طویلے کا راستہ

بیلن بلرامپوری ادبیات

آج بیگم مجھ سے بولیں کہ چلیے تھوڑی دیر کے لیے باہر گھوم آتے ہیں گھر میں بیٹھے بیٹھے اکتاہٹ ہورہی ہے۔ میں نے کہا ممبرا میں ایک پہاڑ ہی ہیں، اور کہاں گھوم سکتے ہیں؟ اور وہاں بھی اگر کہیں ہم دونوں کو تنہا کسی نے دیکھ لیا اور پولیس کو خبر کردی تو یہ ثابت کرنے تک کہ ہم دونوں میاں بیوی ہیں چار ہفتے حوالات میں کٹ جائیں گے۔ بیگم نے کہا کہ نہیں جانا ہے تو صاف بول دیں بہانہ بنانے کی ضرورت کیا ہے؟ اور پھر وہی حسب روایت گھسا پٹا ڈائیلاگ کہ مجھے کبھی آپ اپنے ساتھ لے گئے ہیں جو آج لے جائیں گے۔ میں نے کہا بیگم ایک بار آپ کو ساتھ لانے کی خطا مجھ سے سرزد ہوچکی ہے اور آج تک اپنے اس فیصلے پر کف افسوس مل رہا ہوں۔
میری بات سن کر بیگم بھڑک اٹھیں اور منہ بناتے ہوئے سیدھا بیڈ روم میں چلی گئیں۔ میں یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ میری بیگم کھانا بہت اچھا بناتی ہیں لیکن منہ اس سے بھی زیادہ اچھا بنا لیتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ منہ سازی کا اگر عالمی مقابلہ کبھی ہوا تو بیگم کو پہلی پوزیشن سے ہٹانے میں بہت سی خواتین کے پسینے چھوٹ جائیں گے۔
بہر کیف میں بھی مسکراہٹ بالجبر کے ساتھ ان کے پیچھے گیا اور بولا کہ بیگم میں آپ کا اکلوتا کامگار شوہر ہوں، مجال ہے کہ میری موجودگی میں آپ نے کبھی برتن یا کپڑا دھویا ہو، صاف صفائی اور جھاڑو تک کی بھی ذمے داری میں بخوبی نبھاتا ہوں پھر بھی جب دیکھو تھوڑی تھوڑی بات پر آپ ہمیشہ تنک اٹھتی ہیں کیا میرا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ میں آپ کے ساتھ ہنسی مذاق کی نیت سے دو لفظ بول سکوں اور پھر نجی تجربات کی مدد سے کچھ ہی منٹوں میں انھیں ساتھ چلنے پر راضی کرلیا۔

دروازے پہ پہنچ کر جیسے ہی میں نے بائیک کی چابی اٹھائی بیگم نے کہا کہ آج پیدل چلیں گے۔ میں نے کہا کہ اس طرح تو آپ تھک جائیں گی اور آپ کے پیر دکھنے لگیں گے جس پر فورا پلٹ کر انھوں نے کہا کہ رات میں آپ کو کام ہی کیا ہے؟ کچھ اور تو کر نہیں سکتے تو کیا پاؤں بھی نہیں دبا سکتے؟ میں نے سوچا کہ بیگم کہیں میری اور کوئی پول نہ کھول دیں اس لیے فورا ہی بول پڑا کہ یہ تو میری خوش بختی ہوگی اور ویسے بھی ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اب میری ماں تو ہے نہیں تو کم از کم بچوں کی ماں کا پاؤں داب کر ہی جنت کا مستحق بن جاؤں۔ اور پھر بادل نخواستہ ان کو لے کر گھر کے دروازے سے نکل گیا۔

ہم دونوں ابھی چند ہی قدم چلے تھے کہ راستے میں ایک طبیلے سے ہمارا گزر ہوا، اچانک میری نظر ایک کم سن بھینس پر پڑی اور برسوں پہلے سگار لکھنوی کا مصرعہ جو ذہن سے محو ہو چکا تھا وہ یکلخت یاد آگیا اور فرط مسرت سے وہ مصرعہ زور سے گنگنا بھی دیا۔

اللہ وہی آنکھیں، وہی رنگ، وہی جسم
یہ بھینس تو بالکل میرے دلبر کی طرح ہے

اس درمیان مجھے یہ بالکل دھیان نہیں رہا کہ بیگم بھی ساتھ میں ہیں اور جب تک دھیان آتا کافی دیر ہوچکی تھی۔ بیگم اس وقت تک آتش فشاں پہاڑ کی طرح دہک رہی تھیں، ان کے چہرے پر شعلے برس رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں چنگاریاں چمک رہی تھیں۔ میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بیگم یہ ایک بڈھے کھوسٹ اور دل جلے شاعر کا مصرعہ ہے میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور اگر آپ کی اس مصرعے سے کوئی مماثلت ہے تو وہ محض اتفاق ہے اور ویسے بھی میں نے دلبر پڑھا ہے بیگم نہیں، لیکن میری فریاد کا بیگم پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ فورا گھر کی طرف پلٹ گئیں۔ وہ اتنے طیش میں تھیں کہ راستہ پار کرتے ہوئے ایک ٹرک کے نیچے آتے آتے بچیں، میں نے ڈرائیور کو ایک طمانچہ رسید کیا اور اس کے کان کے قریب جاکر خاموشی سے بولا کہ بیوقوف ایمرجنسی بریک مارنے کی ضرورت کیا تھی؟ ہاتھ آیا ہوا ایک عمدہ موقع تیری وجہ سے آج ضائع ہوگیا۔
بیگم کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک وہیں کھڑا سگار لکھنوی کو کوستا رہا کہ آپ تو اس دنیا سے چلے گئے لیکن ہم کو پھنسا کر گئے آخر۔۔۔

آپ نے ایسا شعر کیوں لکھا
ہم جسے گنگنا نہیں سکتے

بیگم کے جارحانہ تیور کو دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے گھر جانے کا مطلب خود کو ہلاکت میں ڈالنا تھا اور ابھی تو داہنا بازو بھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا ہے ایسے میں کوئی اور خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے اپنا قدم قریب کے ایک ہوٹل کی طرف بڑھا دیا وہاں پہنچ کر چائے کا آرڈر دیا اور اس درمیان بیلن سے اپنے بچنے کی ہر ممکن تدبیر سوچتا رہا۔ لاوے کی طرح ابلتے ہوئے بیگم کے غصے کو کیسے شانت کیا جائے؟ ابھی اسی فکر میں غلطاں ہی تھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی فون میرے بیٹے کا تھا پوچھنے لگا کہ ابو آپ کہاں ہیں؟ فورا گھر پہ آجائیں، جانتے ہوئے بھی میں انجان بنا رہا ہے اور پوچھا کہ کیا بات ہے امی کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ بچہ بولا کہ طبیعت تو ٹھیک لگ رہی ہے لیکن مزاج ٹھیک نہیں لگ رہا ہے نہ جانے کیوں امی بری طرح بپھری ہوئی ہیں، کچن کے برتنوں پہ جو بیت رہی ہے وہ تو بیت ہی رہی ہے ہم لوگوں کی بھی شامت آسکتی ہے اور پھر اس نے مزید بتایا کہ کس طرح برخوردار حافظ جی کو بغیر غلطی کے دو طمانچہ رسید کرچکی ہیں۔ یہ سنتے ہی میں پسینے میں شرابور ہوگیا، پورے بدن میں کپکپاہٹ طاری ہوگئی اور یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ اگر حافظ جی بغیر غلطی کے پٹ رہے ہیں تو میں نے تو غلطی کی ہے۔
بالآخر بچوں کی حفاظت کی خاطر میں نے گھر جانے کا فیصلہ کیا لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ “کوشش کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا” راستے میں ہی میرے ذہن میں ایک اور ترکیب سوجھی جس پر عمل کرتے ہوئے میں نے بچوں کی نانی کو فون لگایا۔ علیک سلیک کے بعد میں نے بتایا کہ بیگم کی طبیعت ان دنوں ٹھیک نہیں رہتی ہے کھانا پینا بھی اتنا کم ہوگیا ہے کہ دس روٹی سے زیادہ نہیں کھا پاتی ہیں، وزن میں گرچہ ابھی تک کوئی گراوٹ محسوس نہیں کی گئی ہے لیکن نقاہت اور کمزوری اس قدر ہے کہ زیادہ تر وقت بستر پر ہی آرام فرماتی ہیں۔ کمر اور گھٹنے کے درد نے اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ صرف مارکیٹنگ کے لیے ہی گھر سے نکل پاتی ہیں اور تو اور میں نے جب انھیں یہ بتایا کہ آج تو وہ ٹرک کے نیچے آتے آتے بچی ہیں تو ساس کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور سسکیوں کے درمیان انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں آرہی ہوں اور یہ کہہ کر فون کاٹ دیا۔ میں نے فورا ہی بچے کو فون لگایا اور بولا کہ فون ہینڈ فری کرکے اتنی دوری سے بات کرو کہ میری آواز بیگم کے کانوں سے ٹکرائے اور اگر میری نہیں تو کم از کم تمھاری آواز ان تک ضرور پہنچے۔ بچے نے حکم کی جیسے ہی تعمیل کی، میں نے اپنی گفتگو شروع کی اور بولا کہ امی کے میکے سے فون آیا تھا کہ نانی کی طبیعت بہت خراب ہے بچے نے دوبارہ بلند آواز سے پوچھا کس کی طبیعت؟ نانی کی؟ میں نے کہا جی ہاں لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے میں نے نانی کو گھر آنے کو کہا ہے۔ بچہ پوری بات سننے کے باوجود بھی انجان بنا رہا اور دوبارہ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو آپ کی آواز برابر سنائی نہیں دے رہی ہے آپ کیا بول رہے ہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے اس نے پھر پوچھا کہ کیا نانی کی طبیعت خراب ہے؟ در اصل بچے کو نانی کی طبیعت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا وہ تو بس یہ چاہ رہا تھا کہ کسی طرح سے نانی کی آمد کا پتہ امی کو چل جائے اور جیسے ہی اس کو لگا کہ اس کی آواز امی کے کانوں تک پہنچ چکی ہے اس نے فون ڈسکنکٹ کردیا۔

تھوڑی دیر بعد پھر موبائیل کی گھنٹی بجی اس بار فون بیگم کا تھا کچھ دیر کے لیے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا کروں پھر ہمت جٹاکر میں نے فون ریسیو کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن دہشت کی وجہ سے ہاتھ میں جو کپکپاہٹ تھی انگلی گرین کے بجائے ریڈ بٹن پر چلی گئی اور اس طرح فون کٹ گیا۔ فورا ہی میں نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے بیگم کو فون لگایا اور جیسے ہی الو کی آواز سنائی دی میں نے بھرائی ہوئی آواز میں سلام کیا۔ خلاف توقع جب بیگم نے سلام کا جواب نہایت سنجیدگی سے دیا تب جان میں جان آئی۔ بیگم کے مزاج کی نرمی محسوس کرتے ہوئے میں نے فورا ہی سسرال جانے کی پیشکش کردی اور ان سے کہا کہ بیمار ماں کے آنے کے بجائے کیوں نہ ہم لوگ ہی وہاں چلے جائیں اور پھر اسی بات پر متفقہ فیصلہ ہوگیا (بیگم کا فیصلہ ہی ہمارے یہاں متفقہ ہے) میں نے وقت ضائع کیے بغیر سسرال میں فون کرکے ساس کو بیگم کی آمد کی خبر کردی اور خود انھیں آنے سے منع کر دیا کیونکہ میں نہیں چاہ رہا تھا کہ ایک مصیبت سے بچنے کے لیے دوسری مصیبت گلے میں لٹکالوں۔
تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں بائیک پر سوار ہوکر سوئے سسرال روانہ ہوگئے لیکن اس بار جان بوجھ کر میں طبیلے کے راستے سے نہیں گزرا۔

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
Hashim Khaj

بہت عمدہ

ہلال ہدایت

Hahabhahaha
ہنس ہنس کر پیٹ درد کرنے لگا
واہ کیا کہنے ہیں بیلن کے.

عبداللہ ادیب رحمانی

بیلن جی کیا کہنے ہیں

طبیلے کو دیکھنے کے بعد اب راستہ ضرور بدل دینگے امید ہے

صفی الرحمن سلفی

الو کی آواز ۔۔۔۔۔۔

اس پر حرکت لگا کے میں نے پڑھ لیا ہے کیونکہ آپ کے سامنے بیگم کی آواز تھی

ضمہ بر الف ۔ واو ساکن مع تشدید اللام والضمہ

محمد وسیم راعين

بہت عمدہ