[یہ مضمون پروفیسر عبدالحق (ماہر اقبالیات اور سابق صدر شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی) کی جانب سے منعقدہ تحریری مسابقہ میں شرکت کی خاطر لکھا گیا اور دوسرے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔اس وقت مضمون نگار کی عمر۱۸ برس تھی، مضمون کہیں اوجھل ہوگیا تھا، اب ہاتھ آیا تو تراش خراش کے بعد پیش ہے، افکار بہر نوع تغیر پذیر ہوتے ہیں، خواہ تحریر کی ساختیاتی تراش ہو یا نقّاش تحریر کے فکری رویے]
باب اول: حالات زندگی
وطن و خاندان:
علا مہ اقبال كے آباء واجداد اصلاً كشمیری ہیں، سترہویں صدی میں كشمیر سے سیالكوٹ ہجرت كر آئے تھے۔ كشمیر كے لیے ہمیشہ یہ بات باعث اعزاز و افتخار رہے گی كہ اس نے رعنائی فطرت كی شادابی كے ساتھ ایك برہمن خانواده كی پرداخت كی، جس كی شاخوں سے ایسی خوشبو پھوٹی، جس نے دنیائے فكر وفن كو اپنی عطر بیزیوں سے معطر كردیا، برصغیر میں اپنی منفرد و یكتا شناخت بنائی اور اقوام عالم كے افكار و خیالات پر اپنے گہرے نقوش مرتسم كیے، وه علامہ اقبال كی عظیم شخصیت تھی۔
اقبال كا خانواده سری نگر كے قریب موضع چكو پرگنہ اروں میں آباد تھا، اس خاندان كے جد اعلی بابا لولی پندرہویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہو ئے، انهی كی اولاد میں محمد رفیق نامی ایك شخص تھے جو اقبال كے جد امجد ہیں، یہ لوگ كشمیر سے قریب ہی ایك شہر سیالكوٹ (موجوده پاكستان جو ارباب علم وفضل كا مسكن رہا ہے) كی طرف منتقل ہو گئے اور یہیں محلہ كھٹكاں میں (اقبال منزل) میں آپ كی ولادت ہوئی۔
اقبال كے والد كا نام شیخ نور محمد تھا، آپ نہایت ساده دل، پاكباز، نیك نفس اور تقویٰ شعار بزرگ تھے، آپ كی انهی خوبیوں كے طفیل خطہ میں آپ كو نہایت قدر كی نگاه سے دیكھا جاتا تھا، سارے لوگ حد درجہ عزت و احترام سے پیش آتے تھے، تصوف كی طرف پورے طور پر مائل تھے، ذكر و فكرمیں اشتغال غیرمعمولی تھا، اقبال پر اس كا گہرا اثر بھی رہا، چنانچہ اپنے فرزند ارجمند جاوید كو مخاطب كرتے ہوئے اس كی طرف اشاره كرتے ہیں: (۱)
غارت گرِدیں ہے یہ زمانه
ہے اس كی نہاد كافرانہ
جس گھر كا مگر چراغ ہے تو
ہے اس كا مذاق عارفانہ
اقبال برہمن زاد تھے، انهیں اس كا احساس تھا فخر نہیں تھا، سچ یہ ہے كہ انھیں علم و فضل كا جو ورثہ ملا تھا اس پر انهیں اعتزاز تھا، چنانچہ پطرس بخاری كو مخاطب كرتے ہوئے كہا تھا۔(۲)
میں اصل كا خاص سومناتی
آبا میرے لاتی ومناتی
تو سید ہاشمی كی اولاد
میری كفِ خاك برہمن زاد
ہے فلسفہ میرے آب و گل میں
پوشیده ہے ریشہ ہائے دل میں
اقبال كو اپنے والد سے خصوصی لگاؤ اور بے پناه محبت تھی اور والد كوبھی،اس كا اندازه درج ذیل واقعہ سے ہو سكتا هے، مولانا عبد السلام ندوی مرحوم لكھتے ہیں:
’’جب میں سیالكوٹ میں پڑهتا تھا صبح اٹھ كر روز انہ قرآن پاک كی تلاوت كرتا تھا، والد مرحوم اپنے اوراد و ظائف سے فرصت پا كر آتے اور مجھے دیكھ كر گذر جاتے، ایک دن صبح كو میرے پاس سے گذرے، تو فرمایا كبھی فرصت ملی تو تم كو ایک بات بتاؤں گا، بالآخر انھوں نے ایك مدت كے بعد یہ بات بتائی اور ایک دن صبح جب میں حسب دستور قرآن كی تلاوت كررہا تھا تو وه میرے پاس آئے اور فرمایا، بیٹا! كہنا یہ تھا كہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو كہ یہ قرآن تم پر ہی اترا ہے، یعنی الله تعالیٰ تم سے ہم كلام ہے۔‘‘(۳)
اسی پس منظر كا ایك شعر اس واقعہ كی یاد دلاتا ہے:
ترے ضمیر پہ جب تك نہ ہو نزول كتاب
گره كشا ہے نہ رازی ، نہ صاحب كشاف
شیخ نور محمد نے طویل عمر پائی ، اگست ۱۹۳۰ء میں وفات ہوئی اور سیالكوٹ میں مدفون ہوئے۔ یہ بات قابل ذكر ہے كہ یہ اقبال پر الله تعالیٰ كا خاص فیضان تھا كہ ایك نہایت شریف النفس ، پاک طینت اور تقویٰ شعار باپ آپ كو ملا، ساتھ ہی آپ كی والده بھی نہایت نیک سیرت اور پاكیزه نفس خاتون تھیں، تقوی وللہیت اور طہارت نفس میں ممتاز تھیں، نماز، تلاوت، حلال روزی كا انتہائی اہتمام كرتی تھیں، جن كی پرورش نے اقبال كو انهی پاكیزه عادات کا حامل بنا دیا۔
اقبال كی والده كو الله تعالیٰ نے جن ظاہری و باطنی خوبیوں سے نوازا تھا وه كمیاب ضرور ہیں، شب بیداری اور عبادت گذاری كے ساتھ امور خانہ داری میں بھی ممتاز تھیں، پڑوسیوں كا خیال ، غریبوں كی مخلصانہ مدد، اعزا و اقربا كی دیكھ ریكھ، یہ ساری خوبیاں ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں، الحاصل وه ایك مكمل خاتون تھیں اور اس كے گہرے اثرات اقبال پر ہو نا فطری تھے اور ہوئے۔۷۸ برس كی عمر میں نومبر۱۹۱۴ء كو وفات ہوئی۔
اقبال ایک وفاشعار بیٹے كی طرح اپنی ماں كا انتہائی احترام كرتے تھے، از حد خیال ركھتے تھے، چنانچہ جب انتقال ہوا تو تڑپ اٹھے، درد وكرب میں ڈوبا ایك الم انگیز مرثیہ لكھا، جس میں ان كی خوبیوں كا بڑی كمال مہارت سے تذكره كیا: (۴)
تربیت سے میں تیری انجم كا ہم قسمت ہوا
گھرمرے اجداد كا سرمایہ عزت ہوا
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا كا سبق تیری حیات
اخیر میں مخلصانہ دعاؤں سے مرثیہ كا اختتام كرتے ہیں:
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا
نور سے معمور یہ خاكی شبستاں ہو تیرا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی كرے
سبزهٔ نورستہ اس گهر كی نگهبانی كرے
ولادت :
(علامہ ڈاكٹر) اقبال بن نور محمد بن محمد رفیق بن جمال الدین ’’اقبال منزل‘‘میں سیالكوٹ، پاكستان میں ۳؍ذی قعده۱۲۹۴ھ مطابق ۹؍ نومبر۱۸۷۷م كو پیدا ہوئے۔(۵)
تعلیم و تربیت :
تعلیم كی ابتدا گھر سے ہی شروع ہوچكی تھی ، والدین كی بے مثال تربیت نے انهیں بلندیوں كی راه پر لگا دیا تھا، چنانچہ انگریزی كی ابتدائی تعلیم كے لیے ’’اسكاچ مشن ہائی اسكول: سیالكوٹ‘‘میں داخلہ ہوا، وہاں پانچویں جماعت، ہائی اسكول اور انٹر تک تعلیم امتیازی نمبرات كے ساتھ مكمل كی، ان تمام مراحل میں ’’اسكالرشپ‘‘سے بھی نواز ے گئے۔
اسی اسكول میں اقبال كو ایك ایسا استاذ ملا جو زبان و ادب كا رمز شناس ، عمده مذاق كا حامل، شعوری پختگی اور نیک جوئی سے معمور تھا اور انهوں نے ہی اقبال پر لسانی دسترس اورشعری مذاق كا گہرا نقش چھوڑا۔
یہ مولوی میر حسن تھے، اس زمانہ میں زبان و ادب، اسلامیات و تصوف كے جید عالم گنے جاتے تھے، انهیں عربی، فارسی اور اردو كے بیش بہا اور بے شمار اشعار نوک زبان رہتے تھے، وه عام مذہبی علماء كی طرح خشک مزاج نہ تھے، بلكہ خوش اخلاقی، وسعت قلب و نظر، گہرائی علم وفكر ، تدریسی مہارت، خلوص و وفا اورعلم وعمل میں یكسانیت ان كی نمایاں خوبیاں تھیں، ان كے پاس جو بھی طالب علم جاتا انهیں ان مذكوره مضامین میں نكھار دیتے، ان كی وقعت و اہمیت دل میں راسخ كر دیتے، اس طرح طالب علم كے دل میں ان فنون كے تئیں احترام كا جذبہ پیدا ہو جاتااور انهیں سیكھنے كی لامحدود چاہت پیدا ہوجاتی۔
اقبال كو بھی یہ غیبی كمك حاصل ہوئی اور ادب ، شعر، نثر، اردو، فارسی، اسلامیات وغیره میں غیر معمولی نظر پیدا ہوگئی، مرور عمر كے ساتھ ساتھ پختگی آتی گئی، استاذ و شاگر كا یہ باہمی اخوت ومودت سے بھرپور تعلق آخرعمر تک رہا۔ چنانچہ۱۹۰۵ءمیں انگلینڈ جاتے ہوئے نہایت والہانہ عقیدت ومحبت كے ساتھ احسان شناسی كے پھول اپنے قابل احترام استاذ پر نچھاور كرتے ہیں: (۶)
وہ شمعِ بارگہِ خاندانِ مرتضوی
رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو
نفَس سے جس کے کھِلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروّت نے نکتہ داں مجھ کو
دعا یہ کر، کہ خداوندِ آسمان و زمیں
کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو
گھر كےماحول اور استاذ كی خاص توجہ نے اقبال كوعلم كی اوج ثریا تك پہنچایا، اس طرح بعد كو علامہ، شاعر مشرق، حكیم اور فلسفی كے القاب سے مشہور ہوئے۔ در اصل اقبال كے قصر علم كی خشت اول یہی تھی، یہ ایسی ٹھوس اور پائیدار تھی كہ مہیب علمی، مذہبی اور فكری طوفان ان كے پایہ ثبات میں ارتعاش نہ پیدا كرسكے، بلكہ مزید قوت بڑھ جاتی، مغرب كی پركیف فضاؤں میں اقبال بدحواس نہیں ہو گئے، بلكہ اس كے خلاف جذبۂ نفرت بھڑكا، ایمانی حرارت تلاطم خیز طوفان كی طرح جاگ اٹھی، یہی ثمره تھا اس گذشته تخم ریزی اور آب پاشی كا، جس نے انهیں یہ مقام عزیمت و ایمانی حرارت مقدر كی۔
چنانچہ جب اقبال كو ’’سر‘‘كے خطاب سے نوازا جانے لگا، تو یہ شرط ركھی كہ ہمارے ان استاذ كو بھی ’’شمس العلماء‘‘ كا خطاب دیاجائے۔ انگریز كے اس سوال پر كہ ان كی كوئی كتاب یاعلمی كارنامے ہیں ، جواب دیا، میں خود چلتی پھرتی كتاب ہوں ، اس طرح كمال اعتراف میں عظمت كا تاج پہلے ان كے سر پرركھا، پهر ’’سر‘‘ كا خطاب قبول كیا
مجھے اقبال اس سید كےگھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس كے دامن میں وہی كچھ بن كے نكلے ہیں
اسكاچ مشن اسكول ، سیالكوٹ میں اقبال ۱۸۸۷ء میں پرائمری ، ۱۸۹۰ء میں مڈل اور ۱۸۹۲ء ہائی اسكول كے امتحانات میں امتیازی نمبرات سے كامیاب ہوئے اور اسكالر شپ كے حق دار ہوئے۔ اقبال كی موجودگی میں ہی وه اسكول ترقی كر كے كالج بن گیا، چنانچہ اقبال نے وہیں سے ایف اےكی تعلیم مكمل كی۔ چونكہ اس كے بعد مراحل تعلیم كا نظم نہیں تھا، اس لیے اقبال۱۸۹۵ء میں لاہور پہنچ كر گورنمنٹ كالج میں بی اےمیں داخلہ لیا، اپنی شاندار اور نمایاں كامیابی كی وجہ سے اسكالر شپ كے مستحق قرار پائے۔
یہ وہی زمانہ تھا جب پروفیسر آرنلڈ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سبكدوش ہو كر اس كالج میں فلسفہ كے پروفیسر كی حیثیت سے مقرر ہو چكے تھے۔(۷)
اقبال كا اختیاری مضمون چونكہ فلسفہ تھا اور آرنلڈ اعلیٰ درجے كے فلسفی اور نہایت قابل شخص تھے، اس طرح ان سے فائده اٹھانے كا ایک اور سنہری موقع ہاتھ آیا، اقبال نے اسے غنیمت جانا اور حق ادا كردیا۔ ان كی صحبت نے فلسفہ وكلام میں گہرائی و گیرائی پیدا كی، پیچیدگیاں سلجھیں اور ستھرا ذوق پیدا ہوا۔
پروفیسر آرنلڈ نہایت زیرک ، فہیم اور سلجھی طبیعت كے مالك تھے، جلد ہی اقبال كی خداداد قابلیت و ذہانت كا اندازه كرلیا اور اس نادر گوہر كو خوب تر بنانے كی طرف خصوصی توجہ صرف كی، وه اكثر ہم نشینوں كی بزم میں اپنے اس ہونہار شاگرد كی تعریف یوں كیا كرتے :
’’ایسا شاگرد استاذ كو محقق اور محقق كو محقق تربنادیتا ہے‘‘(۸)
اقبال كی خداداد ذہانت ، طبعی قابلیت اور اعلیٰ درجے كی تربیت و رہنمائی كی وجہ سے تعلیم كی تكمیل ہوتے ہی وہیں فلسفہ اور تاریخ وسیاست كے لكچرار منتخب كرلیے گئے۔
بلندی كے اس مقام تك كا سفر طے كرنے میں خود ان كے پاكیزه گھرانے، مولوی میرحسن اور پروفیسر آرنلڈ كی غیرمعمولی تو جہات و تربیت اور خود آپ كی ذہانت، زیركی اور صلاحیت نے خصوصی كردار ادا كیا۔
اقبال اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ كے غیر معمولی قدر داں تھے اور بڑی گہری عقیدت ركھتے تھے، چنانچہ جب پروفیسر۱۹۰۴ء میں انگلستان منتقل ہو گئے تو اقبال نے عقیدت میں ڈوبی ہوئی بڑی كرب انگیز نظم لكھی۔
مطلع میں كہتے ہیں:
جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں
آگیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں
ظُلمتِ شب سے ضیائے روزِ فرقت کم نہیں
پھر آگے اس بات كا اظہار كرتے ہیں كہ اگر وه ہوتے تومیں كہاں ہوتا:
ذرّہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا
آئینہ ٹُوٹا ہُوا عالم نما ہونے کو تھا
نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا
آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا
پھر ان كے علم كی پہنائیوں اور ادراك كی وسعتوں كی طرف اشاره كرتے ہوئے كہتے ہیں:
تُو کہاں ہے اے کلیمِ ذروۂ سینائے علم
تھی تری موجِ نفَس بادِ نشاط افزائے علم
اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائیِ صحرائے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
اب اقبال بے قابو ہو كرمچل جاتے ہیں اور تمام زنجیروں كو توڑ كر ان كے پاس پہنچ جانے كا عزم كرلیتے ہیں:
کھول دے گا دشتِ وحشت عقدۂ تقدیر کو
توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو(۹)
۱۹۰۵ء كا واقعہ ہے، اقبال اعلیٰ تعلیم كے حصول كے لیے پنجاب كی زنجیر توڑ كر سوئے لندن عازم سفر ہوئے، وہاں دنیا كی مشہور ترین ’كیمبرج یونیورسٹی ، لندن‘میں داخلہ ہو گیا۔ داخلہ تو فلسفہ كی تعلیم كے لیے ہوا، مگرمختصر مدت میں چار ڈگریاں حاصل كیں، وہاں قیام كی كل مدت تین سال ہے:
(۱)كیمبرج یونیورسٹی سے ’’فلسفہ اخلاق‘‘پر پی ایچ ڈی كی ڈگری حاصل كی ۔ (بزبان انگریزی)
(۲)میونک یونیورسٹی جرمنی سے ’’میٹا فزكس آف پرشیا(ایرانی الٰہیات)‘‘كے موضوع پر تھیسز لكھ كر پی ایچ ڈی كی ڈگری حاصل كی ، قیام لندن كے دوران ہی كچھ عرصے كے لیے جرمنی گئے اور وہاں جملہ كاروائی مكمل كی۔
(۳)قیام لندن كے دوران ہی ’’وكالت كی تعلیم ‘‘بھی مكمل كی۔
(۴)جرمنی سے واپس ہوئے تو لندن میں ’’اسكول آف پولیٹیكل سائنس‘‘میں داخلہ لیا۔
قیام لندن كے دوران جب پروفیسر آرنلد چھٹی پر گئے تو اقبال نے ان كی جگہ پر بحیثیت ’’قائم مقام عربی پروفیسر‘‘ آٹھ ماه تک اپنی خدمات انجام دیں۔ اس طرح آپ نہ صرف دو ڈاكٹریٹ اور دو اضافی ڈگریوں سے آراستہ ہوئے بلكہ ایك عظیم یونیورسٹی میں پروفیسر كا تجربہ لے كر وطن واپس ہوئے۔ اگر چاہتے تو وہاں اس منصب عظیم پر فائز ره كر وہاں كی پرسكون زندگی سےلطف اندوز ہوتے مگر وطن كی محبت اور فكر نے اس پر سكون زندگی كو ترک كرنے پر مجبور كیا كہ انهیں قوم و ملت كی خدمت زیاده عزیز تھی۔ اس طرح۱۹۰۸ء میں وطن واپس ہوئے۔ اس وقت آپ كی عمر (۳۲-۳۳) سال تھی۔
یہ بات غالباً قابل ذكر ہے كہ اقبال سفر لندن سے قبل حضرت نظام اولیاء نئی دہلی حاضر ہوئے اور مزار پر ’’التجا ئے مسافر‘‘كے نام سے ایك طویل نظم پڑهی:
چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثلِ نکہتِ گل
ہُوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شرابِ علم کی لذّت کشاں کشاں مجھ کو
مزید:
مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے
کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو
مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو
اخیر میں اپنی خواہش كا مزید اظہار یوں كرتے ہیں:
ریاضِ دہر میں مانندِ گل رہے خنداں
کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جانِ جاں مجھ کو
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھُول ہو جائے!
یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے! (۱۰)
پھر اقبال جب وطن واپس آئے تو دوباره حضرت نظام اولیاء كے مزار پر حاضر ہوئے، تقریباً بیشتر تذكره نگاروں نے اسے خاندانی تصوف كا اثر قرار دیا ہے مگر ہمارا تجربہ كہتا ہے كہ اقبال قبروں پہ حاضری والے تصوف كے كبھی قائل نہ تھے۔ وه ایك ایمانی سوزِدروں اور اگلوں سے عشق و شیفتگی تھی جو ان كے مزاروں تک لے جاتی تھی، ان كا یقین تھا كہ یہ وه ارباب عزیمت و ایقان ہیں جن كی انتھك كوششوں سے كفر كی تیز و تند ہواؤں كے باوجود ایمان كا چراغ جلتا رہا۔ علم كی قندیل روشن رہی۔ اس طرح اقبال بہتوں كی تربتوں پر پہنچ كر اپنے آنسو بہاتے اور عظمت رفتہ كی بحالی كے امكانات تلاش كرتے، یہ بہت غیر منطقی بات ہے كہ قبروں پر حاضر ی كی وجہ صرف اورصرف تصوف سے اثر پذیری ہو۔
تدریس : ملازمت اور دیگر مصروفیات:
اقبال تدریس كے مقام بلند اور عصر حاضر میں اس كی ضرورت كو اچھی طرح محسوس كرتے تھے، وه جانتے تھے كہ تدریس كے ذریعے نسلِ نو كی تربیت بہتر انداز میں كی جاسكتی ہے اور اقبال كے لیے اس سے زیاده معزز پیشہ كوئی ہو نہیں سكتا تھا۔ چنانچہ اقبال نے مختلف خطرات میں لیلائے تدریس میں مجنونانہ ہنر آزمائی كی، اس پورے عرصہ ہائے تدریس كو ہم چار ادوار میں تقسیم كرسكتے ہیں۔
پہلا دور : تدریس قبل از روانگیٔ لندن:
گذشتہ سطور میں یہ بات گذرچكی ہے كہ اقبال نے گورنمنٹ كالج ، لاہور میں فلسفہ میں اختیاری مضمون كے ساتھ ایم اے (M.A.) مكمل كیا، اس وقت آپ كی ذہانت اور وسعت فكر و نظر كے چرچے ہوچكے تھے، ایك طرف علم و شعور میں گہرائی دوسری طرف شعر و سخن میں شہرت آسمان چھورہی تھی۔اس طرح خوبیاں ہمہ جہت تھیں لہذا اس وقت مشاہیر كالجز نے انهیں آفر كی ، مگر دو جگہیں وجہ ترجیح بن گئیں، وہیں آپ نے تدریسی زندگی كا آغاز كیا:
(۱)اورینٹل كالج ، لاہور میں تاریخ ، فلسفہ اور سیاست كے لكچرار معین ہوئے۔اندازه ہے كہ یہاں كی مدت چند ماه كی رہی ہوگی۔
(۲)گورنمنٹ كالج ، لاہور میں انگریزی اور فلسفہ كے لیے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر تقرر عمل میں آیا، یہاں بھی آپ زیاده مدت نہ ره سكے، شاید ایك سال بھی پورا نہ ہواہو، شوق علم نے انگڑائی لی اور پروفیسر ی خیر باد كہہ كر اعلیٰ تعلیم كے حصول كے لیے لندن روانہ ہو گئے، اس مصرع میں یہی بیان ہے۔ع
توڑ كر پہنچوں گا میں پنجاب كی زنجیر كو
دوسرا دور: تدریس دوران قیام لندن:
اقبال۱۹۰۵ء میں لندن روانہ ہو گئے اور كل تین سال كیمبرج یونیورسٹی میں قیام پذیر رہے، وہاں آخری سال یعنی۱۹۰۸ء میں اقبال كے استاذ پروفیسر آرنلڈ آٹھ ماه كی تعطیل پر تھے، یونیورسٹی كے ذمہ داران كی نظر اقبال پر پڑی، چنانچہ وقتی طور پر’’اقبال كو عربی پروفیسر‘‘كے طور پر مقرر كیاگیا۔ اس طرح اقبال تقریباً آٹھ ماه تك اس عظیم یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ نو عمری میں دنیا كی عظیم یونیورسٹی میں عربی كی تدریس بزبان انگریزی كوئی عام بات نہ تھی۔ آپ نے بخوبی نبھایا اور وہاں كے ارباب علم و دانش پر اپنی علمی وفكری پہنائیوں كا رعب بٹھایا۔ اس كے اثرات انگلستان و پاكستان دونوں ملكوں كے طبقہ علمی پر ہونا یقینی تھے سو ہوئے اور آئنده ایك وقت ایسا آیا جب عظمت كے جھنڈے آپ كے آستانہ علم كے حضور سرنگوں ہو گئے۔
تیسرا دور : واپسی پاكستان پر تدریس:
اقبال۱۹۰۸ء میں اعلیٰ تعلیمی حصولیابیوں اور آٹھ ماه كی عظیم الشان تدریسی زندگی كے بعد وطن واپس ہوئے۔ یہ سچ ہے كہ اقبال اگر چاہتے تو انهیں وہاں بآسانی تدریس كے لیے مستقل جگہ مل سكتی تھی۔ ایك تو پروفیسر آرنلڈ كے نہایت چہیتے تھے دوسرے آپ كی غیر معمولی علمی اٹھان بلكہ شہرت و شناخت، مگر آپ نے وطن اور قوم كی فكر میں تونگری كی راه چھوڑ كر قلندری كی زندگی ترجیح دی، واپسی وطن پر ’’گورنمنٹ كالج لاہور‘‘میں آپ فلسفہ كے پروفیسر كی حیثیت سے منتخب كر لیے گئے۔ تدریس كی یہ مدت بھی زیاده دنوں تك برقرار نہ ره سكی، كل مدت ۱۸ ماه كی بنتی ہے۔ چنانچہ اس كی اطلاع مہاراجہ سركشن كے نام ایك خط میں دیتے ہوئے لكھتے ہیں:
’’انگلستان میں واپس آنے پر لاہور گورنمنٹ كالج میں مجھے فلسفہ كا اعلیٰ پروفیسر مقرر كیا گیا۔ یہ كام میں نے اٹھاره ماه تك كیا اور یہاں كی اعلیٰ ترین جماعتوں كو اس فن كی تعلیم دی۔ گورنمنٹ نے بعد ازاں یہ جگہ مجھے آٖفر بھی كی مگر میں نے انكار كردیا۔ میری ضرورت گورنمنٹ كو كس قدر تھی اس كا اندازه اس سے ہوجائے گا كہ پروفیسری كے تقرر كی وجہ سے میں صبح كچہری نہ جاسكتا تھا، ججان ہائی كورٹ كی طرف سے یہ ہدایت كی گئی كہ میرے تمام مقدمات دن كے پچھلے حصے میں پیش ہواكریں ، چنانچہ ۱۸ماه اس پر عمل ہوتا رہا‘‘۔(مكا تیب شاه و اقبال ص ۱۴۵ بحوالہ اقبال كامل ص۱۳)
اس سے ایک بات تویہ معلوم ہوئی کہ پروفیسری كی مدت۱۸ ماه تھی اور ساتھ ہی وكالت كے پیشے سے بھی وابستگی رہی، اس بابت مزید باتیں آگے آئیں گی۔
چوتھا دور توسیعی لكچرز:
ابتدا ہی میں جب اقبال كو علمی حلقوں میں شہرت مل رہی تھی تب سے ہی تقریروں اور مختلف پروگراموں میں لكچرز دیتے تھے۔ متعدد بار آپ كو با قاعده توسیعی لكچرز كی دعوت دی گئی، ان میں مدراس میں دیے گئے لكچرز خصوصی اہمیت كے حامل ہیں۔
تفصیل یہ ہے كه مدراس یونیورسٹی میں ہر سال طلبہ كے سامنے عیسائی حضرات كچھ عیسائی اسكالروں كو بلا كر لكچرز دلاتے تھے اس میں مسلمان طلبہ بھی ہوتے اور ان پر برے اثرات ہوتے۔ چنانچہ كچھ با اثر مسلمانوں نے بھی ’’اسلامیات‘‘پر لكچرز دلوانے كا پروگرام بنایا اس كے لیے ’’مسلم ایجوكیشنل اسوسی ایشن آف سورن انڈیا‘‘كے نام سے ایك تعلیمی اسوسی ایشن كی بنیاد ركھی گئی اور جملہ مصارف كی ذمہ داری جناب ایم جمال محمد صاحب نے قبول كی۔ لہذا لكچرز كے لیے دولوگوں كا انتخاب ہوا۔ مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم اور ڈاكٹر اقبال مرحوم۔
مولانا ندوی نے ’’سیرت النبیﷺ‘‘ پر مسلسل آٹھ لكچرز دیے جواب ’’خطبات مدراس‘‘كے نام سے مطبوع ہیں اورمولانا ناظم ندوی نے ’’الرسالۃ المحمدیۃ‘‘كے نام سے عربی میں ترجمہ بھی كردیا ہے۔
علامہ اقبال نے بزبان انگریزی كل چھ لكچرز دیے جو ’’اسلامی فلسفہ‘‘كے موضوع پرThe Reconstruction of Religious Thought in Islam (دی ریكنسٹریكشن آف ریلجیس تھاٹ ان اسلام)كے نام سے۱۹۳۰ء میں شائع ہیں، یہ واقعہ۱۹۲۸ء كا ہے، اس كے بعد اس سفر میں علامہ اقبال كا غیر معمولی اعزاز كیا گیا، اس كی كچھ تفصیل حسب ذیل ہے:
’’مدراس كے دوران قیام میں اہل مدراس نے مختلف طریقوں سے ڈاكٹر صاحب كی پذیرائی كی، چنانچہ مختلف اكابر اور انجمنو ں نے ایڈرس اور دعوتیں دیں، اخبارات نے ان كے فوٹو شائع كیے، اخبارات كے نمائندوں اور مذہب و فلسفہ كے بڑے بڑے عالموں نے ان سے مذہب ، فلسفہ اور سیاست پر گفتگو كی، مدراس كی انجمن ترقی اردو كے علاوه ہندی پرچار سبھا اور جنوبی ہند كے برہمن عالموں نے بھی ان كی خدمت میں سپا س نامے پیش كیے،مدارس سے واپسی میں جنوری۱۹۲۹ء كو جب وه بنگلور كے اسٹیشن پر پہنچے تو شمالی ہند كے ہزاروں آدمی ان كی زیارت كے لیے اسٹیشن پر موجود تھے، یہاں ان كو ایڈریس دینے كے لیے مسلم لائبریری كی طرف سے ایك جلسہ ہوا، جس كے صدر امین الملك دیوان مرزا اسماعیل چیف منسٹر میسور تھے، ان كے خیالات سے مستفید ہونے كے لیے طالب العلموں اور تعلیم یافتہ لوگوں نے ایك الگ جلسہ كا انتظام كیا، جس كے صدر ڈاكٹر سبرائن ڈائركٹر محكمہ تعلیمات میسور تھے، بنگلور میں مہاراجہ میسور نے ان كی خدمت میں دعوت نامہ روانہ كیا اوروه۱۰؍جنوری۱۹۲۹ء كومیسورپہنچ كر سركاری مہمان خانہ میں فروكش ہوئے اور خاص شہر میسور میں میسور یونیورسٹی نے ان كے لكچر كا انتظام كیا، دوسرے دن ٹاؤن ہال میں مسلمانانِ میسور نےاپنا ایڈریس پیش كیا۔
میسور، بنگلور، سرنگاپٹم اور مدراس كے دوسرے مقامات دیكھنے كے بعد وه۱۴؍جنوری۱۹۲۹ء كو حیدرآبادپہنچے،جہاں اسٹیشن پرمسلمان بچے ایك قطار میں كھڑے ہو كر ’’چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا‘‘كا ترانہ خوش الحانی كےساتھ گا رہے تھے، اسٹیشن پر عوام كے علاوه عثمانیہ یونیورسٹی كے تمام اركان موجود تھے، یہیں ان كو اطلاع دی گئی كہ وه نظام گورنمنٹ كے مہمان ہیں، چنانچہ وه اسٹیشن سے روانہ ہوكر ریاست كے سركاری مہمان خانے میں فروكش ہوئے اور یہاں پہنچ كر انهوں نے ٹاؤن ہال میں دو تقریریں كیں اورمہاراجہ سرسی كرشن پرشاد بہادر نےان كے اعزاز میں ایك بزم سخن منعقد كی ، ۱۸؍جنوری ۱۹۲۹ء كو اعلیٰ حضرت حضور نظام كا شرف باریابی حاصل ہوا، ڈاكٹر صاحب كو قیمتی پتھروں، بالخصوص ہیروں سےبہت دلچسپی تھی اور چونكہ ان كو حكیم اجمل خاں مرحوم سے یہ معلوم ہوا تها كہ اعلیٰ حضرت حضور نظام كے پاس ایك بیش بہا ہیراہے جو نہایت چمكیلا ہے، اس لیے اعلیٰ حضرت كا شرف باریابی حاصل ہوا تو ڈاكٹر صاحب نے اس ہیرے كو دیكھنے كی خواہش كی اور اعلیٰ حضرت نے فوراً اس ہیرے كو منگوایا اور ڈاكٹر صاحب اس كو دیكھ كر نہایت متاثر ہوئے اور ایك موقع پر اس كی چمك دمك، وزن اور حسن و جمال كا تذكره نہایت جوش وخروش كے ساتھ كیا۔‘‘ (تفصیل ملاحظہ ہو : اقبال كامل ص۲۴-۲۵)
وكالت:
۱۹۰۸ءمیں جب اقبال لندن سے واپس آئے تو وكالت كی ڈگری بھی ساتھ لے آئے، چنانچہ تدریس كے ساتھ ساتھ وكالت كو بھی بطور پیشہ اختیار كیا، جیسا كہ گذشتہ خط جومہاراجہ سركرشن كے نام لكھاہے اس میں ذكر ہے:’’…….ججان ہائی كورٹ كی طرف سے یہ ہدایت كی گئی كہ میرے تمام مقدمات دن كے پچھلے حصہ میں پیش ہوا كریں، چنانچہ۱۸ ماه اسی پر عمل ہو تا رہا‘‘۔ ایك سوال یہ بھی ابھرتا ہے كہ اقبال نے آخر تدریس كے معزز پیشے سے دوری كیوں اختیار كرلی، یہی سوال ایک بار ڈاكٹر خلیفہ عبد الحكیم نے ان سے كیا كہ:
’’ آیا یہ بہتر نہیں تھا كہ آپ پروفیسر ہوجاتے؟ ‘‘ تو فرمانے لگے میں نے كچھ دنوں پروفیسری كی اور اس نتیجے پر پہنچا كہ ہندوستانی كالجوں كی پروفیسری میں علمی كام تو ہو تا نہیں، البتہ ملازمت كی ذلتیں ضرور سہنی پڑتی ہیں، چنانچہ ایک مرتبہ طالب علموں كی حاضری كے متعلق گورنمنٹ كالج كے پرنسپل سے كچھ جھگڑا ہو گیا اور پرنسپل نے مجھ سے كچھ اس طرح گفتگو كی جیسے كوئی كلرك سے باتیں كرتا ہے، اس دن سے ملازمت سے طبیعت كچھ ایسی كھٹی ہوئی كہ جی میں ٹھان لی كہ جہاں تک ہوسكے گا ملازمت سے گریز كروں گا۔‘‘ (آثار اقبال ص۲۲-۲۳)
سچ یہ ہے كہ وكالت كا پیشہ آپ نے دولت كمانے كی خاطر نہیں بلكہ عزت نفس كی حفاظت میں كیا تھا، یہی وجہ ہے كہ بیرسٹری اتنی ہی كرتے جس سے گذر اوقات بآسانی ہوسكے۔
شاعری:
ہوش سنبھالنے كے بعد ہی اقبال كا شعری ذوق پروان چڑھنے لگا، اسكول كے زمانے میں ہی شاعری كرنے لگے تھے، مولانا روم كا كلام پسند تھا ، رفتہ رفتہ داغ دہلوی كو اپنا كلام بھیج كر اصلاح لینے لگے۔ پھرجب گورنمنٹ كالج لاہور میں داخل ہوئے تو شعری ذوق اس قدر بلند ہوچكا تھا كہ اس وقت منعقد ہونے والے مشاعروں میں باقاعده شریك ہونے لگے اورا علیٰ معیاری شعر كی وجہ سے جلد مركز توجہ بن گئے چنانچہ ایك مشاعرے میں یہ شعر پڑھا
موتی سمجھ كے شان كر یمی نے چن لیے
قطرے جوتھے میرے عرق انفعال كے
اس چوٹی كے شعراء میں مرزا ارشد گورگانی بھی تھے ، یہ شعر سن كر انگشت بدنداں ره گئے اور اقبال كو داد دیے بغیر نہ ره سكے، اسی زمانے یعنی۱۸۹۹ء میں انجمن حمایت اسلام كی جانب سے منعقده اجلاس میں آپ نے ’’نالہ یتیم ‘‘ پڑهی، یہ اس قدر مؤثر اور درانگیز كہ مجلس ہچكیوں میں ڈوب گئی، سر عبد القادر كے رسالہ’’مخزن‘‘میں آپ كی نظمیں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ اس نے علمی و ادبی حلقوں میں آپ کو خدا داد صلاحیتوں کے مالک شاعر کی حیثیت سے متعارف كرایا۔
آخری عمر میں شاعری كم كردی تھی، اردو اورفارسی دونوں زبانوں میں آپ كی شاعری امامت كا درجہ ركھتی ہے، اردو میں بانگ درا، بال جبرئیل اور ضرب كلیم اور فارسی میں اسرارخودی، رموزبے خودی، پیام مشرق، زبور عجم اور جاوید نامہ كے نام سے دواوین مشہور و معروف ہیں۔ اسی طرح شكوہ جواب شكوه، خضر راه اور والده مرحومہ كی یاد میں آپ كی شاہكار نظمیں ہیں۔ آئنده ابواب میں ہم اقبال كی شاعری پر خصوصی اور قدرے فنی گفتگو كریں گے۔
سركاخطاب:
اقبال كو اردو میں كافی شہرت حاصل ہوچكی تھی مگر دوسری زبانوں كے لوگ ان سے اس حیثیت سے ناآشنا تھے، چنانچہ اقبال نے فارسی زبان میں اپنی مشہور مثنوی ’’اسرار خودی‘‘لكھی۔ یہ مثنوی فلسفیانہ افكار پر مشتمل تھی، اس میں تربیت خودی پر زور دیا گیا تھا اور خواجہ حافظ پر۱۹۱۵ء میں سخت تنقیدی رویہ اختیار كیا گیا تھا۔ اس تنقید كا اچھا اثر ہندوستان میں تو نہیں ہواکیوں كہ حافظ كے معتقدین زیاده تھے، مگر انهی دنوں انگلینڈ كے پروفیسر نكلسن جو فارسی ادبیات پر گہری نظر ركھتے تھے اور فارسی دواوین كے ترجمے میں ان كی شہرت ہوچكی تھی انهوں نے ۱۹۱۹ء میں اس كا انگریزی ترجمہ كر كے شائع كیا،وہاں كے ارباب نقد و نظر نے اس كا شاندار خیر مقدم كیا، مشہور ناقد پروفیسر ڈكسن نے نیشنن ویکلی (Nation Weekly)میں اپنا تبصره لكھا۔ تبصروں نے اقبال كی اس مثنوی كو خاص اہمیت دی اور سراہا، اور جلد ہی ان كی شہرت عالمی ہوگئی اور اقبال بحیثیت فلسفی شاعر انگلینڈ بلكہ تمام انگریزی ادبی دنیا میں متعارف ہوئے، اس كے اثرات حكومتی سطح پر بھی ہوئے، چنانچہ انگریز گورنمنٹ نے جنوری۱۹۲۳ء میں آپ كو ’’سر‘‘كے خطاب عظیم سے سرفراز كیا۔
كوچہ سیاست میں :
اقبال فطری طور سے سیاست كے آدمی نہیں تھے، احباب كے شدید اصرار كے باوجود كبھی طبیعت اس طرف مائل نہیں ہوسكی، كیوں کہ سیاست كے گلیاروں كی سفاكیوں سے وه اچھی طرح واقف تھے،وه بخوبی جانتے تھے كہ وہاں جا كر انسان حیوان بن جاتا ہے، چنانچہ خود اپنے ایك عزیز كو مخاطب كر كے كہا:
مرے سخن سے دلوں کی ہيں کھيتياں سرسبز
جہاں ميں ہوں ميں مثال سحاب دريا پاش
يہ عقدہ ہائے سياست تجھے مبارک ہوں
کہ فيض عشق سے ناخن مرا ہے سينہ خراش
ہوائے بزم سلاطيں دليل مردہ دلی
کيا ہے حافظ رنگيں نوا نے راز يہ فاش
البتہ اقبال كو قوم وملت كی خدمت حد درجہ عزیز تھی اور غالباً بعد میں انهیں اندازه ہوا كہ قوم كی خدمت كایہ بہتر راستہ ہے، چنانچہ احباب كے مسلسل اصرار پر۱۹۲۶ء میں كونسل كی ممبری كے لیے تیار ہو گئے اور بلا كسی خرچ اور محنت كے تین ہزار ووٹوں سے فتح یاب ہوئے۔ اس فتح یابی سے اقبال كا خدمت خلق كا مقصد پورا ہوسكتا تھا چنانچہ اس كے فوراً بعد انهوں نے بہت سے اہم اقدامات كیے، جو بعد میں بہت ہی مفید ثابت ہوئے، یہاں ان كی تفصیل بیان كرنا ہمارا منصب نہیں، تفصیلات كے لیے ’’آثار اقبال‘‘ كا مطالعہ مفید ہو گا۔
اس مختصر سی مدت میں اقبال نے میدان سیاست میں بھی ترقی كےمنازل تیزی سے طے كیے ، چنانچہ ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ كے الہ آباد اجلاس میں صدر منتخب ہوئے اور بہترین صدارتی خطاب پیش كیا، پہلی بارنظریۂ پاكستان كے اشارے دیے، جسے بعد میں مسٹر جناح نے مولانا آزاد مرحوم كی شدید مخالفت كے باوجود بڑے شدومد سے اٹھایا، نتیجۃًمفادات کے چند غلاموں کی کوششوں سے پاكستان وجود میں آگیا۔
پھر۱۹۳۱ء میں گول میز كانفرنس منعقد ہوئی،۱۶مسلم ارباب سیاست میں آپ كو بھی شركت كا موقع ملا، یہ سفر یورپ اقبال كے لیے بہت اہم ثابت ہوا، اس دوران نہ صرف اہم سیاسی تجربات ہوئے، بلكہ دنیا كی مشہور شخصیات سےملنے اور ان كے افكار و خیالات سے آگہی كا موقع ملا، ان میں (مشہور فلسفی) پروفیسر برگسان اور مسولینی نامور ارباب نظر میں گنےجاتے ہیں۔
بلاد اسلامیہ كے اسفار:
یہ بات گذر چكی ہے كہ آپ نے یورپ كا سفركیا، جہاں آپ كو بہت سے افكار و خیالات اور اشخاص كو قریب سے دیكھنے اور سمجھنے كا موقع ملا، اقبال كو بلاد اسلامیہ سے خاص طور پر بڑی گہری وارفتگی تھی، چنانچہ یہ شوق بھی پورا كیا، اندلس، افغانستان اور دیگر تاریخی مقامات كا سفر كیا، اہم شخصیات كے مقبروں پر گئے، قدیم اسلامی تہذیب و ثقافت كے آثار دیكھے، بكھری ہوئی عظمت رفتہ پر آنسو بہائے۔
اندلس:
اقبال كی نظر میں یہ تاریخی و مذہبی اعتبار سے نہایت بلند مقام پرفائز ہے، انهیں وہاں كی زیارت كا شدید اشتیاق تھا، پہنچے، مسجد قرطبہ دیكھ كر بے اختیار ہوگئے، وہیں’’دعا‘‘كے نام سے ایك نظم كہی اور پھر ’’مسجد قرطبہ‘‘كے عنوان سے ایك فكر انگیز نظم لكھی:
اے حَرمِ قُرطُبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
آگے كہتےہیں:
کافرِ ہندی ہُوں مَیں، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلٰوۃ و دُرود، لب پہ صلوٰۃ و دُرود
تیرے در و بام پر وادیِ اَیمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل
مِٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
مزید:
دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
(كلیات اقبال ، بال جبرئیل ص :۷۳-۸۰)
۱۹۳۲ء میں اقبال وہاں سے واپس ہوئے، واپسی پر دیگر تاریخی مقامات كے ساتھ ساتھ بیت المقدس بھی گئے۔
۱۹۳۳ء میں نادرشاه افغانستان نے بعض علمی و مذہبی امور سےمتعلق تبادلہ خیال كے لیے تین بڑے مفكرین كو دعوت دی، مولانا سید سلیمان ندوی، ڈاكٹر محمد اقبال اور سر راس مسعود، ڈاكٹر صاحب پشاور سے روانہ ہوكر كابل پہنچے، جہاں شایان شان شاہی استقبال و انتظام كیا گیا، شاندار دعوت ہوئی، ’’مثنوی مسافر‘‘میں اقبال نے اس كا نقشہ بڑے منفرد انداز میں كھینچا ہے، اسی سفرمیں غزنی و قندهار بھی گئے، حكیم سنائی كی قبر پر حاضر ہو كر بے قراری كے آنسو بہائے، آپ كے اعزاز میں ہر جگہ علمی پروگرام منعقد كیے گئے اور خوب عزت افزائی ہوئی۔
وفات:
سفر افغانستان سے واپسی پر ہی اقبال كی علالت شروع ہوگئی، بتدریج بڑھتی گئی۱۹۳۷ء میں طبیعت بہت بگڑ گئی، دلی كے مشہور طبیب نابینا صاحب اور حكیم محمد حسن قریشی(پرنسپل طیبہ كالج)علاج كرتے تھے، افراد خانہ سخت پریشان ہوگئے تو اقبال نے اسی حالت میں یہ شعر پڑها۔
نشان مرد مومن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
بالآخر وقت اجل آپہنچا جس سے كسی كو مفر نہیں،۲۱؍اپریل۱۹۳۸ء بہ عمر ۶۵ برس اقبال اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اللهم اغفرله وارحمه
چل بسا داغ آه! میت اس كی زیب دوشن ہے
آخری شاعر جہاں آباد كا خاموش ہے
حواشی:
۱)ضرب كلیم ، جاوید سے خطاب ۔
۲)پطرس بخاری: اقبال كے زمانے میں آل انڈیا ریڈیو كے ڈائركٹر تھے، فلسفے پر اقبال كے ساتھ ان كی بحث ہوئی، چنانچہ اقبال نے طنزیہ لہجے میں دوسرے دن پندره اشعار كی نظم سنائی، یہ نظم ’’ایك فلسفہ زده سید زادے كے نام ‘‘سے (ضرب كلیم ص ۱۲) موجود ہے۔
۳)اقبال كامل از مولانا عبد السلام ندوی ( ص ۳) شبلی اكیڈمی اعظم گڑھ
۴)كلیات اقبال بانگ درا بعنوان ’’والده مرحومہ كی یاد میں‘‘ (ص: از ۱۷۲تا ۱۸۰) ط : كتب خانہ حمیدیہ گڑهیا اسٹریٹ، دہلی ۶
۵)اقبال كی تاریخ پیدائش كا مسئلہ بڑا مختلف فیہ رہا ہے، متعدد آراء سامنے آئیں، مثلاً ۱۸۷۲ء، ۱۸۷۳ء، ۱۸۷۵، ۱۸۷۶ء، ۱۸۷۷ء تك ذكر ہے۔ حكومت ہند ۱۸۷۳ء كی ولادت درست قرار دیتی ہے، پاكستانی حكومت نے ۹؍نومبر۱۸۷۷ءكوقبول كیاہے۔(۱)اقبال كامل از عبد السلام ندوی میں۱۸۷۶م(۲)نقوش اقبال از مولانا ابو لحسن ندوی میں۱۸۷۷م(۳)ذكر اقبال از عبد المجید سالك میں۱۸۷۳م(۴)دیباچہ كلیات اقبال میں ۱۸۷۳م(۵)انسائیكلو پیڈیا آف برٹانیكا میں ۱۸۷۷م(۶)قبالیات كی تلاش از عبد القوی دسنوی میں۱۸۷۷م(۷)خطبات اقبال (ترجمہ انگریزی) میں ۱۸۷۷م درج ہے۔ ساتھ ہی ’’زنده رود‘‘میں اس پر تفصیلی بحث كی گئی ہے اور ہم نے اسی پر اعتبار كیا ہے۔
۶)یہ نظم ’’التجا ئے مسافر‘‘كے نام سے نظام الدین أولیاء كے مزار پر سفر انگلستان كے وقت پڑھی، یہ واقعہ ۱۹۰۵ء كا ہے۔
۷)یہ وہی مستشرق پروفیسر آرنلڈ ہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فلسفہ كے پروفیسر ره چكے تھے، جن كی استشراقی فكر سے علماء كی ایك بڑی تعداد متاثر ہوئی، ساتھ ہی ان كےعلم وفن سے مستفید بھی ہوئی، ان میں نمایاں نام مولانا حمید الدین فراہی اور علامہ شبلی نعمانی كا ہے اور پروفیسر آرنلڈنے خود بھی اسلامیات كے مضامین كے لیے علامہ شبلی سے استفاده كیا اور اس قدر معرفت حاصل ہو گئی تھی كہ اسلامیات پر وه بلا تكلف گفتگو كرسكتے تھے ، الحاصل افاده و استفاده كی یہ داستان دلكش بهی ہے اور عبرت انگیز بھی۔
۸)دیكھیے : ذكر اقبال از عبد المجید سالك ( ص ۱۷)
۹)كلیات اقبال ، بانگ درا بعنوان ’’نالہ فراق – آرنلڈ كی یاد میں‘‘ (ص۵۴)
۱۰)كلیات اقبال ، بانگ درا ( ص۶۹)
آپ کے تبصرے