حاجی ساب کا کیمرہ

ام ہشام

(ہندی دیوس پر مہاراشٹر کالج کی جانب سے منعقدہ شیام کشن نگم ٹرافی طنزیہ و مزاحیہ تقریری مقابلے 14 ستمبر 2019 میں انعام یافتہ تقریر)

اللہ کے یہ مہمان اپنے گرد آلود قدموں سے ہوائی طیّاروں میں سوار ہوچکے ہیں۔
اپنوں سے بچھڑتے وقت حاجی ساب کی آنکھیں خوب جم کر برسیں، اعزہ و اقارب سے گلے مل مل کر اس قدر روئے کہ یاد ہی نہ رہا کہ کب کس کا کاندھا دوہرادیا۔
رومال سمجھ کر جانے کب کس اماں اور خالہ کے دوپٹے سے آنسو اور پسینہ صاف کرتے کرتے ناک کے اندرون موجود مال و متاع کو بھی محفوظ ٹھکانے لگادیا۔
حاجی ساب خراماں خراماں اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے لیکن تبھی ایک مشکل آن پڑی جب حاجی ساب کو ایک ہی وقت میں اپنا نیا نویلا سفید براق احرام بھی سنبھالنا تھا اور ساتھ ہی بڑی پررونق، باوقار اور مقدس ٹائپ کی سیلفیاں بھی نکالنی تھیں۔ ایک دو نہیں کم از کم دس بیس، سیلفیاں ہی تو تاریخ میں اس بات کی شاہد بننے جارہی تھیں کہ حاجی ساب بڑے طمطراق کے ساتھ ائیرپورٹ گئے تھے اور نہ صرف گئے تھے بلکہ ٹکٹ خرید کر ہوائی جہاز کے دوش پر سوار بھی ہوئے۔
اللہ کے مہمانوں کا یہ قافلہ اس مقدّس سرزمین پر پہنچ چکا ہے جو بیت اللہ سے پہلے حاجیوں کا پہلا پڑاو ہے۔ دنیا کا سب سے عجیب جذباتی منظر ہے کوئی بڑی حیرت سے سرزمین عرب اور اس کی تابانیوں کو دیکھتا ہے تو کوئی محبت پاش نظروں سے مملکت توحید پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کو محسوس کرتا ہے۔ کسی کی شکر گذار آنکھیں مسلسل برسے جارہی ہیں تو کوئی ہونقّ بنا جدّہ ائیرپورٹ کے فعّال و مصروف ترین عملے کا مشاہدہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔
انہی سب کے درمیان بالآخر وہ مخلوق بھی دکھائی پڑی جو اپنے گردوپیش سے بے خبر کچھ تلاش کرنے میں بری طرح مصروف تھی۔ اللہ اللہ کرکے وہ “متاع گمشدہ” ان کے بیگ سے برآمد ہوئی اور دنیا کی نظروں نے بھی دیکھا کہ وہ تو ایک “سیلفی اسٹک” تھی۔
کہنے کو تو ایک پلاسٹک کا ڈنڈا ہوتا ہے لیکن یہ سیلفی کے متوالے ہی جانتے ہیں کہ یہ محض ڈنڈا نہیں ڈیجیٹل مخلوق کو یہ آکسیجن بھی فراہم کرتا رہتا ہے جس کے دم سے ہی دنیا میں ہماہمی موجود ہے ورنہ آج یہ پوری دنیا مشن سیلفی کے سیلفی سولجرز سے معدوم ہوچکی ہوتی۔
حاجی ساب کا یہ آکسیجن والا ڈنڈا ان کے بیگ سے نمودار ہوکر ان کے ہاتھ آچکا ہے اور پھر یہیں سے شروع ہوتا ہے بے شمار عجیب و غریب سیلفیز، ولاگس اور لائیو حج کا “ناقابل فراموش سلسلہ”
حرم پاک میں خانہ کعبہ کو دیکھ حاجی ساب بھی خوب روئے، کعبہ کی دیواروں سے چمٹ نہ سکے، حجر اسود کو اژدھام کی وجہ سے گر چہ چھو نہ سکے۔ لیکن ہمت نہ ہارتے ہوئے حاجی ساب نے دوران طواف ٹھیک حجر اسود کے سامنے اپنی طلسماتی چھڑی باہر نکالی یعنی کہ اپنی سیلفی اسٹک اور ٹائمر سیٹ کر دسیوں سیلفیاں کھٹکھاکر استلام حجر اسود میں اپنا حصّہ ڈال دیا۔

کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
پھر ہوش و خرد مفلوج ہوئے، دل ذوق تماشہ بھول گیا

یہ تو شاعر کا حال دل تھا حاجی ساب کا حال دل کچھ ہم سے بھی سنتے جائیے!!
کعبے پر، حجر اسود پر، مقام ابراہیم پر حطیم پر بھی حاجی ساب اپنے کیمرہ اور سیلفی اسٹک کے ساتھ مکمل باہوش اور پرسکون رہے۔ مجال ہے جو اس مرد مجاہد کے پاؤں کبھی کسی مرحلہ پر لڑکھڑائے ہوں، ان کے جوش و ولولے کو اس ہوش ربا بھیڑ بھاڑ نے ذرا سا بھی ڈرایا ہو اور ان کے حوصلے پست ہوئے ہوں۔ خود نمائی کے جذبوں اور حوصلوں پر اخلاص و للہیت کی ذرا سی بھی خراش پڑی ہو۔
بھئی یہ مرد مجاہد چور نہیں! کمزور نہیں! بزدل نہیں! اس نے جو بھی کیا کیمرے کی نظروں کے سامنے کیا۔ اس نے سفر حج کی تکالیف و مشقتوں کو خلوص دل سے صبر و شکر اور تسلیم و رضا کے ساتھ کچھ اس طرح نبھایا کہ یہ اپنا کھانا اور پینا بھول جاتا لیکن اپنے کاندھوں پر پاور بینک، چارجر اور سیلفی اسٹک لادنا کبھی نہ بھولتا۔
ارکان حج کی ادائیگی کے دوران بھی یہ “فریضہ سیلفی” سے کبھی غافل نہیں رہا- منی کے خیموں سے لے کر وادی عرفات کے روحانی مناظر تک ہر جگہ پوری طرح مستعد رہا۔
وقوف عرفہ میں مناجات و استغفار الہی میں ڈوب کر اپنی عبادات و ریاضات کو لمحہ در لمحہ کیمرہ سے مخفی نہیں رکھا۔ آخر کو ان کا اور کیمرے کا میاں اور جورو کا جو ساتھ ہے۔
منی، عرفات، مزدلفہ، جمرات کا ذرہ ذرہ، چشم فلک، یہ روئے زمیں، تا قیامت ان کے ولاگس اور سیلفیوں کی گواہ ہوں گی کہ اللہ تیرے بندوں میں ایسا جیالا بھی گذرا ہے۔
حاجی ساب کے تمام ارکان حج بھی بڑے ہی خشوع و خضوع کے ساتھ کیمرہ پکڑے پکڑے مکمل ہوچکے ہیں۔
ساتھ ہی تمام دوست و احباب اعزّہ و اقارب کو اپنی زاہدانہ تصاویر و ویڈیوز بھی اپ ڈیٹ کرتے جارہے ہیں کہ اب وہ آدھے ادھورے نہیں بلکہ پورے پکّے والی حاجی ساب بن چکے ہیں۔
اور اب باری آئی ہے مونڈن والی تصاویر کی۔ جلد از جلد انھیں بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے وہ چوکنا نہیں چاہتے۔ ہمّت سے کام لینا کوئی ان سے سیکھے۔ اور جسے اپنی دیدہ عبرت کو مہمیز دینا ہو وہ سوشل میڈیا اور اس کے کارندوں کی جہد مسلسل پر ایک نظر ڈال لے۔ یہ سوشل میڈیائی دنیا ہم جیسی کاہل تھوڑے ہی ہے ہر وقت زبان کی طرح چلتی رہتی ہے۔
نئے زمانے کی چیز ہے نئے لوگوں کے لیے ہے۔ اسی لیے یہ کبھی بلیک این وائٹ ٹیلی ویژن کی طرح گھر گھراکر بند بھی نہیں پڑتی۔ ذرائع ابلاغ کا اتنا بڑا پلیٹ فارم، آخر کو ہمارا بھی اس پر کچھ حق بنتا ہے کہ نہیں؟ یوں بھی اپنے حاجی ساب حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں کوتاہی کیسے کرسکتے ہیں؟
اپنے سوشل میڈیائی فالورز (ہاں ہاں وہی دوست و احباب جو ہمیں کھدیڑتے رہتے ہیں اور ہم بھاگتے رہتے ہیں) کے لیے بھی اپنی سفر حج کی تصاویر پل پل اپ لوڈ کرتے رہے کیونکہ ان ہزاروں خیرخواہوں سے ہاتھ بھر بھر دعائیں بھی تو سمیٹنی تھیں اور انھیں اپنی ان دعاؤں کا واسطہ بھی تو دینا تھا جو دعائیں ہمارے حاجی ساب نے سیلفی کے چکر میں کبھی مانگی ہی نہیں۔
پھر جمرات پر ناہنجار، مردود و ملعون ابلیس کو مارنے کے لیے جو کنکریاں انھوں نے اپنے ہاتھ میں اٹھا رکھی تھیں اس سامان عبرت کو بھی انھوں نے کیمرے میں قید کر، اپنے ایمان کو ہمیشہ تازہ دم رکھنے کا اہتمام کر ڈالا۔
اور بالآخر حاجی ساب بخیر و عافیت اپنے ہوٹل پہنچ چکے ہیں۔ زبان پر اللہ کی تسبیح و تحمید ہے اور انگلیاں فون پر منڈلا رہی ہیں، نگاہیں میز پر سجی انواع و اقسام کے ناشتوں پر گڑی ہوئی ہیں اور چہرے پر ایک طمانیت پھیلی ہوئی ہے کہ الحمدللہ میرا “مشن سیلفی” آج مکمل ہوا۔

4
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

بہترین سیٹائیر۔ دینی سوچ والوں کے لئے بہت عمدہ ادبی تحریر۔ مبارک ہو سسٹر۔

ام ھشام

جزاکم اللہ خیرا

Habibullah Khan

ھھھھ ماشاء اللہ کیاخوب ترجمانی ہے!!

عبداللہ ادیب رحمانی

بقول علامہ اقبالؒ ؎
گنوادی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا

اللہ رب العالمین ہم تمام لوگوں اس برائی سے محفوظ رکھے
کیونکہ یہ برائی ہمارے اندر اس قدر گھر کرگئی ہے کہ اس سے چھٹکارہ مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن سا نظر آتا ہے

اللہ رب العزت آپ کے علم و عمل میں برکت دے آمین