ایک امید بندھی رہتی ہے ہر گام کے ساتھ

عبدالکریم شاد شعروسخن

ایک امید بندھی رہتی ہے ہر گام کے ساتھ

ایک آغاز لگا رہتا ہے انجام کے ساتھ


خوش بھی ہوتے نہ بنے غم بھی مناتے نہ بنے

زہر کچھ ایسا پلایا ہے مجھے جام کے ساتھ


ایسا لگتا ہے بناتی ہے غزل اپنی زمین

“جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ”


سانس لیتے ہیں مگر زندہ نہیں رہتے ہم

یعنی پرواز تو کرتے ہیں مگر دام کے ساتھ


ڈوبتا دیکھ کے سورج کو پریشان نہ ہو

آئیں گے چاند ستارے بھی اسی شام کے ساتھ


ہر خوشی میرے تغافل کا گلہ کرتی ہے

پیش آتا ہوں میں اس طرح سے آلام کے ساتھ


یہ جو ہر بار اسے ملتی ہے نا کامی شاد!

کام یابی کا کوئی عہد ہے نا کام کے ساتھ

آپ کے تبصرے

3000