اس سے مل کر میں یوں ملا خود سے

عبدالکریم شاد شعروسخن

اس سے مل کر میں یوں ملا خود سے

جیسے مدت سے تھا جدا خود سے


اک تعلق نباہنے کے لیے

توڑ بیٹھا ہوں سلسلہ خود سے


زہر کو زہر مار دیتا ہے

خوف کھاتا ہے آئینہ خود سے


میری آنکھوں میں عکس تھا اس کا

اس کو آتی رہی حیا خود سے


میرے وعدوں پہ اعتبار نہ کر

میں تو اکثر مکر گیا خود سے


منزل عشق سخت مشکل ہے

بھاگتا ہے یہ راستا خود سے


میں نے اس سے نباہ کر لی ہے

ہر گھڑی تھا معاملہ خود سے


جتنی نزدیک مجھ سے تھی منزل

میں بھی اتنی ہی دور تھا خود سے


دوسروں سے بھلا شکایت کیا

میں نے ہی کی نہیں وفا خود سے


پہلے اس کی نظر کا تھا شکوہ

اب تو رہتا ہے یہ گلہ خود سے


میری پہچان لے گیا کوئی

“میں رہا عمر بھر جدا خود سے”


آگ سے آگ کو بجھانا ہے

کتنا مشکل ہے جیتنا خود سے


ٹھیک ہے، اس کو بھول جاؤں گا

کہہ چکا ہوں میں بارہا خود سے


شاد! تم بھی کمال کرتے ہو

دوسروں سے وفا، جفا خود سے!

آپ کے تبصرے

3000