دل جو پاتا ہے سکوں نسبت روحانی سے

سحر محمود شعروسخن

دل جو پاتا ہے سکوں نسبت روحانی سے

مجھ کو لذت وہی ملتی ہے غزل خوانی سے


قدر و قیمت کا مری تجھ کو ہو اندازہ کیوں

میں میسر جو تجھے آ گیا آسانی سے


تاب نظارہ کہاں ہے کہ تجھے دیکھ سکوں

“آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے”


بات کی میری ہو ترسیل یہی مقصد ہے

کیا غرض مجھ کو عبارات کی طولانی سے


بعد کو خاک کے پتلے ہی نظر آتے ہیں

دل کو وحشت سی ہے یوں صورتِ انسانی سے


اک نظر میں تو کسی کو نہ پرکھ پاؤ گے

اس طرح دیکھتے کیوں ہو مجھے حیرانی سے


ہو مسلمانوں سا ایمان و عمل بھی تو سحر

کوئی ہوتا ہے مسلمان، مسلمانی سے؟

آپ کے تبصرے

3000