یوں مرے دل پہ برستے ہیں برابر پتھر

عبدالکریم شاد شعروسخن

یوں مرے دل پہ برستے ہیں برابر پتھر

جیسے پڑتے ہیں ثمر دار شجر پر پتھر


آئینہ لے کے جو میدان میں تنہا آیا

“ایسے انساں پہ چلا پھینکنے لشکر پتھر”


کوئیجھوٹی ہی تسلی تو مجھے دے ظالم!

کیوں کھڑا ہے تو مرے سامنے بن کر پتھر


موم کی طرح نظر آتے ہیں جو لوگ میاں!

چھو کے دیکھو تو نکلتے ہیں وہ اکثر پتھر


اے خدا! بھیج دے دنیا میں کوئی ابراہیم

بیچتا پھرتا ہے بازار میں آزر پتھر


یہ خوشی ہے کہ مری پیاس ہے بجھنے والی

خوف یہ ہے کہیں برسائے نہ امبر پتھر


اب یہ رستے کا تقاضا ہے کہ اس دنیا میں

آئینے والے چلیں ہاتھ میں لے کر پتھر


اب تو عینک بھی لگانے کی نہیں آزادی

پھینکنے لگتے ہیں ورنہ کھلے منظر پتھر


شاد! آئینہ کوئی گم ہے یہاں پتھر میں

اور پوشیدہ ہے آئینے کے اندر پتھر

آپ کے تبصرے

3000