بحرِ ہستی میں بلا خیز ہیں کتنے طوفاں
ہم اگر خاک نہ ہوتے تو سمندر ہوتے
عہدِ طفلی میں ہی پھرتے ہیں جو کاسہ لے کر
ہم جو مردہ نہیں ہوتے وہ سکندر ہوتے
شکر قرآں کا کریں آدمی جتنے ہیں یہاں
ڈارون نسل کے ہوتے جو تو بندر ہوتے
میرے منصف کے لیے نام ہی کافی تھا مرا
جرم کوئی بھی نہ ہوتا تو بھی اندر ہوتے
گھومتے ہیں یہ جو اوباش گلی کوچوں میں
شمسؔ سے راہ جو رکھتے تو قلندر ہوتے
آپ کے تبصرے