کھیلتے ہیں تری تابانئ رخسار کے ساتھ
دل الجھتا ہے مرا گیسوئے خم دار کے ساتھ
کشتئ عشق میں اس حال میں ہوں یار کے ساتھ
سلسلہ موج کا اچھا نہیں پتوار کے ساتھ
ایک آواز چھپی ہوتی ہے خاموشی میں
ایک خاموشی لگی رہتی ہے گفتار کے ساتھ
ہر کسی کو تو میسر نہیں شانوں کی اماں
ہم تو روتے ہیں لپٹ کر در و دیوار کے ساتھ
کم سے کم آپ کو خوش بو تو میسر ہوگی
بیٹھیے تو کبھی جا کر کسی عطار کے ساتھ
میرا سر کاٹ دو پروا نہیں کوئی لیکن
چھیڑ خانی نہ کرو تم مری دستار کے ساتھ
کتنے مجبور ہیں پردیس میں رہنے والے
کیسے کرتے ہیں بسر درہم و دینار کے ساتھ
روز کرتے ہیں وہ ایجاد کوئی بیماری
اور سودا بھی وہی کرتے ہیں بیمار کے ساتھ
اب بھی کچھ لوگ ہیں دنیا میں جو یوں جیتے ہیں
جیسے گلشن میں رہا کرتے ہیں گل خار کے ساتھ
اسی امید پہ اٹھتا ہوں میں ہر صبح کہ آج
کوئی تو اچھی خبر آئے گی اخبار کے ساتھ
آزمائے گا وہ تم پر بھی کبھی ہشیاری
شاد رہنا نہیں اچھا کسی ہشیار کے ساتھ
آپ کے تبصرے