ہم اپنے بچّوں کے لیے کس قسم کے ڈاکٹرز، دایہ اور اساتذہ کا انتخاب کرنا پسند کرتے ہیں؟
بہتر سے بہترین کیونکہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ کمزور دایہ ہمارے بچّوں کے لیے طبّی نقطہ نظر سے خطرے سے خالی نہیں۔ ایک جھولا چھاپ ڈاکٹر ہمارے بچے کی جان سے کھیل سکتا ہے۔ ایک غیر معیاری استاد نہ صرف ہمارے بچوں کی فطری صلاحیت کو موت کی نیند سلاسکتا ہے بلکہ اسے ذہنی طور پر معذور بھی کرسکتا ہے اس لیے ہم ہمیشہ اپنے بچوں کے لیے بیسٹ آف دا بیسٹ ڈھونڈتے ہیں۔
بات جہاں دنیا کے سبھی بچوں کی ہورہی ہے تو پھر میری نظر میں دنیا کے سب سے اشرف ترین بچے مدارس اسلامیہ کے بچے ہیں۔
اعلائے کلمة اللہ کے ان علمبرداروں کے بارے میں بھی بات کرلی جائے کہ ہائے یہ وہ معصوم بچے ہیں جنھیں مدارس میں داخل کرنے کے بعد والدین لاولد اور بچے یتیم سے ہوجاتے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں، معمولی معمولی سی غلطیوں پر نگراں کا بچوں کے کسے ہوئے جسم پر درجنوں چھڑیاں توڑ دینا تربیت کا سب سے اہم حصہ مانا جاتا ہے۔
بچوں کی کمزوری اور کمیوں کی اصلاح حکمت و تدبر سے پوری کرنے کے بجائے اسے ڈنڈے کے زور پر درست کرنے کی آئیڈیالوجی برتی جاتی ہے۔ کسی ایک طالب علم کو اجتماعی طنز و تضحیک کا نشانہ بنانا اور آئے دن اپنے اندر موجود غم و غصہ کو بچوں پر تمام کردینا نگراں اور ذمہ داروں کی ایک عام سی عادت بن چکی ہے۔
جامعات اور اقامتی اداروں میں ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کی جو سب سے بڑی اور ظاہری وجہ راقم کی سمجھ میں آئی وہ یہ کہ عموما اداروں میں بطور نگراں و ذمہ دار ایسے لوگوں کا تقرر کیا جاتا ہے جو فارغ، بیزار، بیمار یا زمانے کے ستائے ہوتے ہیں۔ جو اپنی فیملی سے الگ ہوچکا ہو اسے مدرسہ بچوں کو سنبھالنے پر لگادیتا ہے۔ میرا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بیمار کسی کمزور کو سنبھال سکتا ہے؟ اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں بحسن وخوبی ادا کرسکتا ہے؟
یہاں بیمار وہ بد اخلاق اور خوف خدا سے عاری لوگ ہیں جو طالبان علوم نبوت کو اپنی ملکیت سمجھ کر ہر ممکن استحصال کرتے پائے جاتے ہیں۔ اور کمزور ہمارے وہ بچے ہیں جنھیں ہم اللہ کی راہ میں وقف کرتے ہیں اور ایسے لاپرواہ ہاتھوں میں سونپ آتے ہیں جہاں بچہ ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے۔
اور پھر دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں سے ہی بدتمیز اور غبی بچوں کے دماغ ٹھکانے لائے جاتے ہیں۔ ایک بیمار دوسرے کمزور کا خیال کبھی نہیں رکھ سکتا۔ ہاں یہ ضرور یاد رکھنے کی بات ہے کہ بیمار کون ہے اور کمزور کون؟
یہ میرا “صرف” سوال ہے کیا یہ مناسب ہے کہ عربی مدارس کے ہاسٹل میں نگراں یا بطور وارڈن ان لوگوں کا تقرر کیا جائے جنھیں خود ایک نفسیاتی معالج کی ضرورت ہوتی ہے۔
یا جو لوگ خود جسمانی یا ذہنی طور پر بیمار ہیں اور جنھیں خود توجہ، محبت اور علاج کی ضرورت ہے ایسے لوگوں کو طلباء و طالبات کا نگراں مقرر کردینا کیسا ہے؟
معاشرے کے ظلم و ستم کا شکار بن چکے لوگوں کو ذمہ داری دینا، بچوں کے سر پر تلوار لٹکانے کے مترادف ہے۔کیونکہ ایسے فرسٹریٹ اور ڈیپریسڈ لوگ ہی معصوم بچوں پر اپنا غم و غصہ نکالتے ہیں۔ بار بار جھڑک کر ڈانٹ کر ان کی عزت نفس کو روندتے ہیں۔ لہذا اہل مدارس کو ٹھیک ٹھاک طریقے سے اپنے تقرری کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر جو کچھ ہورہا یے اس کا نتیجہ جگ ظاہر ہے۔ ایسے اساتذہ یا نگراں کے زیر سایہ کامیاب، صالح و ہونہار طلباء نہیں بلکہ جنگجو ٹائپ، بد اخلاق اور اکھڑ مزاج لڑکے لڑکیوں کی کھیپ نکلتی ہے جو سماج میں تخریب کاری کو کافی ہوتے ہیں۔
گویا ڈاکٹر کے ہاتھ میں مسیحائی کی خاطر کسی نے بڑھئی کی آری پکڑادی ہو۔ اب شاید بہت سے لوگ یہ کہتے پائے جائیں کہ معمر اور بے سہارا لوگوں کو ذمہ دار بنانے کا مقصد ان کا مالی تعاون ہے۔
یہاں بھی میرا ان سے سوال ہے کہ خدمت خلق کا سب سے بڑا میدان اسی شعبہ میں مارنا ہے؟
لازمی ہے کہ پر تشدد، کرخت قسم کے ذہنی اور نفسیاتی بیمار اساتذہ کو طلباء کے لیے اپوائنٹ کیا جائے؟ اور طلباء کے طریقہ تعلیم و تدریس میں تشدد کا سہارا لیا جائے؟
آپ الگ سے رفاہی تنظیم بنائیں اور بے سہارا ضعیف العمر معلمین و معلمات کا تعاون کریں۔ آپ کے تعاون کے چکر میں نہ جانے کتنے طلباء و طالبات کا مستقبل، ان کی عزت نفس، ان کا اعتماد و وقار ان کی اٹھان داؤ پر لگ چکے ہیں اور مزید کتنوں کا خون ہونا ابھی باقی ہے۔
نصیحت کی باتیں بڑے ڈھب سے کہی گئیں اللہ سمجھ دے
میں آپ کی باتوں سے متفق مزید تبصرہ کی ضرورت ہے اور کھل کر لکھنے کی بھی ضرورت ہے الله مدارس علمیہ کے ذمہ داران کو صحیح سمجھ دے جو بچوں کے حق میں بہتر ہو۔۔۔ آمین