میں اس کی چرب زبانی پہ مشتعل نہ ہوا

عبدالکریم شاد شعروسخن

میں اس کی چرب زبانی پہ مشتعل نہ ہوا

وہ میرے ضبط پہ ہنستا رہا خجل نہ ہوا


سمجھ گیا کہ غلط راہ پر چلا ہوں میں

مرے سفر میں مخالف کوئی مخل نہ ہوا


ہزار بار تماشا کرے مسیحائی

یہ زخم عشق کا شیوہ ہے مندمل نہ ہوا


کئی چراغ بھی روشن کئے ہیں مولا نے

جہان صرف ہواؤں پہ مشتمل نہ ہوا


غمِ حیات کو یاروں میں بانٹنا چاہا

مگر یہ بار کسی طرح منتقل نہ ہوا


یہی تو بات بھلی ہے ترے زمانے کی

فراقِ یار بھی جو حالِ مستقل نہ ہوا


اسے خیال رہا اپنے بیوی بچوں کا

بدن غریب کا اک پل بھی مضمحل نہ ہوا


نگاہ عشق بھی اٹھی تو جھک گئی فورا

برہنہ حسن ترا پھر بھی منفعل نہ ہوا


جھٹک کے پاؤں گزر جاؤ دہر سے اے شاد!

“بشر وہی، جو گرفتارِ آب و گِل نہ ہُوا”

آپ کے تبصرے

3000