شاہ فیصل نام کا کوئی جوان شخص آپ سے ملاقات کرے تو یقینا آپ کو خود پر رشک آئے گا اور آپ اپنی قسمت پر عش عش کر اٹھیں گے۔ وہیں قذافی اور صدام نام سن کر ایک ہیرو جیسی کیفیت کا طاری ہونا عام بات ہے۔ مسلم معاشروں میں شاہ فیصل، قذافی اور صدام یہ تین نام اس قدر عام ہیں کہ کوئی بھی انھیں سننے پہ آپ کے ذوق کی قدر دل سے کرے گا۔مگر نہ جانے کیوں سعودی عرب یا مملکت سعودی عرب نام سن کر معاشروں میں علی العموم ایک قسم کی سر اسیمگی طاری ہو جاتی ہے۔ اچھا پھر یہ بھی دیکھیں کہ ہمارے معاشروں میں سعودی عرب کن کن قرائن سے سمجھا اور جانا جاتا ہے۔ اول، دہشت گردی، بے تحاشہ پیسہ ، ڈالر وہ قرینے ہیں جنھیں ہم نارمل طریقے سے روزمرہ کی تاملات میں لیتے اور سمجھتے ہیں۔ یہ قرینے وہ ہیں جن کا تعلق مملکتوں کی سیاست سے ہے۔دوئم،ایک قرینہ شدت پسندی کاہے جس کا بلا واسطہ سلسلہ ریڈیکلزم اور بے انتہا فکری اور تدابیری بحران سے متعلق ہے۔ تیسرا قرینہ جدید تاریخ سے متعلق ہے جس میں سعودی عرب کی حیثیت مسلم معاشروں میں اپنے اپنے فقہی سانچوں اور ان سانچوں کے گارجینس کےاعتبار سے ابھرتی اور کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کو ترکی میں ویسے محسوس نہیں کیا جاتا جیسے ہندوستان اور پاکستان میں۔ایرانی معاشروں میں اسےایسے محسوس نہیں کیا جاتا ہوگا جیسے کہ انڈونیشیا اور ملیشیا میں۔ پھر سعودی عرب کا تعلق عرب کے عام لوگوں اور عام معاشروں سے کیسا ہے اسے بھی تو جاننا چاہیے، فلسطینی معاشرے میں اور یمنی معاشروں میں کیا حال ہے اس کی بھی خبر لینی چاہیے اور ان کے نقطہ نظر سے بھی دیکھنا ضرور ی ہے۔چہارم، بین الاقوامی معاملوں میں سعودی عرب اور عجمی معاشروں کا حال خاص طور سے ـ’تاریخ کے تصادم ـ ـ‘ جیسے نکتوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے پرانی تاریخ نئی تاریخ کا ہمیشہ تعاقب کرتی ہے اور اس پر حریفانہ حملے کرنے کے لیے پرانے تعصب کو زندہ کرنا اس کے اپنے وجودی مسئلےسے جڑا ہے۔ پنجم، اسلام پسندوں کے نزدیک اس ملک پہ حاوی امت مسلمہ کی دولت کھا جانے والے بدو ہیں۔ وہ طاقت کے غلام ہیں جس کی وجہ سے انھیں یہود کا دوست اور مغرب کا پٹھو بننا پڑا۔ لہذا تختہ پلٹ سیاست کاقضیہ کبھی خود ساختہ مہدی جہیمان العتیبی کے نام پر ابھرا اور کبھی مزعومہ اسلامی حکومت کے عفریت کے نام پر ابھارا گیا۔ششم، انگریزی حکومت کی بدعت’وہابی ‘بمعنی ڈاکو اور لٹیرا اس قدر کاری تھی جو عالمی طور پر بیسویں صدی کے تاجروں پر اپنا اثر بڑے دوررس انداز میں دکھاتی رہی۔عراق میں، مصر میں اور ہندوستان کی پیچیدہ ترین گلیوں میں لوکل معاشرے بھی اپنی فقہی استبداد اور دینی دکانداری کووہابی بمعنی ڈاکو کی بدعت کوبہت زیادہ بھاو میں بیچتے اور سنبھال سنبھال کر کار ثواب حاصل کرتے رہے۔ یہ وہ معلومات ہیں جو تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں۔وہابی بمعنی کافر، دجل کرنے والا، قرب قیامت کی نشانی، چھلاواجیسی تعبیریں بھی ہیں جو چیدہ چیدہ مسلم معاشروں کی مواصلاتی کاروائیوں کا حصہ رہیں۔ لفظ وہابی کے ذریعے سے سعودی عرب کی حکومت کو ناجائز قرار دینے کی تگ دو اب مسلم معاشروں کی شکی جدلیاتی سلوک کا روپ دھار چکی ہے۔
حج کی زیارت ،یادوں کی دھونکنی اور کالا سونا:
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی شروعات تک حج کر لینے کی نعمت مسلم معاشروں کے ہر فرد کے لیے ایک بہت بڑی بات تھی۔اس لیے کہ اس میں توفیق سے زیادہ چیزیں درکار ہوتی۔ حج کر لینے کی نعمت دراصل بوڑھوں کے حصہ میں زیادہ آتی۔جوان کے لیے یہ نعمت ایسے ہی تھی جیسے اس کی زندگی میں ایسی عورت آجائے جو اس کی روح تک سے بات کرتی ہو۔ حج کرنے کے لیے اپنی زمین چھوڑنا جان بچا لینے کی امید چھوڑ دینی تھی۔ یعنی اسلام کےایک اہم رکن کو ادا کرنے کے لیے اسلام سے نہیں بلکہ دنیا سے خارج ہونا پڑتا۔ ملک ہندوستان میں بھی یہی صورتحال تھی ۔ حج کے راستوں میں لٹیرے اور ڈکیت گھات لگائے ہوتے اور اپنی اپنی سرکاروں سے سانٹھ گانٹھ کر کر کیا قیامت نہ ڈھاتے ۔ ان سے واقف ہونے کے لیے مورخین کے ملاحظات ضرور دیدوں کے سپرد کیا جانا چاہیے۔ مندی سے بچنے کے لیے چھوٹے چھوٹے دکانداروں کی ترکیبیں خوب ہوتی ہیں، دین کے دکانداروں نے یہ باتیں دکھانی اور بتانی بھی شروع کی کہ حج کرنے کی راہوں میں جو ڈاکوڈاکہ ڈالتے وہ دراصل وہابی ہیں۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں موحدین کی تگ و دو رنگ لائی اور سعودی عرب کی مملکت سازی کا کام شروع ہوا۔انہی ایام میں موحدین اور مومنین کے نیٹ ورک بھی جدید طور سے مضبوط ہوئے اور ہندوستان کےگاوں، دیہات اور شہروں سے بھی ماوں نے اپنے اپنے کنگن تک اتار کربھیجوائے اورمملکت سازی میں حصہ لیا۔ اماّوں نے اپنی پائی پائی جوڑی ہوئی پونجی توحید کے محل کی تعمیر میں لگا دیں اور بیٹیوں نے شادی کے جوڑوں کے خواب کی جگہ حج کر پانےکی آرزوکو سچ ہوتا ہوا محسوس کیا۔ عام مسلمان کے خوابوں کی تعبیر پوری ہونے والی تھی اس لیے کہ ایک ایسی قوت ابھر رہی تھی جو راہوں میں امن کے جال بچھانے کو مفادات کے جال بچھانے پہ فوقیت دیتی۔ امت مسلمہ کی نفسیات پر سے مشرکانہ خلل اور بدنیتوں کا زور ٹوٹنے والا تھا ۔ امت کو اسلام کا وہ دور یاد آرہا تھا جب انسان کا عروج خدائے تعالی کی ذات کی طرف اٹھتا چلا گیا تھا۔ اس دور کےسارے لوگ زندہ ہوتے چلے جارہے تھے اور علم الہی کی قرآنی تعبیرات اور احادیث کی روشن تشریحات ایسا معاشرہ بنا رہے تھے جسے دیکھنے کے لیے فرشتے آتے ہیں۔ امت مسلمہ کے ذہن میں وہ دور دھونکنی کی طرح بھبھک رہا تھا جس کی حقیقت اِس دور کے آئینے میں صاف دکھ رہی تھی۔ قریب تھا کہ دنیا بھر میں پھیلے معاشرے اس ُبقعہ نور سے روشن ہوجاتے کہ نور کے عین مرکز پہ ایک کالا دھبہ ابھر آیا۔ دھبہ دراصل کالا سیال تھا جو دن بدن بڑھتا ہی جاتا۔
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں کالے سونے کی عرب ممالک میں دریافت نے انڈسٹریل معاشروں کے دل میں امید کی کرن جگادی۔ اس لیے کہ جو مرض مغربی ممالک نے پال لیا تھا اس کا علاج بھی مشرقی معاشروں کی ہی زمین سے نکلا تھا۔گو کہ مغربی ممالک نفط یا کالا سونا کے استعمال سے پہلے ہی واقف ہو گئے تھے مگر یہ وہ غذا تھی جس کے نہ ملنے پہ شہری ترقی کا براق ایک قدم بھی نہیں چل پاتا۔ اچھا یہ وہ وقت بھی تھا جب مغربی دنیا کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ ملک امریکا ’گریٹ ڈپریشن‘ جھیل رہا تھا۔ گریٹ ڈپریشن دراصل اقتصادی بحران ہےجس کاسامنا 1930میں امریکا کو کرنا پڑا تووہیں یوروپی ممالک کو یہ عارضہ سال بھر پہلے لگا تھا۔
مغربی دنیا نے جنگ عظیم اول سے تازہ تازہ گلوخلاصی حاصل کی تھی لہذا ان کے انڈسٹریل معاشرے کی بھوک کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ کالا سونا ان کے لیے جنت کامزہ مہیا کرنے والا تھا۔ یہ وہ سونا تھا جو مغربی معاشرے کی قیمت کو دن دوگنی رات چوگنی بڑھاتا ہی جا رہا تھا۔ اگر سنہری سونے کی بیع و شرع پہ سود کا محل بنانے والے سناریا یہود نے قبضہ کر رکھا تھا تو دنیا کی ترقی کو رفتار دینے والے کالے سونے کو عرب کی سنگلاخ پتھریلی زمینوں سے 1938 میں دریافت ہونا تھا۔ ابن سعود اس بیمار شخص سےخوب واقف تھے جو اُس وقت یورپ میں پایا جاتا تھا اور جس کا خرچہ ایک عرصہ تک حرم کے ٹیکس سے پورا ہوتا۔ یہ بیمار ترکی تھا۔ابن سعودنے برطانوی سائنسدانوں اور دیگر انجینئر سے ملاقات کے دوران یہ خوب بھانپ لیا تھا کہ اگر عقیدہ کا چشمہ اس زمین سے پھوٹ سکتا ہے تو مادیت کی بھوک کو ختم کرنے کے لیے کالے سونے کاچشمہ بھی یہیں سے پھوٹے گا۔
کتاب و سنت ، مدارس اور دینی تصور:
مصر کے مشہورلیفٹ فلسفی حسن حنفی شیخ محمد بن عبدالوھاب کے بارے میں یہ اشارہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وہ مجدد تھے جنھوں نے عہد جدید میں ایک خاصے عرب معاشرے کو نص قرآنی کو مدنظر رکھ کر ری اورینٹ کیا۔ حتی کہ معاشرے اور نص کے درمیان کسی قسم کی اجنبیت نہیں رہ گئی تھی۔ ہمارے استاد پروفیسر اے کے راماکرشنن کہتے ہیں ـ ’شیخ محمد بن عبد الوھاب کی تجدیدی مساعی ہی تھے جس کی بنا پہ وہ دینیت کی بحث کو بلاواسطہ محدثین ، صحابہ کرام کے معاشرے، ابن تیمیہ، امام احمد ابن حنبل کے ارگیومنٹ سے جوڑ سکےـ‘(2014)۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ ابن عبدالوھاب نےموجودہ اسکالر والے انداز میں بہت سے لوگوں کو کورٹ کر کے اور ریسرچ کر کے ایک سوچ کو جنم دیا۔ بلکہ اس تصور دین کو خوبصورتی، سادگی اور امانتداری کے ساتھ اپنے بعد آنے والی نسل کے لیے متعارف کرا دیا جس کو وہ پڑھتے اور سمجھتے آئے تھے۔ تصور دین دراصل کتاب و سنت کی تفہیمی اندراجات، عرب معاشرے ، عرب کے طریقہ حکم و ذوق، روایت اور تراث ہیں جسے ہم تک پہنچا یاگیا۔ ظاہر سی بات ہے ان کے اس عمل میں ان کے معاصرعلماء، استاد اور شاگردوں کی معرفتیں بھی شامل رہی ہوں گی۔ دنیا کے مدارس ان کی اس تعلیم سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اسے پڑھتے پڑھاتے بھی ہیں۔ ہندوستان کے مدارس کا ایک گراں قدر حصہ بھی ان کے فیض سے محروم نہیں رہ سکا ۔ ہاں ہمارے معاشرے اور ہماری عام زندگی ان کی اس دعوت سے شاید ویسا فیض نہیں اٹھاتی جیسا کہ اٹھانا چاہیے۔ مزید یہ کہ شیخ محمد بن عبدالوھاب ہمارے مسلم معاشرے میں ایک ایلین اور غیر مسلم معاشروں میں دہشت گردی کے منبع کے طور سے اب پہچانے جاتے ہیں۔ ہندوستانی تہذیب میں ان کی جگہ ایسی ہے جس کی بنا پہ ہندوستانی باحثین معاشرے کو ”عربائز“کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
جدید معاشرہ اور روایتی معاشرہ:
نئی نئی سوچ والوں کی سعودیہ سے یہ امید ہے کہ وہ عین صحابہ کا دور لے آئیں اور نئی سوچ والےخود سادھو بابا بنے دوزخ تھوکتے رہیں۔ مگر وہ دو قسم کے معاشروں کو شاید نظر میں نہیں رکھتے۔ اول ، جدید معاشرہ جسے ہم ماڈرن معاشرہ کہتے ہیں۔ جدید معاشرہ صرف جینز اور ٹی شرٹ پہن لینے سے نہیں بنتا۔ جدید معاشرے میں تعلیم، یونیورسٹی، سائنس، معاشرتی اور شہری اخلاقیات ، سیکولرزم، شہرسازی کے اصول، قومی اقتصاد کا عالمی اقتصاد سےتزامن، قومیت کے دروس، میڈیا، عقلی اور منطقی تجزیے اورمنطقی تفہیم اشیاء، حقوق انسانی کی اہمیت، سیکورٹی، ڈیولپمنٹ ، حق ملکیت ، حریت ِتعبیر، انڈسٹری، ٹیکنالوجی جیسے مضمون کا ہر دم معاشرے میں موجود رہنا اور نئے زاویہ اختیار کرنا لازمی ہے۔ وہیں جمہوری ممالک میں جدید معاشرے کے تصور سے سیاسی اور شہری لبرٹی کی تعبیرات ملتزم ہیں۔ روایتی معاشرہ صرف کرتا پاجامہ یا جبہ اور عقال میں نہیں رہتا۔ بلکہ روایتی معاشرہ کسی تہذیب یا کلچر کا اپنی اصل سے جڑے رہنا اور نئی تبدیلیوں کو حتی الامکان اگنور کرنا ہے۔ روایتی معاشرہ باہر کی دنیا کے لیے کھلتا نہیں اور نہ ہی باہر کی دنیا کی اخلاقیات سے متاثر ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ اپنے شہر اور گاوں کو بڑی بڑی بلڈنگیں تو دے سکتا ہے مگر ان اصول سے سمجھوتہ کرنے کا مخالف ہوتا ہے جن کی منطق پہ ایسے معاشرے کی بنا رکھی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کے تمام مسلم معاشرے جدید بھی ہیں اور روایتی بھی کہ ان میں دونوں طرح کی اخلاقیات کام کرتی ہیں۔ اور سعودیہ بھی ا ن دونوں طور کے معاشرتی تصور سے واقف ہے ، نپٹتا ہے اور دونوں طرح کی معاشرہ سازی میں بیک وقت تعاون بھی کرتاہے۔ مگر علماء نے جن معاشروں کو دینی اور اسلامی معاشرہ کہا ہے اس کی تشکیل میں سعودی عرب کے پاس شاید افراد،کمٹڈدانشوران، متخصصین، پالیٹیکل یا سوشل سائنٹسٹ اب کم ہو گئےہیں جو ان نکتوں سے انھیں آگاہ کرائیں، جو تھے وہ یا تو اسلامی جمہوریت والے ہیں یا نظام مخالف یا دعوت دین کے نام پہ کوکاکولا، آئی فون، ائر کنڈیشن ، مرغ بروسٹ کےبغیر ایک قدم حرکت نہ کرپانےوالے ایشیائی جامعاتی علماء۔
دعوت دین ، کوکا کولااور ڈیجیٹل اسلام:
ایک داعی کو اپنی بات پیش کرنے کے لیے معاشرے میں چل رہے معیار سے واقفیت اسی طور پہ لازمی ہے جس طور پہ وہ نصوص اور احادیث مبارکہ کو جاننے کا دعوی کرتا ہے۔ اس کے بعدصبر و تحمل کے ساتھ ایک طور کی بالغ نظری اور ریفلیکٹیوٹی کامظاہرہ بھی ضروری ہے۔ قومی اور علاقائی زبانوں میں مہارت، معاشرے میں رہ رہے غیر مسلموں کو صدیوں پرانے عرب مورخین کے نہیں بلکہ داعی کے چشمے سے دیکھنا اور ان پر حکم صادر کرنے کے لیے تدابیر کا اظہار کرنا بھی لازمی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں نہیں معلوم ہمارے کتنے علماء کو سنسکرت آتی ہے اور کتنوں کی کتابیں ہم اعلی درجے کی ہندی اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ ترجموں سے ہم کب تک کام چلاتے رہیں گے۔ فکری مضامین میں ہمارے ٹھیکرے مسلکوں پر اور اسلام پسند نمائندوں پہ پچھلے سوسالوں سے پھوٹ رہے ہیں۔ برخلاف دین اسلام کے دوسرے خدمتگاروں کے ہمیں اس بات کا علم بھی نہیں کہ بیرون ملک اور اندرون ملک ہمارے کتنے بچے اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کی تعلیمی تخصص سے کس طرح سے قوم ، ملت ، ملک، دین اور اسلام کو فائدہ پہنچایا جائے۔ آج ہمارا سب سے اعلی علمی تمغہ، وظیفاتی بحث اکیلے اکیلے دیکھے ہوئے کئی چہرے والے علماء کی نقاب کشائی اور ببانگ دہل ـ مزعومہ حق قائم کرنا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلم معاشروں میں دعوت دین باہر سےنمبر بٹورنے والے یا فارم بھرنے کے لیے زیادہ ہے بنسبت بلّغو عنّی کا فریضہ انجام دینے کے۔ آپ چاہے سر کے بل کھڑے ہو کر بولیں کوئی بھی آپ کو ”حق پرکاش محمد ؐ کا پرچار کرنے والے کے طور سے ماننے کے لیے تیار نہیں ۔
غالبا آپ میں سے کسی نے کوکا کولا پیا ہے تو آپ یہ ضرور جانتےہوں گے کہ ہمارے اسےروز روز پینے اور استعمال کرنے کے باوجود یہ مشروب ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ۔ ہم کوکا کولا کی کمپنیاں اپنے شہروں میں کھولنے کے باوجود اسے ایک فارین، غیر ملکی، ایمپورٹڈ مشروب ہی مانتے ہیں مگر روح افزا کے سلسلے میں یہ بات نہیں ۔ روح افزا ہمارے گھر کا ، ہماری تہذیب کا مشروب ہے۔کچھ اس طرح کی رائے ہمارے بارے میں بھی ہوگی اگر ہمارے ہاتھ میں بڑا سا آئی فون ہو، ہم ائیرکنڈیشنڈ کار میں ہوں، بغل میں کوک کی بوتل، سفید دودھیا کرتا پاجامہ یا جبہ، کلائی پہ مہنگی چمکتی راڈو گھڑی لگائے ہوئے ہوں۔ ہم تقریر تو کر لیں گے مگر اسے بھی امپورٹڈ تقریر کا نام دے کر ایک کنارے لگا دیا جائے گا۔ اچھا ، داعی کا مطلب غالبا یہ بھی نہیں کہ آسمان سے دھب سے گرے اور فرمانا شروع کردے۔ داعی تو زمین کا آدمی ہوتا ہے ۔ داعی زمین سے اُگتا ہے۔
داعی کی عالمانہ سوچ اور موبائل پہ ایک ٹک نظر کو ملاحظہ کر ہم ڈیجیٹل اسلام نامی موضوع سے متعارف ہوتے ہیں۔ اس کے باوجودہمیں یہ نہیں معلوم ہمارا داعی، ہمارا عالم، ہمارا دیندار پڑھا لکھا انسان ہمارے معاشرے کی سوچ کا حصہ ہے بھی یا نہیں ۔ وہ اسے اپنی اصلاحی،اجتہادی، تجدیدی فکری پروسس میں کیسے لاتا ہے؟ کیا انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں اسلام کی تفہیم کی ترسیل اسی معاشرے کی سیاسی، اقتصادی اور تاملاتی فیشن کو مد نظر رکھ کر نہیں کی جانی چاہیے جس معاشرے میں ہمیں اپنی بات کہنی ہے۔ ہندوستان میں آزادی سے پہلے ہم ایک انتہائی مرعوب کن میچیور علم و علماء کا کلچر دیکھتے تھے اور اب خطرناک حد تک اممیچیورٹی کروڑوں مسلمان کی نمائندگی کرنے پر فخر سے کالر کھڑے کرکے کہتی ہے کہ ہم تین کروڑ فلاں مسلک والے کے نمائندہ ہیں۔
فرانسیسی مفکر اوللیور اوئے اسلامی دنیا میں دعوت، اسلام، کیپٹلزم، اقتصاد اور فکر ی یلغارجیسے موضوع کومخاطب کرتے ہوئے ایک حیران کن نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ـ اسلام کی سیاست کرنے والی روح دراصل ملکوں کے اقتصاد میں ساختیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ایسا رنگ لے لے گی جس کا روز مرہ کا ایکٹیوزم محض ایک ”دانشور نما“، یا جسے مولانا عبدالمعید ’علم ہونے کے دعوے دار ‘ یا شایدتَعالم کہتے ہیں۔ فرانسیسی مفکر نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے:
لُمپن انٹلیجینٹسیا(lumpenintelligentsia)
جس کاعارضی ترجمہ ”غبی دانشوران“ کیا جاسکتا ہے ۔ اور آپ یہ دیکھیں ہمارے داعی کی زبان پہ خود ہمارےزمین سے اُگے ہوئے علماء کی دیدہ و دانستہ تحقیر ہے اور نہ جانے کس چیز کا افتخار۔ ہمارے علمی پروسس کو ایک طور کے غبی اپنی علمی تازگی اور چنندہ ہونے کے غرور میں خطرے میں برابر ڈالے دے رہے ہیں۔ اگر ہم زمین سے جڑے رہنے کا شعور پھر سے پیدا نہیں کر پاتے تو یہ لُمپن انٹلیجینٹسیا ہم بھی ہو سکتے ہیں اور آپ بھی۔
السلام وعلیکم۔ سعد بھائی، آپ کا آرٹیکل دیکھا اچھا ہے اور سمجھ آنے والا بھی ہے۔ آپکےاس مضمون میں ایک نیا شخص ہے جسے سعودیہ سے کوئی پرابلم ہی نہیں۔ آپ خود واقف ہیں کہ سعودیہ ایک مونارکیکل کنٹری ہے اور مونارکیکل کی اسلام میں کوئی جگہ ہی نہیں۔ پھر آپ کے اس مضمون کے دو تین پیراگراف ایسے کیوں ہیں جس سے سعودیہ کی معصومیت ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ اس کے علاوہ لمپن والا نکتہ بہت ہی زیادہ relevant ہے؟ آپ ذرا رسپونڈ کریں،۔ اللہ برکت دے۔
بہت اچھا اور بہت دو ٹوک لکھا… لمپن انٹیلیجینسیا ہی چل رہا آج کل. انتظار رہے گا اگر آپ ہندستانی مسلم معاشرے کی نفسیاتی الجھنوں پر کچھ اور کھل کر لکھیں