“متشاعرہ”

فوزیہ ردا اختر ادبیات

مونا وہاب ایک ایسی فنکارہ تھی جس نے بہت کم دنوں میں ادب میں اپنی ایک شناخت اور پہچان بنائی تھی- اپنی تحریری صلاحیت کی بنا پر وہ اس فیلڈ میں اپنے پیر جمانا چاہتی تھی۔ لیکن وہ ان شاعرات میں سے نہیں تھی جو صرف اپنی خوبصورتی، ترنم اور مدھر آواز کا جادو جگا کر سامعین کی داد بٹورتی تھی اور نہ ہی اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنے استادوں سے اپنا کلام لکھوا کر مشاعروں میں اس کے پیسے وصولتے تھے۔ مونا شاعری میں اپنے جذبات و احساسات کا ذکر کرتی اور ان خیالات کو اس کے استاد بہترین شکل میں ڈھال دیا کرتے تھے۔ اس کے اشعار میں اس کی اپنی فکر کی خوشبو رچی ہوتی تھی۔ کچھ ہی عرصے میں اپنے شعری ذوق کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بھی مونا کافی مشہور ہو گئی- مونا نے ابھی تک فیس بک پر اپنی ایک بھی تصویر اپلوڈ نہیں کی تھی- تاکہ لوگ اس کی خوبصورتی دیکھ کر اس کے کلام کی بے جا تعریف نہ کریں- وہ لوگوں میں صرف اپنے فن کو منوانا چاہتی تھی۔ کچھ دوست اس کے کلام کی پختگی اور سادگی کو دیکھ کر اسے بڑی عمر کا خیال کرتے تھے- شعری سفر کے پانچ سال گذر جانے کے بعد مونا کو اس کے استاد نے مشورہ دیا کہ اب وہ ایک اچھی شاعرہ بن گئی ہے اور اب اسے بھی دوسری شاعرات کی طرح اپنی تصویر سوشل میڈیا پر لگانی چاہیے اور پورے اعتماد کے ساتھ اپنا کلام پوسٹ کرنا چاہیے۔ مونا کے ذہن نے بھی اس بات کو بخوبی قبول کر لیا- اس کی تصاویر دیکھ کر ایک طرف اس کے احباب اور فالورز بہت خوش ہوئے تو دوسری طرف اس کی کم عمری پر حیرت کا اظہار بھی کیا اور اس کے فکر و فن کی تعریف کی۔ کچھ نقادوں اور تبصرہ نگاروں نے اس کی شاعری پر اپنے مثبت تاثرات کا اظہار بھی کیا۔ ان چھ سالوں میں مونا کی تخلیقات اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہی تھیں- ریڈیو پر بھی اس کے کلام پڑھے گئے- اپنے شہر کے مشاعروں اور نشستوں میں بھی اسے مدعو کیا جانے لگا-

مونا اپنے تخیل میں مگن اپنا شعری سفر اسی طرح طے کر رہی تھی کہ ایک دن اس کی نظر فیس بک پر ایک پوسٹ پر پڑی- اسے پڑھ کر مونا تقریبا سکتے میں آ گئی- اسے اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوئی۔ وہ پوسٹ کسی سبیل احمد کی آئی ڈی سے کچھ لوگوں کو ٹیگ کی گئی تھی جس میں مونا وہاب کی فنی کمزوریوں اور فکری بے راہروی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے کلام کی خامیوں کا مذاق بنا کر اس کی ادبی شخصیت کو مجروح کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی۔ اس کے سر پر ایک سے زائد تخلص استعمال کرنے کا الزام تھا- اس کے کسی شعر میں قافیہ موجود نہ ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا اور اسے ایک متشاعرہ کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا- سبیل احمد نے اس کے دل کو بے پناہ ٹھیس پہنچائی تھی۔ اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد مونا بہت غمگین رہنے لگی۔ وہ فیس بک پر بھی اپنے دوستوں سے بات کرنے میں کترانے لگی۔ اسے ہر لمحہ یہی فکر لاحق رہتی کہ سب اسے ایک نا اہل شاعرہ سمجھتے ہوں گے۔ اس کی خود اعتمادی متزلزل ہونے لگی۔ لیکن اس آزمائشی دور میں اس کے بیشتر دوست اور رشتہ داروں نے اس کی ہمت بندھانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسے اپنا ادبی سفر پہلے کی طرح جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے سبیل احمد کو خوب لعن طعن کیا۔ لیکن سبیل احمد کا نہ کوئی رابطہ نمبر تھا اور نہ ہی اس کی کوئی تصویر فیس بک پر تھی- اس شخص کی پہچان مشکوک تھی- سوشل میڈیا پر مونا کو اسے بلاک کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ پتہ نہیں کس کی سازش کا شکار بنی تھی۔ نجانے کتنے ہم عصر شعرا و شاعرات اس کے فن کے حاسد اور اس کی راہ کے کانٹے بن گئے تھے۔
بہرحال وقت ہر زخم بھر دیتا ہے۔ کچھ ماہ کے بعد مونا بھی اس واقعہ کو بھول گئی۔ اپنی فیملی اور دوستوں کے درمیان بہت سا وقت گذارنے کے بعد اب وہ خود کو پہلے کی طرح تر و تازہ محسوس کرنے لگی تھی۔ پھر سے اسے قدرت کی رعنائیوں میں کھو جانے کو جی چاہتا- وہ جب بھی بادلوں کو دیکھتی، اس کے ذہن میں تخیلات کی بارش ہونے لگتی- اس کا دل ان خوشگوار احساسات کو کاغذ پر اتارنے کے لیے مچلنے لگتا۔ آخر ایک شام اس نے اپنی وہی پرانی ڈائری نکال لی جو اس کی تنہائی کی رازدار تھی۔ قلم اس کے ہاتھوں میں تھا اور اس کے ذہن میں بے شمار باتیں تھی جسے وہ اشعار کی صورت کاغذ پر بکھیرنا چاہتی تھی۔ جیسے ہی اس نے پہلا لفظ لکھنا چاہا اس کے ذہن میں اچانک ایک لفظ چیخ چیخ کر اپنا احساس دلانے لگا۔۔۔ متشاعرہ۔۔۔ متشاعرہ۔۔۔

آپ کے تبصرے

3000