٢٥ اکتوبر ٢٠١٩ کو اکانامکس ٹائمز (انٹرنیٹ ورژن) میں چھپی خبر کے مطابق امیزن کے مالک جیف بیزوس اب دنیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں اول نہیں رہے۔ مائکروسافٹ کے مالک بلک گیٹس نے انہیں دوسرے نمبر پر ڈھکیل دیا ہے۔
گرچہ میرا آخری جملہ اردو زبان کے مطابق درست ہے، لیکن واقعہ کے مطابق اس جملہ میں خبر تو صحیح ہے لیکن مبتدا غلط ہے۔ وہ یہ کہ گرچہ بل گیٹس اب اول امیر ترین شخص بن گئے ہیں لیکن اس میں ان کا کچھ دخل نہیں ہے، کیوںکہ ان کی کل جائداد اب بھی اتنی ہے جتنی اس خبر سے پہلے تھی۔
تو اس خبر کا اصل مبتدا (یعنی جیف بیزوس کو دوسرے نمبر پر لے جانے والا سبب) کچھ اور ہے۔ اور یہ سبب ہم مسلمانوں کے لئے ایک سبق، ایک اطمینان، ایک سکون رکھتا ہے۔
وہ سبب یہ ہے کہ جیف بیزوس کی کمپنی امیزن کے شیئرز کی قیمت ٧٪ کم ہو گئی ہے۔ جس سے ان کی کل جائداد میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ مثلا امیزن کے ایک شیئر کی قیمت ١٠٠ روپئے تھی، اور جیف بیزوس کے پاس کل ١٠٠٠ شیئرز تھے۔ یعنی ان کے پاس ١٠٠،٠٠٠ روپئے تھے۔ لیکن شیئر کی قیمت ٧٪ کمی کے بعد ٩٣ روپئے ہو گئی، تو اب ١٠٠٠ شیئرز کے صرف ٩٣،٠٠٠ روپئے ہوئے۔
عام انسان جب اپنی جمع پونجی گنتا ہے تو وہ اصل پیسے گنتا ہے، مجازی نہیں۔ لیکن معاشیات میں جب کسی کی قیمت لگائی جاتی ہے تو اس میں ایک بڑا، بہت بڑا حصہ مجازی جائداد کا ہوتا ہے۔ مجازی جائداد یعنی وہ جو کاغذوں پر تو ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ حقیقت میں بھی ہو۔
ممکن ہے ماہرینِ معاشیات کی اکثریت اس سے متفق نہ ہو، اور بضد ہو کہ یہ مجازی جائداد بھی حقیقی ہی ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ یہ مجازی عدد کبھی حقیقی عدد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جب بھی اس مجازی کو حقیقی میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اس شیئر کی قیمت گرنے لگے گی۔ اور صاحبِ حصص کو حقیقتاً اتنی رقم نہیں ملے گی جو مجازاً نظر آ رہی ہے۔
جن کا پاسپورٹ نہیں بنا ہے وہ انل امبانی کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ٢٠٠٧ میں انل امبانی ٤٥ بلین ڈالرز کے مالک تھے (بلین یعنی عدد کے بعد ٩ صفر)۔ جبکہ ٢٠١٩ میں ان کے پاس ٢ بلین ڈالرز بھی نہیں رہے۔ یعنی ١٣ سالوں میں ہر دن تقریباً ١٠ ملین ڈالرز (٧٠ کروڑ روپئے) کی کمی۔ ایسا نہیں کہ انہوں نے پانی کی طرح پیسے بہائے۔ لیکن وہی بات کہ وہ عدد ٢٠٠٧ میں (بھی) مجازی تھا۔ اور ٢٠١٩ میں بھی (اس کا بیشتر حصہ) مجازی ہی ہے۔
انشا جی تو پہلے ہی کہہ گئے ہیں:
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
ہمیں یاد ہے کہ اوپر ہم نے مسلمانوں کے لئے ایک سبق، ایک اطمینان، ایک سکون کی بات کہی تھی۔ تو وہ یہ کہ قرآن کی بیشتر آیتیں اس موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلا:
اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا لَعِبٌ وَّلَهۡوٌ وَّزِيۡنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيۡنَكُمۡ وَتَكَاثُرٌ فِى الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَوۡلَادِؕ كَمَثَلِ غَيۡثٍ اَعۡجَبَ الۡكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيۡجُ فَتَرٰٮهُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ يَكُوۡنُ حُطٰمًاؕ وَفِى الۡاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ۙ وَّمَغۡفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانٌؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾
خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال واوﻻد میں ایک کا دوسرے سے اپنے آپ کو زیاده بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وه خشک ہو جاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وه بالکل چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی تو نہیں۔ (سورہ حدید، آیت ٢٠)
دیکھئے، قرآن نے کیا نقشہ کھینچا ہے۔ کیا صاحبِ حصص کی حالت بالکل اس کسان جیسی نہیں ہے جو اپنی کھیتی کو دیکھ کر خوش ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن ایک دن وہی ہری بھری کھیتی زرد ہونے لگتی ہے اور دھیرے دھیرے ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور متلاشی وہاں آتا ہے اور اللہ کے سوا وہاں کچھ نہیں پاتا۔
تو، یہ دنیا کی کامیابی (؟) تو ایک دھوکہ کا سامان ہے۔ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴿١٨٥﴾
ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وه کامیاب ہوگیا، اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔ (سورہ آل عمران، آیت ١٨٥)
یاد رکھئے! یہ دنیا خود منزل نہیں، بلکہ کسی منزل کا راستہ ہے۔ منزل تو آخرت ہے۔
یہ جو دنیا ہے جیل خانہ ہے
اک نہ اک دن یہاں سے جانا ہے
اک ٹھکانے کا راستہ ہے یہ
نہ کہ خود آپ ہی ٹھکانہ ہے
(شوکتؔ پرویز)
ہم یہاں رہبانیت کی دعوت قطعی نہیں دے رہے۔ ہماری دعوت صرف اتنی ہے کہ ان نمبروں سے مرعوب نہ ہوا جائے۔ اور نہ ان کے حصول کے لئے آخرت قربان کر دی جائے۔
بلکہ اللہ پر توکل اور بساط بھر کوشش کرتے ہوئے جتنی دنیا ملے اسے ضرور لیں، لیکن صرف ہاتھوں تک۔ اسے دل میں نہ بسائیں۔
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٧٧﴾
اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے۔ (سور قصص، آیت ٧٧)
آپ کے تبصرے