فیشن نے پیرہن کو یہ کیسا بنا دیا

عبدالکریم شاد شعروسخن

فیشن نے پیرہن کو یہ کیسا بنا دیا

لیلی کو قیس، قیس کو لیلی بنا دیا


بازار کو حسینوں کا میلہ بنا دیا

اہل ہوس نے عشق کو پیشہ بنا دیا


انسانیت کو سود کے سانچے میں ڈھال کر

اس دور کی مشین نے کیا کیا بنا دیا


فرعون ڈوب جاتے ہیں اپنے غرور میں

ورنہ خدا نے بحر میں رستا بنا دیا


عرفاں جو ہو سکا نہ خدا کا تو کیسا علم

عینک نے آنکھ والوں کو اندھا بنا دیا


دیکھو تو ان کے ذکر سے نالاں ہے لفظ لفظ

کچھ سرخیوں نے جن کو مسیحا بنا دیا


ہر صبح جاگنے پہ مجھے آتا ہے خیال

میں مٹ گیا تھا کس نے دوبارہ بنا دیا


دنیا! میں تجھ کو دیکھ کے کس طرح مان لوں؟

خالق نے کائنات کو بے جا بنا دیا


دل شوقِ دید سے تھا پریشاں تو یوں ہوا

یادوں نے ہو بہ ہو ترا چہرہ بنا دیا


مرضی سے اپنی کوئی بھی عاشق نہ بن سکا

جس آدمی کو عشق نے چاہا بنا دیا


کوشش یہ تھی کہ صاف رکھوں ہر طرح مگر

دل پر کسی نگاہ نے نقطہ بنا دیا


ایسا نہ ہو کہ شک ہو مسیحائی پر تری

مجھ کو اسی خیال نے اچھا بنا دیا


مٹ تو چکی تھی بھوک مرے پیٹ کی مگر

لالچ نے پھر سے ایک نوالہ بنا دیا


اے شاد! کس گمان میں ہو عشق نے میاں!

غالب سے شاعروں کو نکما بنا دیا

آپ کے تبصرے

3000