مجھے پتا ہے کہ پتھر سے مارا جاؤں گا

عبدالکریم شاد شعروسخن

مجھے پتا ہے کہ پتھر سے مارا جاؤں گا

میں آئینہ ہوں تو پھر عکس تو دکھاؤں گا


میں اپنے ظرف کو اس طرح آزماؤں گا

ہوا کی راہ میں کوئی دیا جلاؤں گا


مخالفین کو میرے کوئی خبر کر دے

“چلا گیا تو کبھی لوٹ کر نہ آؤں گا”


تو اپنے من کو گمانوں سے پاک کر پہلے

پھر اپنے دل کی حقیقت تجھے بتاؤں گا


مجھے خبر ہے سبھی تالیاں بجائیں گے

میں اپنے غم کی اگر داستاں سناؤں گا


میں اس کے طرز تغافل سے ہوں خفا لیکن

وہ ہنس کے دیکھ بھی لے گا تو مان جاؤں گا


یہ کہہ کے باپ کو بہلا رہا ہے اک بچہ

کرو نہ فکر بڑا ہو کے میں کماؤں گا


بھٹک گیا ہوں مگر حوصلہ سلامت ہے

میں پھر یہیں سے نیا راستا بناؤں گا


تمھارا نام یقینا رہے گا لب پہ مرے

کبھی دعا کے لیے ہاتھ جب اٹھاؤں گا


حسین بن کے لبھانا بہت ہوا بس کر

میں اب کی بار تری چال میں نہ آؤں گا


تمھارے ظلم کی کشتی ضرور ڈوبے گی

میں آنسوؤں کے بجائے لہو بہاؤں گا


بھرم رکھوں گا میں اپنے وجود کا اے شاد!

نہ ہو اثر نہ سہی شور تو مچاؤں گا

آپ کے تبصرے

3000