کچھ اس طرح سے سنایا گیا کہانی کو

عبدالکریم شاد شعروسخن

کچھ اس طرح سے سنایا گیا کہانی کو

کہ لوگ بھول گئے میری حق بیانی کو


سمجھ سکا نہ کوئی تیری مہربانی کو

کسی نے غور سے دیکھا نہ زندگانی کو


گمان تھا کہ کہیں یہ بھی اک سراب نہ ہو

“میں دیکھتا رہا دریا تری روانی کو”


زباں سے نکلے ہیں الفاظ تو درست مگر

بیان کرتا ہے لہجہ الگ معانی کو


خدا کرے نہ کھلے مجھ پہ تیرا راز کوئی

تو برقرار رکھے میری خوش گمانی کو


بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں اشک یوں اترا

کہ ہم نے شعلوں پہ دیکھا مچلتے پانی کو


ہر آدمی سے تو جو مسکرا کے ملتا ہے

ہے ڈر لگے نہ نظر شاد! شادمانی کو

آپ کے تبصرے

3000