اللہ مغفرت فرمائے مولانا محمد علی جوہر کی یہ کیسا شعر کہہ گئے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اسلام کب زندہ ہوتا ہے؟
اسلام تب زندہ ہوتا ہے جب بوڑھی سمیہ اسلام کی خاطر بڑی بے دردی سے شہید کردی جاتی ہیں اور جواں قوم کے لیے شہادت کا اسوہ اور صبر و استقامت کی لازوال داستان پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔
اسلام تب زندہ ہوتا ہے جب گیارہ سالہ زبیر بن عوام نبی کی گرفتاری کی افواہ پر ننگی تلوار لے کر مکہ کی گلیوں میں دشمنوں کو تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں۔
اسلام تب زندہ ہوتا ہے جب حق و باطل کے کارزار میں امین امت ابو عبیدہ بن جراح کی تلوار سگے باپ کو بھی نہیں بخشتی اور گردن دھڑ سے جدا کردیتی ہے۔
اسلام تب زندہ ہوتا ہے جب کوئی صدیق اکبر اول تا آخر نبی کا سایہ بن کر ان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے بعد اپنی پوری زندگی مرتدین اسلام اور مانعین زکاۃ کی شر انگیزیوں کے خلاف بر سر پیکار رہتا ہے۔
اسلام تب زندہ ہوتا ہے جب عمر فاروق جیسا کوئی جری ببانگ دہل اپنے ایمان کو لوگوں کے لیے چیلنج بناکر پیش کرتا ہے، حق و باطل کو چیر کر الگ الگ کردیتا ہے، دین کے نفاذ میں کسی قسم کی رعایت نہیں دیتا۔ عرب و عجم میں اپنی اور اپنے اصحاب کی کم مائیگی کے ساتھ اسلام کا رعب اور اس کی ہیبت سے لرزاں براندام رکھتا ہے۔
اسلام تب زندہ ہوتا ہے جب عثمان جیسا غنی اپنی ساری دولت ملت پر وار دیتا ہے۔ کبھی مسجد تو کبھی پانی کا کنواں کبھی جنگی ساز و سامان امت کے لیے ہر چیز وقف کرتا رہتا ہے۔ اور خود شہادت سے پہلے بوند بوند پانی کو ترسایا جاتا ہے۔ جس نے اپنے ہی گھر میں دشمنوں کے ہاتھوں اپنی جان دے دی تاکہ امت فتنوں سے محفوظ رہ سکے اسلام تب زندہ ہوتا ہے۔
اسلام تب زندہ ہوتا ہے جب علی جیسا شہسوار تلواروں کے سائے میں فراش نبوی پر لیٹ جاتا ہے، جو آنکھوں کی سوزش لیے درہ خیبر کو ایک جھٹکے میں اکھاڑ پھینکتا ہے۔
جب آپ جیسا جنگجو میدان بدر میں ایمان و یقین کے ہتھیار سے لیس ہوکر کافروں کے سر گردنوں سے الگ کرتے پھرتا ہے۔
اسلام تب زندہ ہوتا ہے اختلاف و انتشار سے پر فتنوں کے دور میں جب کوئی امیر معاویہ جیسا بردبار، حلیم الطبع کھڑا ہوتا ہے اور بیس سال تک امت کو ایک ہی علم کے سائے میں متحد رکھنے میں پوری طرح کامیاب رہتا ہے۔
اسلام تب زندہ ہوتا ہے جب ہجرت کے بعد نوآبادیات کا مسئلہ پیش آتا ہے تو یہ بڑے دل والے ایثار و قربانی کی ایک انوکھی داستان رقم کرتے ہیں۔ بلا کسی قانون، فورس اور آرڈیننس کے مہاجرین کو انصار محض ایک نبوی اپیل “بھائی بھائی بن جاؤ” پر خود میں یوں ضم کرلیتے ہیں جیسے شیر و شکر
رضی اللہ عنھم اجمعین
واقعہ کربلا تو اسلام کا وہ عظیم سانحہ ہے جس نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، جس کی تلافی تا قیامت نہیں کی جاسکتی۔ اس امت میں ایسی تفرقہ بازی ہوئی جس کا سلسلہ آج تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا، دین کے نام پر غلو پرستی، شخصیت پرستی اور عجیب و غریب قسم کی بدعتیں ایجاد کی گئیں۔
کیا یہی وہ مقام ہے جہاں اسلام زندہ ہورہا ہے؟
Mashallah