چادر چوڑ

اسرارالحق جیلانی ادبیات

میرے گاؤں کا ایک ہونہار لڑکا قمرالدین ابھی چند ہی روز قبل اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا تھا- حسب روایت گاؤں کے لوگوں نے اسے پاگل کہنا شروع کر دیا تھا۔ لفظ پاگل جہاں اپنے آپ میں معاشرے کی طرف سے ناسمجھی بھرا رویّہ ہے وہیں یہ لفظ ایک طرح سے تذلیل آمیز اشارہ بھی ہے- حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک بیماری ہے، دیگر جسمانی بیماریوں کی ہی طرح- ایک ذہنی بیماری جس کی کئی قسمیں ہیں- جس کے الگ الگ نام ہوتے ہیں- اسے ڈپریشن تھا- اس بیماری کی وجہ میٹرک میں فیل ہونا کم، ماں باپ کا ذہنی دباؤ زیادہ تھا۔ اب نیا نیا بیمار ہوا تھا یعنی لوگوں کے الفاظ میں نیا نیا پاگل ہوا تھا تو لوگ اتنی جلدی تھوڑی نہ پتھر مارنا شروع کرتے ہیں- ذرا ایک دو بچّوں کے سر پھوڑے، ایک دو رات سڑکوں پہ ننگے گھومے تب کہیں جا کر پاگل کا تمغہ ملتا ہے اور علاقے بھر میں مشہور ہوتا ہے- ابھی لوگ کم جانتے تھے اور کہیں بھی جاتا تو کوئی نہ کوئی آدمی ساتھ ہوتا تھا۔ کیونکہ گھر والوں کو احساس ہو گیا تھا کہ اب ذرا یہ پاگل ہونے والا ہے- پھر بھی لعن طعن کرنا اور گالیاں دینا نہیں چھوڑتے۔
ایک شام مجھے چچی نے یہ کام سونپ دیا- اب وہ جہاں جہاں جاتا میں اس کے ساتھ ہوتا تھا- پورا راستہ وہ ایران کی توران کی، امریکا اور افغان کی، دلّی کی، بلّی کی اور نہ جانے کیا کیا اور کہاں کہاں کی بولتا رہا- اور میں چپ چاپ سنتا رہا- ایک بات ہے، جب انسان چوٹ کھا کر دماغ کا آپا کھوتا ہے تو بےفکر ہو کر بولتا ہے- اور بے فکری میں جو بھی بولتا ہے اس میں سچّائی کی تو نہیں کہہ سکتا مگر دم ضرور ہوتا ہے- گھومتے گھومتے وہ مجھے دوسرے محلّے کے پیر بابا کے مزار پر لے گیا- شاید کوئی نہ کوئی اسے یہاں جھاڑ پھونک کروانے لاتا رہا ہوگا- اسی لیے اس نے ادھر کا رخ کیا تھا، جس کے ساتھ مجھے بھی جانا پڑا- اور ہم ٹھہرے ان ڈھکوسلوں کے خلاف، مگر کیا کرتا کوئی چارہ نہ تھا- اس نے ایک دو سجدے بابا کے عالی شان دربار میں لگاۓ اور میرے ساتھ سبزہ پر بیٹھ گیا-
لوبان اور اگربتیوں کی لو میں شام پگھل کر رات میں ڈھلنے لگی- لوگ آہستہ آہستہ اپنے بابا کو چادروں میں لپیٹ کر اکیلا چھوڑ کر گھر کی اور جانے لگے- لیکن ہم دونوں اسی جگہ پر بیٹھے رہے- رات کافی ہو چکی تھی پھر بھی نہ اس نے اپنی تقریر روکی اور نہ ہی ہم سننے سے تھکے- گاؤں والے تو گھوڑا بیچ کر کب کا سو چکے تھے- اب قمرالدین کو ٹھنڈ کا احساس ہونے لگا تو وہ اٹھا اور بابا کی قبر…..معاف کیجیے گا مزار پر سے چادریں اٹھا لایا اور بڑے آرام سے اوڑھ کر میرے سامنے بیٹھ گیا- ہم ٹھہرے بڑے والے کمینے، ہم نے بھی منع نہیں کیا، بلکہ یوں پوچھا “کہو تو اور چادریں لا دوں، بابا سے مانگ کر؟”
اس نے کہا “کون بابا…؟”
“ارے مزار والے، اندر جو آرام فرما رہے ہیں. . .” میں نے مزاحیہ انداز میں کہا-
وہ ہنستے ہوئے بولا ” ارے بابا تو بیچارے کب کے مر چکے ہیں نیک کام کر کے اور لوگ ان کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں- بتائیے قبر کو کہیں ٹھنڈ لگتی ہے جو لوگ چادر چڑھاتے ہیں- اور چلیے مان لیا کہ بابا اندر سوئے ہوئے ہیں پھر بھی کسی کو اتنی زبردست اینٹوں اور پتھروں کا گھر بنا کر دیں گے تو کیا ٹھنڈ لگےگی، اور ان کو کیا ضرورت ہے بھائی ….؟” اس کے بعد بھی اس نے اپنی تقریر جاری رکھی- پھر جب مجھے تھوڑی نیند ستانے لگی تب اس کو چلنے کا اشارہ کیا، اور وہ راضی ہو گیا-
آنے سے قبل ایک نظر بابا کے مزار کی جانب دیکھا جہاں اینٹ اور پتھروں کی صرف ایک قبر نظر آ رہی تھی، جس کے ارد گرد کچھ موم بتیاں اور اگربتیاں یوں جل رہی تھیں جیسے قبر کا سوناپن دیکھ کر زار و قطار آنسو بہا رہی ہوں- ادھر قمرالدّین بڑی بے فکری سے چادر لپیٹے ہوئے گھر کی اور چلا جا رہا تھا-
صبح اٹھ کر چوک کی طرف آیا تو دیکھا کہ لوگ مزار کے پاس جمع ہیں اور شور اتنا کہ کان دھرے نہیں جا رہے تھے- اس طرف بڑھا کہ دیکھوں ماجرا کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بابا نے کوئی کرشمہ کر دیا ہو! ایسی ہی نہ جانے کیا کیا باتیں میرے ذہن میں چل رہی تھیں- جب قریب پہنچا تو دیکھ کر دنگ رہ گیا- قمرالدّین نیچے چادروں میں لپٹا ہے اور لوگ بے رحمی سے اس کی پٹائی کر رہے ہیں- اور ساتھ ہی بھدی بھدی گالیاں بھی نکال رہے ہیں- ہاتھوں میں تسبیح لیے، ٹوپی پہنے چاچا جو دور سے دیکھ رہے تھے، جن کے اندر مارنے کی بھی اب طاقت نہیں بچی تھی تو وہ وہیں سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے لگے اور زور سے بولے “مارو مادر*** کو ”
میں لوگوں کو اس کی بیماری کا حوالہ دے کر کسی طرح سے اسے وہاں سے نکال لایا- اور جب گھر آیا تو پوچھا “کمینے صبح صبح بابا کا چادر اوڑھ کر مزار پہ کیوں چلا گیا تھا؟”
اس نے بڑی عاجزی سے کہا “ہم نے سوچا کہ بابا کو لوٹا دوں”
“رات تو کہہ رہے تھے کہ بابا کو ضرورت نہیں ہے”
“وہ رات میں کہا تھا نہ لیکن جب سونے گیا تو امی کو بات کرتے سنا کہ بابا مزار میں زندہ ہیں اور وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں”
میں نے کہا “ابے الو، جب وہ مر گئے تو زندہ کہاں سے ہوئے- تو ایسا کر آج رات قبر کھود کر بابا سے مل آنا- اور ان سے پوچھنا کہ ان کو کتنی چادروں کی ضرورت ہے، ہم بھیج دیں گے” اتنا بول کر اس کے گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ مزار کے خادم گاؤں کے کچھ لوگوں کے ساتھ اس کے گھر پر آ دھمکے یہ کہنے کہ آج بابا کے مزار پہ سو چادریں اس بچّے کے ہاتھوں چڑھایا جائے ورنہ بابا پورے گاؤں کو بخشیں گے نہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
حفیظ الرحمان علیگ

پھر آگے کیا ہوا ۔۔۔قبر کھودی گئی یا یونہی چھوڑ دیا گیا ۔۔۔۔ابھی آگے کی تحریر باقی ہے ؟؟