قابلیت یا مدنیت؟

تسلیم حفاظ عالی

دینی مدارس و جامعات سے طلبہ کے تنفر کا گراف دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ ان کے اندر ایک طرح کی بے چینی سی در آئی ہے۔ قلق و اضطراب کی زد میں آکر وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر ان جامعات سے فارغ ہوکر اپنی مادی ضروریات ک,ی تکمیل کیسے کریں گے۔ ارباب ثروت طلبہ تو ان جامعات سے فراغت کے بعد عصری درسگاہوں کی طرف رخ کرلیتے ہیں اور وہاں اپنی علمی تشنگی بجھاکر کم از کم اس قابل بن جاتے ہیں کہ مادیت کے زہر کا تریاق دستیاب کرسکیں۔ لیکن تہی دست طلبہ چونکہ ان عصری درسگاہوں کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے، اس لیے وہ صبر و تحمل کے ساتھ ان جامعات کے اندر ہی حصول علم و عرفان کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔

بعض طلبہ کڑی محنت، جہد مسلسل اور عمل پیہم کی وجہ سے اپنے اندر خاصی قابلیت پیدا کرلیتے ہیں اور بعض سستی، کاہلی اور بے توجہی کی بنا پر کسی لائق نہیں بن پاتے۔ پھر ان جامعات سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد اکثر طلبہ کی خواہش ہوتی ہے کہ بیرونی جامعات میں جاکر اعلی تعلیم حاصل کریں، علم و ہنر میں گہرائی و گیرائی لائیں، معارف و درایات میں مزید ژرف نگاہی پیدا کریں، اپنی صلاحیتوں کو مضبوط و مستحکم بنائیں۔ بلا ریب یہ بجا اور درست خواہش ہے، اس طرح کی نیک خواہشات قابل تحسین ہیں۔ یقیناً جو طلبہ ان جامعات و مدارس میں شروع ہی سے دلجمعی اور انہماک و توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں ان کے اندر اچھی خاصی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے، پھر اگر قسمت نے ساتھ دیا، بیرونی جامعات سے منظوری آگئی، وہاں پڑھنے لکھنے کا سنہری موقع مل گیا، تو ان کے اندر مزید محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کی فقہی فراست، علمی فطانت اور اجتہادی صلاحیتوں میں قابل لحاظ تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض لوگ محنت کرکے ایم اے اور پی ایچ ڈی وغیرہ کی اعلی ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں اور ان کی ایک شاندار شناخت بن جاتی ہے۔ اور بعض لوگوں کو یہ زریں موقع میسر نہیں ہوتا۔ تاہم ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ دعوت و تدریس کے فرائض کو ہندوستانی جامعات کے فارغین سے بہتر انداز میں انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ترجیح و فوقیت دینا قرین انصاف ہے۔ اور یقیناً ایسے قابل لوگ تفوق و امتیاز کے مستحق بھی ہیں۔ ان کی قابلیتیں انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں صرف ڈگریاں نہیں۔ لیکن جو طلبہ اندرونی جامعات میں کسی لائق نہیں ہوتے وہ بیرونی جامعات میں جاکر بھی اپنے اندر خاص تبدیلی نہیں پیدا کرپاتے ہیں، الا ماشاء اللہ۔ ایسے کم مایہ لوگ جب دوبارہ ہندوستانی جامعات و مدارس میں تدریسی فرائض انجام دینے کے لیے آتے ہیں یا دعوت و ارشاد کے دوسرے میدانوں میں قدم رنجہ ہوتے ہیں تو ان کی زبانوں پر محض ڈگریاں ہوتی ہیں، گرچہ ان ڈگریوں کے حالات قابل اعتراض ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ ہمیشہ ڈگریوں کے سہارے اپنی قابلیت زبردستی منوانے کی سعی نامسعود کرتے رہتے ہیں۔ بات بات پر اپنی یونیورسٹی کا نام لینا کہ میں فلاں یونیورسٹی کا پروڈکٹ ہوں، ان کی زندگی کا جزولاینفک بن جاتا ہے۔ ان کو اپنی صلاحیت پر چونکہ اعتماد نہیں ہوتا ہے اس لیے اپنی مدنیت و مکیت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔

تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ بعض اہل مدارس نے ان نام نہاد مدنی و مکی حضرات کو خصوصی درجہ دے رکھا ہے۔ ان کے نزدیک صلاحیت و قابلیت معیارِ امتیاز نہیں، مدنیت و مکیت کا سرنامہ ہی مرکز توجہ ہے۔ شاید وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے میں قابل اساتذہ ہیں، طلبہ کی تعلیم و تربیت مدنی و مکی اساتذہ کے زیراشراف ہو رہی ہے۔

دستور زمانہ ہے کہ جہاں کچھ لوگ حق و صواب سے انحراف کرتے ہیں وہاں کچھ افراد جادہ اعتدال و انصاف سے باہر قدم نہیں رکھتے۔ چنانچہ بہت سارے ارباب مدارس مدنیت و مکیت کے مخمصے میں نہ پڑ کر قابلیت ہی کو اصل معیار ترجیح سمجھتے ہیں، اسی کو تفوق و امتیاز کی کسوٹی قرار دیتے ہیں۔ ضرورت اساتذہ کے اعلانات میں وہ نہیں لکھتے ہیں کہ مدنی حضرات کو ترجیح دی جائے گی۔ کیونکہ وہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بعض غیر مدنی اساتذہ بہت سارے نام نہاد مدنی اساتذہ پر علمی اعتبار سے فوقیت رکھتے ہیں۔ اور طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے مدنیت کی نہیں قابلیت کی ضرورت ہے۔ اس لیے ان کو بس قابلیت ہی سے مطلب ہوتا ہے، خواہ قابلیت ہندوستانی جامعات کے فارغین کے اندر ہو یا بیرونی جامعات کے متخرجین کے اندر۔انصاف کی بات کریں تو اسی انداز فکر نے ابھی بھی ہندوستانی جامعات و مدارس کے وقار پر حرف آنے نہیں دیا ہے، ورنہ شاید کب کا یہ اپنا مقام کھو بیٹھتے۔
فلیتدبر المتدبرون

4
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
2 Thread replies
1 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ارشاد رشید

مبنی بر حقیقت

تسليم الدين حفاظ الدين عالى

جزاكم الله خيرا وأحسن الجزاء

أبو ذکــوان افـــروز شــمیم نوری

صاحب قلم کو اس عنوان کا شان ورود بھی لکھنا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ ہوا ہے جس کی بنا پر یہ تحریر لکھے ہیں یا ہندوستانی اہل مدارس کے حق میں خیر کے خواہاں ہیں اس لیے.
کیونکہ اس انداز کی تحریریں الا من رحم ربي کسی خاص پس منظر میں ہی ہوا کرتی ہیں.

تسليم الدين حفاظ الدين عالى

بس یوں ہی جذبہ خیر خواہی سے