“ماہنامہ دارالعلوم، شمارہ 11، جلد 90، شوال المکرم” ایک صاحب اس شمارہ میں خواتین کے مسجد جانے کے تعلق سے کچھ اس طرح اپنی قلمی جولانی دکھاتے ہیں کہ مکمل تحریر میں مسجد جانے کو زنا کے قوی ترین محرکات میں سے ایک بڑا محرک قرار دے دیتے ہیں اور مسجد جانے والی تمام خواتین کو زانیہ بننے سے روکنے کے لیے انھیں مسجد اور احاطہ مسجد کے شر و شرارت سے آگاہ کرتے ہیں۔
مسلکی منافرت میں اکثروبیشتر ایسی آلودہ اور غلیظ تحریریں سامنے آتی رہی ہیں، کبھی سلفیوں کو مخاطب کرکے یہ چیلنج دیا جاتا ہے کہ اپنی خواتین کو ہماری صفوں میں بھیج کر دیکھو تو کبھی پاک دامن مومنہ عورتوں کو فاحشاوں کے القاب سےنوازا جاتا رہا ہے۔
منافرت اور عقلی زوال کی یہ سب سے نچلی سطح ہے کہ انسان غم و غصہ میں اپنے ہی اعضاء کو چبا جائے یا اپنا ستر کھول کر گلی یا چوراہے پر ننگا کھڑا ہوجائے۔ یا پھر اپنے خارش زدہ حصہ پر مرہم لگاکر اسے چھپانے کی بجائے اسے کھجلا کھجلا کر مزید چھیل دے اور اپنے آس پاس بسنے والے لوگوں کے لیے بھی اپنے اس مرض کو متعّدی بنادے۔
اپنی عورتوں کو مساجد سے دور رکھ کر سلفی خواتین کے ساتھ کفار و مشرکین سے بھی زیادہ بے غیرتی کا ثبوت دینے والے بھائیو! ہماری عزت و ناموس آپ کی عزت کا ہی ایک حصہ ہے۔ امت کی ہر خاتون جاننا چاہتی ہے، جواب دیں۔ دین اسلام کے پرستاروں سے میرے کچھ سوال ہیں۔ کیا…
(١) دنیا کی تمام خواتین بے راہ روی اور جنسی انارکی میں مبتلا ہیں جس کے لیے انھیں مسجد سے محفوظ اور بہترین جگہ کوئی اور نہیں دکھائی پڑتی اس لیے خواتین مسجد جانا چاہتی ہیں؟
(٢) مسجد جانے والی ہر عورت خوف خدا سے عاری نافرمان اور بدکرادر ہے؟
(٣) مان لیا کہ فتنوں بھرے اس دور میں خواتین کی بے راہ روی اور فحاشی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن کیا یہ انصاف ہے کہ اس کے بدلے بقیہ نیک خواتین کو اللہ کے گھر سے روک دینا چاہیے؟ مریض کو اس کے مرض کی دوا دینے کی بجائے اسے تنگ و تاریک کمرے میں پابند سلاسل کردینا یہ علاج کی کون سے قسم ہے؟
(٤) دوران سفر مرد راستے میں ٹھہر کر مسجد میں نماز ادا کرلے اور اس کے ساتھ موجود خواتین اپنی نماز کو قصدا ترک کردیں کیونکہ مسجد میں ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ وہ سکون سے مسجد میں عبادت کی بجائے وہ فرض نمازیں چھوڑدیں؟
(٥) ایک مخدوش معاشرے کے ڈھانچہ کے پیچھے بہت سی وجوہات ہوتی ہیں ایسا بالکل نہیں کہ امت مسلمہ کے تمام مسائل کی وجہ خال خال عورتوں کی بے پردگی اور فحاشی ہے بلکہ مردوعورت دونوں سے متعلق کئی ایک مسائل ہیں جو امت کو لاحق ہیں تو کیا ان کی اصلاح کے لیے مسلمان مرد و عورت کو دین کے دوسرے اعمال وفرائض کی ادائیگی سے روک دیا جائے گا؟
اگر سو مسائل کے ساتھ مرد نماز کو جاسکتے ہیں، Lowest Pant پہن کر وہ اپنی پچھلی صفوں کے مصلین کا دھیان کھینچ کر ان کی نماز خراب کرسکتے ہیں، انسانی تصاویر اور کھوپڑی والے لباس کے ساتھ نماز میں شریک ہوسکتے ہیں، اپنے پاجاموں کو ٹخنوں سے نیچے کھینچ کر خلاف سنت حالت میں ہونے کے باوجود پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرسکتے ہیں تو پھر… مکمل ساتر ہوکر شرعی حدود و قیود کے اندر اللہ کی ایک بندی اپنے رب کے در پر جاکر نماز کیوں نہیں پڑھ سکتی؟
فرمان خداوندی سے زیادہ واضح پیغام کوئی اور نہیں کہ
(وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۱۴﴾
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ (٧٤) ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔ )
عورتوں کے مساجد جانے کے تعلق سے ان حدیثوں سے زیادہ تفصیلی روایات کہیں نہیں:
• عن ابن عمر رضي الله عنه، عن النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: ((إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمْ امْرَأَتُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلا يَمْنَعْهَا))
جب تم سے کوئی عورت مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو اسے منع نہ کرو۔
((لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله))
اللہ کی بندیوں کو اللہ کے گھروں سے نہ روکو۔
ایک روایت میں بات کچھ اور واضح ہوجاتی ہے
((ائْذَنُوا لِلنِّسَاءِ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسَاجِدِ))
عورتوں کو رات کے وقت مسجد جانے کی اجازت دے دیا کرو ۔
(حديث ابن عمر فأخرجه مسلم (442)، وأخرجه البخاري في “كتاب النكاح” “باب استئذان المرأة زوجها في الخروج إلى المسجد وغيره”(5238)، وأخرجه النسائي في “كتاب المساجد” “باب النهي عن منع النساء من إتيانهن المساجد” (705).
مقام حیرت ہے کہ اتنے واضح فرامین کے بعد بھی کچھ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں۔ اور وقتا فوقتا خواتین کے مسجد جانے پر ہنگامہ آرائیاں کرتے رہتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺنے اگر خواتین کو مسجد میں آنے سے کبھی کسی حال میں نہیں روکا تو پھر آج چودہ سو سال بعد خواتین کو نماز جیسے فریضہ کو مسجد میں ادا کرنے سے کیوں روکا جارہا ہے؟
اللہ کے نبی ﷺ دوران نماز بچوں کے رونے کی آواز سن کر قرات کو ہلکی اور مختصر فرمادیتے۔ کیا آپ کا یہ عمل ہمیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتا کہ اللہ کے نبی نے اس وجہ سے بھی عورتوں کو مسجد آنے سے روکنے کی بجائے اپنی قرات کو مختصر کردیا اور یہ نہیں کہا کہ اے خواتین کی جماعت اب تم مسجد میں آنے کی بجائے اپنے گھر پر ہی نماز ادا کرلیا کرو۔
افلا تعقلون؟؟؟
مسجد میں اپنی خواتین کو نماز کی ادائیگی سے روکنے والوں کے لیے میرا ایک مشورہ ہے کہ اگر واقعتا مسجد سے روکنا عین پرہیزگاری اور تقوے کا اعلی ترین مظہر ہے تو پھر اپنی خواتین کو حرمین شریفین کی مساجد کے فتنوں سے محفوظ کرلیجیے کیونکہ اس سے بڑی مسجد دنیا میں کوئی نہیں اور اس سے بڑا مرد و زن کا اختلاط کسی اور مذہبی مقام پر دیکھا نہیں جاتا۔
لیکن ایک کڑوی حقیقت تو یہ ہے کہ جب دین کے اصولی اور بنیادی احکامات پر مسلکی رنگ چڑھاکر فریق مخالف کی ہر رائے پر شعوری طور پر 80 کا اینگل قائم کرلیا جائے تو پھر اللہ اس کے رسول کے فرمودات، کتاب و سنت کے دلائل و براہین متعصبوں کے پلے نہیں پڑتے۔
میں اسے آپ لوگوں کا ظلم کہوں؟
یا اسے ذہنی جذام تسلیم کرلوں؟
کہ آج کے مہذب و متمدن دور میں تمام دنیاوی سطحوں پر خواتین مردوں کے شانہ بشانہ پھریں بلکہ ان سے دس قدم آگے بھاگتی پھرتی ہوں تو انھیں روکنے سمجھانے کی بجائے اپنی ان دوسری بہنوں کو ہی مسجد سے روک دینا کہاں کی دانش مندی اور دین کا کون سا پہلو ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ ہندوستانی مسلم معاشرہ جس قدر تیزی سے غیر اسلامی کلچر میں رنگا ہوا ان سے مرعوب ہوتا جارہا ہے اس کی انتہا کا کوئی کنارہ نہیں۔ جس ماحول میں الحاد و ارتداد کے تیز و تند تھپیڑے دین و ایمان کو خس و خاشاک کی طرح بہائے لے جارہے ہوں ان حالات میں خواتین اسلام کے لیے ایسی فضا تیار کی جانی چاہیے جو ان کی ذہنی آبیاری کے لیے سازگار ہو، اسلام سے متعلق اس کے اپنے سوالات خواہ یہ سوال اس کی ذات سے متعلق ہوں یا اس کے حقوق کے بارے میں ہوں ان سبھی کا جواب پانے کی راہوں کو ہموار کرنا چاہیے۔
اپنے آس پاس نظر ضرور ڈالیے، ایک مسلمان عورت کی نظروں میں اپنے مذہب کے لیے صرف سوال ہی سوال ہیں۔ ایسے خطرناک حالات میں ایک مومن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی مومنہ بہنوں کی تعلیم و تربیت اور ذہن سازی کا اہتمام کرے۔ انھیں دین اسلام کے قریب لانے کے لیے عدل سے کام لیتے ہوئے ان کے لیے اللہ کے گھروں کے دروازے کھول دے۔
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ؒاپنی مشہور کتاب انکار المنن فی تنقیدآثار السنن ص:١٠١پر فرماتے ہیں: “قول عائشہ ؓکی بنا پر مساجد میں عورتوں کی حاضری کا حکم متغیر نہیں ہوسکتا اس لیے کہ حضرت عائشہ نے اسے جس شرط کے ساتھ معلق فرمایا وہ پائی نہیں گئی۔
انھوں نے یہ گمان کیا کہ اگر آنحضرت ﷺ دیکھتے تو منع فرمادیتے۔ تو کہا جاسکتا ہے کہ نہ آپ نے دیکھا، نہ آپ نے منع فرمایا پس حکم نبوی اپنی حالت پر جاری رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عائشہ نے بھی منع کی صراحت نہیں فرمائی گرچہ ان کے کلام سے منع کے لیے اشارہ نکلتا ہے اور اللہ تعالی کو ضرور معلوم تھا کہ آئندہ عورتوں میں کیا کیا نئے امور پیدا ہوں گے مگر پھر بھی اللہ نے اپنے رسول پر عورتوں کو مساجد سے روکنے کے لیے کوئی وحی نازل نہیں فرمائی، اور اگر عورتوں کی نئی نئی باتوں کی ایجاد پر ان کو مساجد سے روکنا لازم آتا تو مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات بازار وغیرہ سے بھی ان کو ضرور منع کیا جاتا اور یہ بھی نئے نئے امور کا احداث بعض عورتوں سے وقوع میں آیا ہے نہ کہ تمام خواتین سے تو اگر منع کرنا ہی متعین ہوتا تو صرف ان ہی عورتوں کے لیے ہوتا جو ان احداث کی مرتکب ہوئی ہوں”۔
ایک نہاہت سادہ لیکن بڑی بات یہ ہے کہ آیات و احادیث کے مقابلے میں کسی بھی شخص کی رائے پر عمل نہیں ہوسکتا۔ خواتین کے لیے مساجد میں الگ انتظام نہ کرنا بھی اس ضمن کا ایک بہت بڑا کام ہے۔ لیکن یہاں جانتے بوجھتے حدیث کی مخالفت چل رہی ہے باعث فتنہ بننے والی خواتین کو خیر و اصلاح کی طرف دعوت دینے کی بجائے دوسری مذہبی مزاج رکھنے اور خیر کی متلاشی بہنوں کو روک دینا یہ ایک طرح سے خدائی فوجدار بن کر خواتین کو دین سے روک دینے کے مترادف ہے اور اپنے ہاتھوں بھلائی کے مواقع ختم کرنے جیسا ہے۔
ملّی بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ شیخ طریقت اور اپنے پیرومرشد کی پیروی سے وقت نکال کر، فضائل اعمال بہشتی زیور اور جنّتی زیور جیسے ردّی کاغذوں کے انبار سے سر اٹھاکر کبھی دوچار صحیح حدیثوں کا بھی مطالعہ کر لیجیے ان شاءاللہ سب کچھ صاف صاف نظر آنے لگے گا۔
اللہ کے نبی ﷺ نے ہر طرح کے حالات میں خواتین کو مسجد آنے کی اجازت دی ہے کبھی انھیں منع نہیں فرمایا۔ آپ کی نظروں سے زیادہ صواب دیدہ نظریں دنیا میں کس نے پائیں؟؟؟؟ شارع علیہ السلام بخوبی واقف تھے کہ آئندہ آبادی بڑھے گی، اژدھام کے اس فتنے سے بچنے کا کوئی راستہ اگر اس وقت نبی اکرم کو نہ دکھائی پڑتا تو آپ بے شک آئندہ زمانے کے لوگوں کو منع فرماتے لیکن نبی نے منع کرنے کی بجائے اس اژدھام کا انتظام کیا، مساجد میں خواتین کے داخلے اور خروج کے راستوں کو مردوں سے الگ رکھنے کا حکم دیا۔اختلاط کے سارے مواقع و مقامات کی برائی کی گنجائشوں کو ختم کیا اور اتفاقا مڈ بھیڑ کی صورت میں دونوں کو غض بصر کا حکم دیا۔
خدارا !! اللہ اور رسول سے آگے نہ بڑھیں۔ آج تک ایسی کوئی نص نہیں آئی جس نے یہ ثابت کردیا ہو کہ علماء اپنی عقل و مرضی کے مطابق معاشرے کے حالات کو دیکھتے ہوئے کتاب و سنت کے واضح احکام میں تبدیلی لاسکتے ہیں یا ان کے احکام کو وقتی مصلحت کے تحت ممنوع قرار دے سکتے ہیں۔
اگر بات فتنوں کی ہے تو کیا فتنے مردوں کے لیے کم ہیں؟ دہشت گردانہ بم دھماکے، فائرنگ، ٹارگٹ کلنک ان فتنوں کے زیر احتیاط مردوں کو بھی مساجد سے روک دینا چاہیے۔
خواتین کے مسجد جانے کے تعلق سے شریعت نے بعض مقامات پر تاکیدی حکم دیا ہے جیسے عیدین کے موقعے پر مسلمانوں کی اجتماعی دعاوں میں شرکت کرنا وغیرہ۔ خواتین کو اس بڑے خیر سے عملا روک دیا گیا ہے۔ مذہبی ٹھیکیداروں کو ایسی روش اختیار نہیں کرنی چاہیے جس سے ایک واضح حکم کو مجموعی طور پر ترک کردیا جائے۔
کیسی مضحکہ خیز بات ہے نا، رمضان المبارک کے مہینے میں دوران شاپنگ افطار کرنے کی خاطر عورت مسجد میں قیام کرسکتی ہے، ہر قسم کی ضروریات کے لیے بازار بازار دوڑ سکتی ہے، پورے خاندان کے لیے نان ونفقہ بھی لاسکتی ہے، سیروتفریح کے نام پر پارکوں میں مکمل زیب وزینت کے ساتھ جھولے جھول سکتی ہے یہاں تک کہ عورتوں کے غول کے غول اسلامی آداب کے خلاف لوگوں کے دروازوں پر دستک دے دے کر انھیں دعوت دین دے سکتی ہے۔ بلکہ طارق جمیل صاحب نے اپنے ایک بیان میں خواتین سے بڑی دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ خواتین تبلیغ کے لیے باہر آئیں تاکہ وہ معاشرے میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا فریضہ انجام دے سکیں۔
تو یہاں سمجھا جاسکتا ہے کہ خواتین اگر مذکورہ اسباب کے لیے گھر سے بغیر قید و بند کے نکل سکتی ہیں تو نماز جمعہ، نماز تراویح، عیدین کی نماز و دعا اور مسجد میں منعقد ہونے والے دروس اور اصلاحی اجتماعات میں بدرجہ اولی شرکت کرسکتی ہیں اور ان کا ایسا کرنا زیادہ افضل ہے۔
خواتین کو مسجد سے جانتے بوجھتے دور رکھنا یا ظلما دور رکھنا دراصل مغربی پروپیگنڈوں کا آلہ کار بننا ہے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسلام عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق بھی عطا نہیں کرتا۔
یاسمین پیرزادہ کا مسجد داخلہ کے معاملے میں قانونی چارہ جوئی کرنا دراصل آپ کی غیرت کو ایک دستک ہے اور آپ اگر نہیں جاگے تو کب جاگیں گے۔۔۔۔ مسلمانوں کے دو اہم شرعی معاملات میں ہندوستانی حکومت کی مداخلت کو میں ہرگز خوش آئند معاملہ نہیں سمجھتی۔ عجیب مسئلہ ہے ایسے کم ظرف لوگوں کا جنھیں دنیا کا سب سے بڑا فتنہ اللہ کے گھر میں نظر آتا ہے۔ ہمیشہ سے ایسی واہیات بکواسیں مسجد جانے والی سلفی خواتین پر بھونکی جاتی ہیں۔
نتیجہ کیا ہوا؟
اوپر کی جانب تھوکا گیا تھوک خود آپ کے منہ پر ہی آگرا۔ آپ نے مسجد جانے والی خواتین کو بے آبرو کرنے کی باتیں منبر ومحراب پر کیں، سوشل میڈیا پر لوگوں کے ذہہن کو موڑنے کی ناکام کوشش کی۔
واللہ خیرالماکرین
اب ان شاءاللہ مسجدوں میں عبادت کی غرض سے صرف سلفی خواتین نہیں جائیں گی آپ کی اپنی نازنینیں اور مہ جبینیں بھی جائیں گی وہ بھی پولس سیکیوریٹی کے ساتھ۔
مسجد جانے کی بات کو لے کر آپ کی ہٹ دھرمی اس بات کا مظاہرہ کررہی ہے کہ آپ لوگ معاشرے کی بے راہ رو خواتین کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور باپردہ شریف عورتوں کی حوصلہ شکنی کررہے ہیں اور آپ کو اس سے اجتناب ضرور کرنا چاہیے۔ عورت گھر پر نماز ادا کرے یا مسجد میں اس فیصلہ کو ہم مکمل طور پر اس پر چھوڑدیں۔ عورت حالات کے پیش نظر اگر خود کو محفوظ محسوس نہ کرے تو وہ اپنے گھر پر ہی نماز ادا کرے اور اگر وہ مسجد آنے کے لیے مامون ماحول پاتی ہو تو اسے مسجد آنے سے نہیں روکنا چاہیے۔
بہت عمدہ بہت خوب
ماشاء اللہ
جزاکم اللہ خیرا
ماشاء اللہ تبارک اللہ۔۔۔
ماشاء اللہ تبارک اللہ۔ و جزاکم اللہ خیرا۔
آمین وایاکم
Allah hum sab musalmano ko hidayat de A’ameen
آمین