفات کی تعیین میں مختلف روایات ہیں، زیادہ تر مورخین نے ۴۲ھ/۶۶۲ء کو ترجیح دی ہے۔

عہد نبوی سے تا حال کوئی بھی دور عربی نعت گو شعرا سے خالی نہیں ہے،خیر القرون کی نعت گوئی اس لحاظ سے ممتاز تھی کہ اس دور کی نعتوں کا بنیادی مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام کا دفاع، توحید اور رسالت کی تبلیغ و تلقین تھا، بعد کے ادوار میں نعت گوئی نے کافی ترقی کی، اس میں نئے نئے مضامین اور موضوعات داخل کیے گئے،،وفور عشق، حسن بیان، نازک خیالی اور فصاحت و بلاغت کے دریا بہائے گئے، ہجر و وصال، جمال یار،والہانہ شیفتگی، مبالغہ اور غلو، زلف یار کی باتیں، محبوب کی پیکر تراشی اور نقش آرائی نے فن نعت گوئی کو سطحی قسم کی تشبیب اور تغزل سے زیادہ قریب کردیا، متصوفانہ نظریات، افکار و خیالات،استمداد، استغاثہ، شاعرانہ غلو اور خلاف حقیقت مبالغہ آمیزی نے نعت گو شعرا کو غیر مشروع راہوں پر ڈال دیا۔

ساتویں صدی ہجری میں صوفی فکر کے ترجمان شاعر شرف الدین ابو عبد اللہ محمد البوصیری کو اس کے مدحیہ قصیدہ میمیہ کی وجہ سے جو مقبولیت ملی وہ بہت کم نعت گو شعراکے حصے میں آئی، وہ ۸۰۶ھ میں مصر کے ایک قصبہ دلاص میں پیدا ہوا، اس کے والدین میں سے ایک کا تعلق دلاص اور دوسرے کا بوصیر سے تھا، اسی لیے کبھی دونوں مقامات کی ترکیب کے ساتھ وہ دلاصیری اور کبھی بوصیری کہلایا، لیکن وہ بوصیری کی نسبت سے زیادہ مشہور ہوا، بوصیری ایک قادر الکلام اور طباع شاعر تھا، اس کی عام شاعری میں ظرافت اور ابتذال کا پہلو غالب ہے،تاہم اس نے اپنے زمانے کے بگڑے ہوئے معاشرے کی بھر پور عکاسی کی، وہ اپنے اشعار میں مصری عوام و خواص، سرکاری اہل کاروں، قاضیوں کی بے دینی،اخلاقی پستی، رشوت ستانی اور بے ایمانی پر برملا تیکھی اور سخت تنقید کرتا ہے، یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے مجادلوں کا ذکر کرتا ہے، وہ اپنے قصائد کے ذریعے امرا اور رؤسا کے کے سامنے اپنی عسرت اور تنگ دستی کا ذکر رقت آمیز لہجے میں کرتا ہے اور ان سے دست سوال دراز کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتا ہے، بہر حال انھیں قصائد کی وجہ سے اسے اپنے معاصر ین میں زیادہ شہرت ملی، شعر گوئی کو اس نے ذریعہ معاش بنایا، مختلف درباروں سے وابستہ رہا، متعدد امرا کے یہاں خطاط اور کاتب کی حیثیت سے ملازمت کی، اسکندریہ میں ۶۹۶ھ میں اس کی وفات ہوئی۔

بوصیری نے زین الدین یعقوب بن الزبیر کی فرمائش پر متعد دنعتیہ قصائد کہے تھے لیکن ان میں قصیدۂ بردہ کو عالمی شہرت ملی، اس قصیدہ کانام قصیدہ میمیہ کے بجائے قصیدہ بردہ نام پڑنے کا واقعہ کافی مشہور ہے، کہا جاتا ہے کہ بوصیری پر فالج کا حملہ ہوگیا، اس کے جسم کا نصف حصہ مفلوج ہوگیا، اس نے قصیدہ میمیہ نظم کیا، اسے بار بار پڑھتا رہا، خواب میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی، آپ نے اس کے چہرے پر دست مبارک پھیرا اور ایک چادر عطا کی، صبح اٹھا تو اسے اپنے مرض میں حیرت انگیز افاقہ محسوس ہوا اور وہ صحت یاب ہوگیا۔

جلد ہی بوصیری کا یہ قصیدہ ہر طرف مشہور ہوگیا، قصیدے کے تقدس اور بابرکت ہونے کے بارے میں سینکڑوں واقعات گڑھ لیے گئے، بوصیری نے قصیدے کا نام ”الکواکب الدریہ فی مدح خیر البریہ” رکھا تھا، لیکن شہرت قصیدۂ بردہ کے نام کو ملی، اس کادوسرا نام قصیدۃ البرأۃ اور قصیدۃ الشدائد بھی ہے، خوش عقیدہ لوگوں اور صوفیہ کا کہنا ہے کہ اس کے ہر شعر میں کوئی نہ کوئی روحانی اور جسمانی فائدہ ہے، بعض شعر فقر و فاقہ سے بچاتے ہیں اور بعض طاعون سے حفاظت کرتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ قصیدہ بردہ کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب اس کی سلاست، روانی اور سوز و گداز ہے، دوسری بڑی وجہ صوفیہ کے حلقوں اور ان کی محفلوں میں اس کی پذیرائی ہے،دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے، متعدد زبانوں میں اس کی شرحیں لکھی گئیں،مدارس میں یہ قصیدہ داخل نصاب ہوا، اس قصیدے نے فن نعت گوئی کو ایک نیا رخ دے دیا، بعد کے ادوار میں عربی کے ساتھ فارسی اور اردو میں بھی اس کے اثرات کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے، اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر زکی مبارک اپنی کتاب ’’المدائح النبویہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ازہر یونیورسٹی میں خاص طور سے دو دن جمعرات اور جمعہ کو حاشیہ باجوری علی البردۃ کے درس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھاجس میں تمام طلبہ کا شریک ہونا لازمی تھا۔(المدائح النبویہ ص ۱۶۴) میلاد کی محفلوں اور سماع کی مجلسوں میں خاص طور سے یہ قصیدہ پڑھا جاتا ہے،تعویذ بنا کر بچوں کے گلوں میں پہنایا جاتا ہے، لوگ اسے چھپوا کر بغرض ثواب تقسیم کرتے ہیں۔

قصیدہ بردہ ایک طویل قصیدہ ہے، زکی مبارک کے مطابق اس میں کل ایک سو بیاسی اشعار ہیں، بعض مورخین کا کہنا ہے کہ یہ قصیدہ ایک سو ساٹھ اشعار پرمشتمل ہے، بقیہ اشعار الحاقی ہیں، زکی مبارک کا یہ بھی کہنا ہے کہ بوصیری نے یہ قصیدہ ابن الفارض کے قصیدہ میمیہ کو سامنے رکھ کر کہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نہ صرف مطلع بلکہ دونوں کے متعدد اشعار ملتے جلتے ہیں، دونوں کا وزن اور قافیہ بھی ایک ہے، چنانچہ ابن الفارض کا مطلع ہے:

ھل نار لیلی بدت لیلا بذی سلم

ام بارق لاح فی الزوراء فالعلم

بوصیری کا مطلع ہے:

امن تذکر جیران بذی سلم

مزجت دمعا جری من مقلۃ بدم

دونوں کے قصیدوں کا موازنہ کیا جا ئے تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بوصیری نے نہ صرف ابن الفارض بلکہ دیگر قدیم شاعروں کے خیالات اور معانی کو بڑی چابک دستی اور ہنر مندی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔

بوصیری نے اپنے قصیدے کی ابتدا تشبیب سے کی، حضرت کعب کی تشبیب اور بوصیری کی تشبیب میں یہ فرق ہے کہ کعب نے اپنے قصیدہ میں خیالی محبوبہ کا ذکر کیا، بوصیری کی تشبیب میں بھی محبوب کا ذکر ہے لیکن گریز تک پہنچتے پہنچتے معلوم ہوتا ہے کہ بوصیری کا محبوب اور ممدوح ایک ہی ہے،بوصیری کی تشبیب میں فراق یار میں بے قراری،اضطراب، خستگی اورسوز غالب ہے۔

تشبیب کے بعد بوصیری نے نفسانی خواہشات سے تحذیر کا ذکر کیا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح، آپ کی ولادت با سعادت،اس موقع پر کسری کے ایوان کے کنگوروں کا گر جانا، پارسیوں کے آتش کدوں کا بجھ جانا،بتوں کا سجدے میں گرجانے کا بیان ہے پھرقرآن، اسرا،معراج اور جہاد کے بارے میں اشعار ہیں،آخر میں توسل اور مناجات ہے۔

قصیدہ بردہ کے چند اشعار جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح کرتا ہے پیش ہیں:

اعیا الوری فہم معناہ فلیس یُری

للقرب والبعد منہ غیر منفحم

کالشمس تظھر للعینین من بعد

صغیرۃ و تکل الطرف من امم

و کیف یدرک فی الدنیا حقیقتہ

قوم نیام تسلوا عنہ بالحلم

فمبلغ العلم فیہ انہ بالبشر

وأنہ خیر خلق اللہ کلہم

اکرم بخلق نبی زانہ خُلق

بالحسن مشتمل بابشر متسم

کالزہر فی ترف والبدر فی شرف

والبحر فی کرم والدہر فی ہمم

کأنہ وہو فرد فی جلالتہ

فی عسکر حین تلقاہ وفی حشم

مخلوق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادراک سے عاجز ہے۔ آپ سے جو قریب ہیں یا دور ہیں سب کے سب آپ کی حقیقت جاننے سے معذور ہیں۔

آپ کی مثال سورج کی طرح ہے کہ دور سے دیکھنے میں چھوٹا معلوم ہوتا ہے اور قریب سے دیکھنے میں نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔

دنیا میں کوئی آپ کی حقیقت کا ادراک کیوں کر کرسکتا ہے، قوم غافل ہے اور اپنے خیالوں، خوابوں پر قانع ہے۔

آپ کے بارے میں ہم انسانوں کا مبلغ علم یہی ہے کہ آپ بشر ہیں اور اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت کو اللہ نے کیا ہی اچھے اخلاق سے زینت دی، آپ حسین ہیں اور خندہ جبیں ہیں۔

آپ تازگی میں پھول ہیں،بلندی میں چاند ہیں، سخاوت کے سمندر ہیں،عزم و ارادہ میں زمانہ ہیں۔

آپ اپنی جلالت اور عظمت میں بے مثال ہیں،جب ان سے ملیں گے تو آپ کے رعب و ہیبت کی وجہ سے لگے گاکہ آپ کسی لاؤ لشکر اور خدام و حشم کے جلو میں ہیں۔

بوصیری کا قصیدہ اکناف عالم میں مشہور ہوا تو اس کی شدید تنقیدیں بھی ہوئیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ صوفیہ کی فکری کجیوں کو فن نعت گوئی کا حصہ بنانے میں اس نے اہم کردار ادا کیا، بوصیری نے توحید اور رسالت کے نازک رشتے کی پروا نہیں کی، بہت سے اشعار میں اس نے واضح الفاظ میں اس قدرغلو اور مبالغہ کیا کہ شعر گمراہی کی سرحد میں داخل ہوگیا، یہاں چند اشعار بطور مثال ذکر کیے جاتے ہیں:

کیف تدعوا الی الدنیا ضرورۃ من

لولاہ لم تخرج الدنیا من العدم

کیوں کر اس ہستی کو ضرورت دنیا کی طرف بلا سکتی ہے، اگر وہ(رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نہ ہوتے تو دنیا عدم سے وجود میں نہ آتی۔

شعر میں بدترین قسم کا غلو ہے، در اصل ایک موضوع حدیث ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ صوفیہ میں کافی مشہور ہے، اسی وجہ سے صوفیہ اور شعرا حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو صاحب لولاک کہتے ہیں، یہ صریح مشرکانہ عقیدہ ہے جس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

فاق النبیین فی خلق و فی خلق

ولم یدانوہ فی علم ولا کرم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حسن صورت اور حسن سیرت میں تمام انبیاء سے فائق ہیں اور وہ سب علم اور کرم میں آپ سے کم تر ہیں۔

شعرمیں انبیاء کرام کی شان میں بے ادبی واضح ہے

وکلھم من رسول اللہ ملتمس

غرفا من البحر او رشفا من الدیم

تمام انبیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سمندر کے ایک چلو یابارش کے ایک قطرے کے طلب گار ہیں۔

آپ صلی اللہ اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء تھے،یہ کیسے ممکن ہے کہ جو انبیا گزر چکے ہیں وہ لاحق یعنی بعد میں آنے والے نبی سے کچھ طلب گار ہوں۔

فان من جودک الدنیا و ضرتھا

و من علومک علم اللوح والقلم

دنیا اور آخرت آپ کی عطا اور بخشش میں سے ہے، لوح و قلم کا علم آپ کے علوم کا حصہ ہے۔

پہلے مصرعہ کا معنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا و آخرت کے مالک و مختار ہیں،حالاں کہ اللہ فرماتا ہے: ’’وإن لنا للآخرۃ والاولی‘‘ (اللیل:۱۳) دوسرے مصرعہ میں شاعر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو عالم الغیب بنا دیا، حالاں کہ اللہ فرماتا ہے: ’’قل لا یعلم من فی السماوات والارض الغیب الا اللہ و ما یشعرون ایان یبعثون‘‘ (النمل: ۵۶)

نعت کا لفظ بطور اصطلاح عربی زبان میں کبھی رائج نہیں ہوسکا، فارسی میں یہ لفظ عمومی اور خصوصی دونوں معنی میں مستعمل رہا ہے، جہاں تک فارسی نعت گوئی کا تعلق ہے، ابتدائی عہد کے فارسی شعرا نے اس کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیا، شاہی درباروں سے وابستگی اور بادشاہوں کی مدح خوانی نے انھیں اس میدان میں طبع آزمائی کی فرصت ہی نہیں دی،بعد کے شاعروں نے نہ صرف نعت گوئی کی طرف توجہ دی بلکہ نئے نئے مفاہیم پیدا کیے،سعدی کی ایک عربی رباعی نے تو میدان مارلیا، ان کے چار مصرعے بڑے بڑے قصائد پر بھاری ہیں:

بلغ العلی بکمالہ

کشف الدجی بجمالہ

حسنت جمیع خصالہ

صلوا علیہ و آلہ

امیر خسرو، قدسی اور جامی کی نعتیں تو سیرت کے جلسوں اور سماع و قوالی کی محفلوں میں آج بھی جھوم جھوم کر اس طرح گائی جاتی ہیں کہ سننے والوں کو حال آنے لگتا ہے، خسرو کی دو نعتیہ غزلیں غنائیت سے اس قدر معمور ہیں کہ جیسے خاص طور سے مغنی کے لیے انھوں نے یہ غزلیں کہیں:

اے چہرہ زیبائے تو رشک بتان آزری

ہر چند وصفت می کنم در حسن زاں زیبا تری

آپ کے چہرے کا حسن ایسا ہے کہ آزر کے تراشے ہوئے بت بھی رشک کریں، آپ کا حسن بیان سے بالا تر ہے۔

خسرو غریب است و گدا افتاد در شہر شما

باشد کہ از بہر خدا سوئے غریباں بنگری

خسرو مسافر اور گدا آپ کے شہر میں پڑا ہوا ہے، اللہ کے لیے ہم غریبوں کی طرف نظر کرم کردیں۔

ان کی طرف منسوب دوسری نعتیہ غزل کے دو شعر یہ ہیں،حالاں کہ صرف مقطع ہی کے ذریعے نعتیہ مفہوم کی طرف ذہن جاتا ہے:

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسرو

محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

وہ کون سی منزل تھی شب جہاں میں تھا، ہرسو رقص بسمل تھا،شب جہاں میں تھا۔

خدا خود میر مجلس تھا، در لامکاں خسرو، محمد شمع محفل تھے،شب جہاں میں تھا۔

اردو کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ خسرو کی صوفیانہ اور عاشقانہ غزلیں اردو نعت گوئی پر کس حد تک اثر انداز ہوئیں۔

فارسی کا دوسرا شاعر جس کی ایک نعت نے اسے حیات دوام عطا کی،وہ حاجی جان محمد قدسی تھا، وہ ۹۹۰ ہجری میں مشہد ایران میں پیدا ہوا، وفات ۱۰۵۶ھ میں لاہور میں ہوئی، اس نے بقالی کو ذریعہ معاش بنایا، فطرت میں شاعری رچی بسی تھی، ایران چھوڑ کر ہندوستان آ گیا، شاہجہانی دربار تک رسائی حاصل کرلی اور اس کا درباری شاعر بن گیا، شاہجہاں اس کو اس قدر عزیز رکھتا تھا کہ جہاں جاتا اسے ساتھ لے جاتا، اس کا ضخیم دیوان۱۳۷۵ ہجری میں ایران میں شائع ہوا، قدسی کی نعت ’مرحبا سید مکی مدنی العربی‘ کو جو پذیرائی ملی،وہ بہت کم فارسی نعتوں کو میسر ہوئی، اس نعت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی چند صفات کا ذکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے آپ کی شفاعت کا طلب گار ہے، کہیں کہیں عربی الفاظ کی پیوند کاری نے اشعار کی تاثیر بڑھادی ہے، قدسی کی اس نعت نے اردو کی نعت گوئی پر خاصا اثر ڈالا ہے، اس نعت پر سینکڑوں تضمینیں کی گئیں، بلکہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، تضمینات کا ایک مجموعہ آج سے تقریبا ایک سو ساٹھ قبل سن بارہ سو تہتر میں قاضی محمد عمر نامی ایک صاحب نے مرتب کیا تھا، جو مطبع مرتضوی محمد عزیز الدین میں شائع ہوا،طباعت کا مقام مذکور نہیں ہے، یہ تضمینات مخمس کی صورت میں ہیں، اس میں ایک سو کے قریب تضمین نگار ہیں،کچھ شعرا تو معروف ہیں ،کچھ غیر معروف ہیں، اس میں کئی غیر مسلم شعرا کے بھی نام ہیں، چند مانوس نام یہ ہیں:

(۱(اوج دہلوی (۲) صاحب عالم مرزا فخر الدین حشمت (۳) مولوی صدیق حسن روحی قنوجی (۴) بہادر شاہ ظفر (۵) مولوی احمد حسن عرشی قنوجی (۶) مرزا پیارے صاحب رفعت (۷) حکیم آغا جان عیش (۸) حکیم مومن خان مومن (۹) غلام امام شہید اکبرآبادی(۱۰) مولوی اما م بخش صہبائی (۱۱) نواب اسد اللہ خاں غالب۔

ذیل میں قدسی کی نعت کے چند اشعار اور منتخب تضمینات ملاحظہ کریں:

مرحبا سید مکی مدنی العربی

دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

من بیدل بجمال تو عجب حیرانم

اللہ اللہ چہ جمال است بدیں بوالعجبی

نسبتے نیست بذات تو بنی آدم را

برتر از عالم و آدم،تو چہ عالی نسبی

عاصیانیم زِ ما نیکی اعمال مپرس

سوئے ما روئے شفاعت بکن از بے سببی

سیدی انت حبیبی و طبیب قلبی

آمدہ سوئے توقدسی پے درماں طلبی

مومن:

ہوں تو عاشق مگر اطلاق یہ ہے بے ادبی

میں غلام اور وہ صاحب ہے، میں امت وہ نبی

یا نبی یک نگہ لطف بہ امی و ابی

مرحبا سید مکی مدنی العربی

دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

غالب:

کیستم تا بخروش آور دم بے ادبی

قدسیاں پیش تو در موقف حاجت طلبی

رفتہ از خویش بدیں زمزمۂ زیر لبی

مرحبا سیدمکی مدنی العربی

دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

ماہنامہ معارف جنوری ۲۰۱۲ء کے شمارے میں اردو کے معروف محقق اور شاعر استاذنا المکرم پروفیسر سید حنیف نقوی کی ایک تضمین بر نعت قدسی شائع ہوئی تھی، فنی اور ادبی لحاظ سے یہ ایک شان دار اور اعلی پائے کی نعت ہے، شاعر کے جذبات و احساسات، وفور شوق و محبت کا انداز یقینا پر تاثیر اور سوز و گداز سے بھر پور ہے، پروفیسر صاحب نے محبت رسول میں سرشار ہو کر یہ نعت لکھی تھی، قومی، ملی، اجتماعی اور انفرادی مشکلات اور مصائب سے نجات پانے کے لیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور میں عرض داشت پیش کرنے کی روایت اردو و فارسی نعت گوئی میں بہت پہلے سے چلی آرہی ہے، سعدی نے زوال بغداد کے بعد یہی انداز اختیار کیا:

اے محمد سر بروں آور قیامت را ببیں

۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے پورے ہندوستان پر تسلط جما لیا مسلمانوں کی دارو گیر کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا، حالی نے اپنی مشہور نظم لکھی:

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

شاعرانہ جذب و کیف میں منہج اعتدال سے ہٹنا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور میں بطور استغاثہ و استمداد عرض داشت پیش کرنا شریعت مطہرہ کی نظر میں مشروع عمل نہیں ہے،اس میں جو عقدی خامیاں اور خرابیاں ہیں، انھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پروفیسر حنیف نقوی کی تضمین کے چند بند:

خستہ و خوار و زبوں، زار و نزار و مضطر

چاک پیراہن و آشفتہ دل و خاک بسر

سارے در چھوڑ کے آیا ہوں در اقدس پر

چشم رحمت بکشا، سوئے من انداز نظر

اے قریشی لقبی، ہاشمی و مطلبی

اے رسولوں میں مخاطب بہ خطاب لولاک

تیرے قدموں سے لپٹ کر یہ زمیں ہوگئی پاک

تیری رفعت کے تصور سے ہے قاصر ادراک

شب معراج عروج تو گذشت از افلاک

بہ مقامے کہ رسیدی،نرسد ہیچ نبی

یہ حوادث کا ہجوم اور یہ امت تیری

موج در موج ہیں طوفان، شکستہ کشتی

غیر ہے شدت صدمات سے حالت دل کی

سیدی انت حبیبی و طبیب قلبی

آمدہ سوئے تو قدسی پے درماں طلبی

معارف جنوری۲۰۱۲ میں آپ کی یہ نعت شائع ہوئی، افسوس کہ اسی سال دسمبر ۲۰۱۲ میں آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ و الحقہ بالصالحین۔

اردو میں نعت گوئی ایک نئی صورت میں جلوہ گر ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خلوص کے ساتھ محبت ایمان کا لازمی جز ہے، سیرت کے واقعات بیان کرنا اتباع نبی کی دعوت دینا کار ثواب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے تو درود و سلام پڑھنا بھی ضروری ہے، منظوم سیرت اور نعتیں اس بارے میں بہت موثر اور کارآمد ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں نعتیں بہت جلد توجہ کا مرکز بن گئیں اور ان کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا جو دوسری زبانوں میں ملنا مشکل ہے،نعت گوئی کے فن کو ترقی دینے میں میلاد کی مجالس، قوالوں کا اسٹیج، سماع کی محافل، صوفی شعرا، صوفی خانوادوں کا اہم کردار رہا ہے،یہ دوسری بات ہے کہ نعتوں کا بیشتر حصہ سطحی، غیر معیاری اور غیر مشروع عناصر سے مملو ہے، ان میں ایسے مشرکانہ خیالات داخل کردیے گئے جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے حتی کہ عبد اور معبود کا فرق ہی ختم کردیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو احمد بے میم اور عرب بلا عین کا لقب دیا گیا،بڑے شعرا بھی اس سے نہ بچ سکے،بعض شعرا تو اس قدر آگے بڑھ گئے کہ باقاعدہ اللہ اور اس کے رسول کی صفات میں مقابلہ آرائی کی فضا پیدا کردی، ایک شاعر کہتا ہے:

ہے خدا کوجس قدر اپنی خدائی پر گھمنڈ

مصطفی کو اس قدر ہے مصطفائی پر گھمنڈ

العیاذ باللہ

محسن کا یہ شعر دیکھیں:

کہاں اب جبہ سائی کیجیے کچھ بن نہیں پڑتا

احد کو کیجیے یا احمد بے میم کو سجدہ

ایک شاعر نے تو حد کردی استعارہ و کنایہ کا گھونگھٹ ہی الٹ دیا اور رسول اللہ کو صاف صاف خدا کہہ دیا:

وہی جو مستوی عرش ہے خدا ہو کر

اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر

ایک شعر میں تو سیدھے الوہیت کا مذاق اڑایا گیا:

اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے

جو کچھ مجھے لینا ہے لے لوں گا محمد سے

غلو کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا واضح فرمان ہے:

’’لا تطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم انما انا عبدہ فقولوا عبد اللہ و رسولہ‘‘ (صحیح بخاری)

تم میر ے بارے میں مبالغہ اور غلو نہ کرو جیسے کہ عیسائییوں نے ابن مریم یعنی عیسی علیہ السلام کے ساتھ غلو کیا میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو

حقیقت یہ ہے کہ اردو نعت گوئی کا فن ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی طرز معاشرت اور ہندو عقائد کے زیر اثر پروان چڑھی، ہندو دیو مالا اور اصنام پرستی نعت گوئی میں دوسری شکل میں داخل ہوئی، نعتوں میں بھجنوں اور گیتوں کا انداز اپنا لیا گیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ السلام کو نسائی پیکر میں ڈھالا جانے لگا مثلاً:

سناؤں کس کو اے سکھی ری کہ کس نے جو بن دکھا کے مارا

کہت ہے سب جگہ جسے محمد اسی نے نیہا دکھا کے مارا

سپنے میں دکھا کر پیاری چھب موہے مار گیا شاہ عرب

بدنام بھئی یوں پیت میں اب سنسار ہنسے توری جوگن کو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہندو دیوتاؤں کے نام سے پکارا جانے لگا:

جگ جوتی سوامی اوتاری تیرے روپ کے واری سیدنا

من موہن گردھر، گر دھاری تیرے روپ کے واری سیدنا

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے پیا،بلم، مہابلی،سمراٹ،پرم آتما، دیوتا، مہاراج،پر بھو،گسائیں اور گُرو دیو جیسے الفاظ استعمال کرنا ہندو معاشرت اور ہندو مذہبی تصورات کی دین ہیں۔

یہاں میں اردو نعت گوئی کے امام محسن کاکوروی کے قصیدہ ’’مدیح خیر المرسلین‘‘ کا ذکر کرنا چاہوں گا جو اردو نعت گوئی میں بالکل نئی چیز تھی، محسن کے اس قصیدے کی تشبیب بہاریہ ہے،پوراقصیدہ مقامی اور ہندوستانی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ برسات کا موسم،ہندوانہ ماحول، مقامی رسم رواج، ہندوانہ تقریبات اور تہوار اور ہندوں کی بعض تہذیبی و مذہبی روایات کو انھوں نے اپنے قصیدے میں بڑی خوش اسلوبی سے برتا ہے۔

تشبیب کے چند اشعار دیکھیں:

سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

گھر میں اشنان کریں سرو قدان گوکل

جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے ایک طول امل

ڈوبنے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے

نوجوانوں کو سنیچر ہے بڑھوا منگل

کبھی ڈوبی،کبھی اچھلی مہ نو کی کشتی

بحر اخضر میں تلاطم سے پڑی ہے ہل چل

شاہد کفر ہے مکھڑے سے اٹھائے گھونگھٹ

چشم کافر میں لگائے ہوئے کافر کاجل

محسن پہلے شخص ہیں جنھوں نے نعت گوئی کو مکمل ہندوستانی بنایا، دینی حلقوں میں ان کے اس عمل کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا گیااور اس پر کافی اعتراضات بھی ہوئے،اس قصیدے میں محسن کی قادرالکلامی اور تخیل کی پرواز بے مثال ہے،اس قصیدے کے اثر سے اردو نعت گوئی کی سمت ہی بدل گئی، بہت سے شعرا نے اس کی تقلید اور تضمین کی، حالاں کہ اس روایتی نعت گوئی کی بنیاد محسن سے پہلے کرامت علی خاں شہیدی متوفی ۱۲۵۶ھ اور غلام امام شہید متوفی ۱۲۹۲ھ/۱۸۷۶ء نے رکھ دی تھی،غلام امام شہید کی کتاب مولود شہیدی کی نعتیں آج بھی میلاد کی مجالس میں دھوم سے گائی جاتی ہیں۔

روایتی نعت گوئی سے ہٹ کر متعدد شعرا نے نعتیں لکھیں،لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، یہاں میں مولانا حالی کی ایک نعت کا ذکر کرنا چاہوں گا، جس میں آداب نعت کا پوری طرح سے خیال رکھا گیا ہے، اس میں نہ معنی آفرینی ہے، نہ مبالغہ اور غلو، نہ اس کے الفاظ پرشکوہ ہیں اور نہ اس میں تخیل کی اڑانیں ہیں،مولانا حالی کی شہرت یافتہ کتاب جو مسدس حالی(مدو جزر اسلام) کے نام سے معروف ہے، جس میں آپ نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی عبرتناک داستان رقم کی ہے، اس کے آغاز میں مولانا نے نعتیہ اشعار کے کچھ بند لکھے، جو سادہ بیانی کے باوجود آج بھی بہت مقبول ہیں:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماوی

یتیموں کا والی، غلاموں کا مولی

خطا کار سے در گزر کرنے والا

بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا

مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا

قبائل کو شیر و شکر کرنے والا

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

اس مضمون کی ترتیب میں مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی:

۱- نقوش، رسول نمبر، جلد دہم، مدیر؛ محمد طفیل، مطبوعہ ادارۂ فروغ اردو، لاہور،جنوری ۱۹۸۴

۲- اردو کی نعتیہ شاعری، ڈاکٹر فرمان فتح پوری،مطبوعہ آئینۂ ادب،لاہور

۳- المدائح النبویۃ فی الا دب العربی تالیف؛ ڈاکٹر زکی مبارک،مصر

۴- اثر المدائح النبویۃ فی الا دب العربی، اعداد؛ طلعت صبح السید، الطالب بجا معۃ الازھر، کلیہ اللغۃالعربیۃ مصر

۵- المدیح النبوی صلی اللہ علیہ و سلم عند شوقی و اقبال، تسلیم طیبہ القسم العربی،الکلیۃ الشرقیہ جامعۃ پنجاب لاہور باکستان

۶- العمدۃ فی اعراب البردۃ، شرح و تحقیق؛ عبد اللہ احمد جاجہ،طبع الیمامہ بیروت

۷- قوادح عقدیہ فی بردۃ البوصیری، الشیخ عبد العزیز بن محمد آل عبد اللطیف

۸- مقالۃ عن الشاعر الاسلامی کعب بن زہیر، نبراس راسم

۹- عطر الوردۃ فی شرح البردۃ مترجم، مولانا ذوالفقار علی دیو بندی، ناشر میر محمد کتب خانہ،کراچی

۱۰- بانت سعاد شرح اردو، سید کلیم اللہ حسینی، ناشران؛ شیخ جان محمد، الہ بخش، لاہور، ۱۹۴۶ء

۱۱- کنہ المراد فی بیان بأنت سعاد، جلال الدین سیوطی، دراسۃ وتحقیق، د۔ مصطفی علیان، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ۲۰۰۵م

آپ کے تبصرے

3000