تیرے آنے سے کہیں بہتر تھا نہ آنا ترا
دکھتی رگ پے ہر دفعہ ہاتھوں کا رکھ جانا ترا
دیکھ دل کا حال جو اب سینئہ سوزاں میں ہے
کب تلک اے دشمن جاں! یوں ہی تڑپانا ترا
بر تو آیا ہے شب تاریک سے تو آفتاب!
ہائے لیکن شام ہوتے پھر سے ڈھل جانا ترا
نیند آئی جاتی ہے اب جھوٹے وعدوں سے ترے
ختم ہوگا آخرش کب کو یہ افسانہ ترا
ہر خطا پہ میرے رب کی درگزر کے باوجود
دفتر عصیاں کا اک اک حرف پڑھ جانا ترا
کب تلک جوڑے کوئی تیرا حساب سوز و ساز
روز اک نہ اک نیا سا رنگ بھر جانا ترا
تجھ کو پانے کے سبھی حیلے ہوئے ناکامیاب
اب فقط قسمت پہ ہے موقوف مل جانا ترا
تو بھی ہوتا قوم کا اک شیخ، اک پیر مغاں
مستند ہوتا حسن اے کاش! فرمانا ترا
بہت خوب حمود بھائی
لاجواب!!
ماشاء اللہ بھائی.بہت عمدہ.