کرامات اولیاء

عبداللہ صلاح الدین سلفیؔ عقائد

سلف صالحین اہل السنة والجماعۃ کے نزدیک عقائد کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصل اولیاءاللہ کی کرامات کی تصدیق ہے۔ اولیاءکی کرامتیں برحق ہیں، سلف صالحین، ائمہ دین اور محدثین نے کبھی بھی ان کا انکار نہیں کیا، البتہ کرامت کا اعتبار معیار ولایت پر مبنی ہے اور معیار ولایت اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی اتباع ہے نہ کہ کرامت اور خرق عادت۔
افراط وتفریط کے شکار اہل بدعت وہویٰ پرست ہی اولیاء کی کرامتوں کاانکار کرتے ہیں ، تاہم کرامات کے نام پررطب و یابس اور غث وسمین کو قبول نہیں كياجاسکتا،کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنانہایت ضروری ہے۔

زیرنظر مضمون میں ہم کرامات اولیاء کے تعلق سے صحیح عقیدہ ومنہج پیش کرنے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی افراط وتفریط پر مبنی نظریہ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان شاءاللہ اس کی تردید بھی کریں گے

محترم قارئین ! سب سے پہلے ہمیں یہ جان لیناضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین قدرت یا نوامیس فطرت جن کو امورکونیہ بھی کہاجاتا ہے دوطرح کےہیں:
۱۔ دستور عام (سنة اللہ) یعنی ایسے وہ تمام امورجو عام عادت کے مطابق جاری وساری ہیں یعنی ان کواللہ تعالیٰ نے ایسے ہی پیداکیاہے اور انسان نے ہمیشہ انہیں اسی طرح دیکھا ہے اس میں قدرت کے وہ تمام قوانین اور اصول آجاتے ہیں جواسباب ومسببات کی کڑیوں میں باہم جکڑے ہوئے ہیں، مثلا آگ کاکام جلاناہے، پانی کاکام بجھانا اور ٹھنڈک و تراوٹ پہنچاناہے، سورج کا ہمیشہ پورب سے طلوع ہونا اور پچھم میں غروب ہونااور جاندار چیزوں کا اپنی ہی جنس سے تولیدی عمل مکمل کرکے پیداہوناوغیرہ۔

۲۔ دستورِخاص یاخاص امور یعنی عام جاری دستورمیں بسااوقات کسی خاص وجہ سے تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور جب کبھی ایسا ہوجائے کہ یدِقدرت نے کسی خاص مقصد کے لئے سبب اورمسبب کے درمیانی تعلق وعمل کو علاحدہ کردیا ہو یا بغیر سبب کے کسی چیز کو وجود بخش دیاہو، تویہ اس کا دستورخاص ہے، جیسے سورج کامغرب سے طلوع اور مشرق میں غروب ہونا، آگ کا جلانے کے بجائے ٹھنڈی اورسلامتی والی بن جانا یا اونٹنی کا تولیدی عمل کے بغیر چٹان سے پیدا ہونا وغیرہ چنانچہ جب ایسی چیزیں ظہور پذیر ہوتی ہیں جو اسباب سے عاری ہوتی ہیں تواس وقت عقل حیران ہوجاتی ہے۔

چونکہ یہ عام نگاہوں میں قانون قدرت سے ہٹ کر رونما ہوتی ہیں اس لئے ان کوخارقِ عادت Super Natural کہتے ہیں.
یعنی یہ قدرت کے عام قانون یا دستور کے بظاہر خلاف ہے، حالانکہ ایسانہیں ہے، بلکہ یہ قوانین فطرت کی پہلی قسم یعنی دستور عام کے خلاف توہے مگر ‘‘دستورخاص’’ کے خلاف نہیں۔

خرق عادت کی قسمیں
خرق عادت کی کئی قسمیں ہیں:

۱۔معجزہ:-
انبیاءورسل کوان کی نبوت و رسالت کی صداقت پر بطور دلیل ونشانی جوخارق عادت امور یاچیزیں اللہ کی جانب سے عطاہوتی ہیں، اسے معجزہ کہاجاتاہے، کیونکہ وہ بوقت چیلنج مدمقابل کوعاجز و بے بس کردیتی ہے جیسے صالح علیہ السلام کی اونٹنی جو اچانک چٹان سے نمودار ہوئی ، موسیٰ علیہ السلام کا عصا (لاٹھی) اور یدبیضا اور پیارے رسولﷺ کاچاند کوانگلی کے اشارہ سے دوٹکڑے کردینا۔

یادرہے کہ معجزہ کالفظ قرآن وسنت میں نہیں استعمال ہواہے بلکہ اس کے لئے آیت وبرہان کالفظ وارد ہوا ہے، مگر چونکہ یہ لفظ شریعت کے مخالف نہیں اس لئے اس کااستعمال جائز ہے۔

2۔ارہاص:-
نبوت سے پہلے کسی نبی یا رسول کے لئے جوخارق عادت امور ظاہر ہوتے ہیں انہیں ارہاص کہا جاتا ہے۔ جیسے آنحضرت ﷺ کے لئے بعثت سے پہلے پتھروں کاسلام کرنا یابادل کاسایہ کرنا۔

3۔کرامت:-
دین اسلام کی حقانیت کے لئے یاکسی مسلمان بندے کی ضرورت کی خاطر ظاہر ہونے والا ہروہ خارق عادت امر اور خلاف عادت چیز جسے اللہ تعالیٰ اپنے کسی صالح، موحد اور متقی بندے کے ہاتھوں نمودار کرتا ہے، ایسا رب العزت اس بندے کے اکرام میں کرتاہے تاکہ دین حنیف پرعمل پیرا ہونے کی صورت میں پیش آنے والے مصائب و مشکلات پر صبر و استقامت کے ساتھ ڈٹارہے اور وہ شریعت مطہرہ پرعمل کرنے، اس کی اشاعت اور اعلاءکلمة اللہ کے لئے ڈٹ جائے ، دین حق کاغلبہ ہو، بنده مومن کی حاجت بر آری کے ساتھ ہی ایمان کو تقویت ملے نیز اعداءاسلام اور دشمنان اولیاءاللہ کے خلاف حجت قائم ہوجس کی مثالیں آگے آرہی ہیں۔

4۔استدراج یاشعبدہ بازی:

اگر(قرآن وسنت کے مطابق) اللہ کے کسی موحد،مخلص اور مومن بندے کے بجائے کسی مشرک اور خرافات میں ملوث شریعت مطہرہ سے دور اور دین حنیف کے اوامر ونواہی کےمنکر و مخالف شخص کے ہاتھ سے خارق عادت امر ظاہر ہو تو اس کو استدراج (مہلت،ڈھیل) اور شعبدہ بازی کہاجاتاہے۔

کچھ لوگ شیطان کے مہرے ہوتے ہیں یہ لوگ جادو، کہانت، شعبدہ بازی اور دجل وفریب کے دیگر ہتھکنڈوں سے لوگوں کو خلاف معمول خارق عادت چیزیں دکھاتے ہیں ۔جیسے فرعون کے دربار میں جادو گروں کا رسیوں اور لاٹھیوں کوسانپ بنادینا۔

5۔شیطانی فریب:-
کچھ جاہل سادہ لوح اور علم کتاب وسنت سے ناواقف افراد کوشیطان فریب دیتاہے اور وہ اپنی جہالت کی بناپراس کو کرامت تصورکرلیتے ہیں، جیسے کسی کوشیطان میدان عرفات میں اٹھالے جائے اور انہیں بلا احرام ، بلا تلبیہ اور دیگر ضروری امور کی تکمیل کے بغیر حج کرائے اورپھران کے شہر واپس لے آئے ایسے شریعت مخالف اعمال کافر جنوں کے فریب اورحربے ہوتے ہیں۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ معجزہ یاکرامت آنکھوں کا دھوکہ نہیں ہوتا جبکہ جادو اور شعبدہ بازی آنکھوں کا دھوکہ اور فریب ہوتاہے۔

خلاصہ ماسبق یہ کہ جوخارق عادت امر انبیاء ورسل کے ہاتھوں صادر ہو وہ نبوت سے پہلے ارہاص اور نبوت کے بعد معجزہ ہے اور جو اللہ کے دیگر مومن ومتقی بندوں سے صادر ہو وہ اگرشریعت کے موافق ہوتوکرامت ہے اور اگر وہ شریعت کے مخالف ہوتوشیطانی مکر وفریب ہے، اور جو کافر یا فاسق شخص کے ہاتھوں ظاہر ہو وہ یا تواستدراج ہے یاپھر جادو ، اور یہ تمام امور اللہ ہی کے اذن سے صادرہوتے ہیں۔

کرامت کے تعلق سے لوگوں کے تین گروہ ہیں:
(۱) منکرین
(۲) غلوپرست
(۳) اوراعتدال پسند۔
یعنی کرامت کواس کے صحیح مقام پر رکھنے والے افراط اور تفریط سے دور رہ کرصراط مستقیم پر قائم رہنے والے۔

منکرین:-
بعض لوگ کرامت کے کلی طورپر منکر ہیں ،جیسے فرقہ معتزلہ، جبکہ بعض صراحتا انکار نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے صرف عقل کے دائرہ میں محصور قراردیتے ہیں اور ایساکیوں نہ ہو جبکہ یہ لوگ معجزات کوبھی تسلیم نہیں کرتے سوائے قرآن کے ۔

وجوہ انکار:-
ان کے انکار کی حسب ذیل چار بڑی اہم وجہیں ہیں:
1۔عقل کونقل صحیح پر مقدم کرنا۔یعنی ہماری عقل میں یہ بات نہیں آتی ہے اس لئے کرامت کوئی چیز نہیں ۔
2۔اخبار و‌احادیث کی عدم معرفت اور صحیح وضعیف کی پرکھ نہ ہونا۔
3۔غلوکرنے والوں کےبالمقابل ردعمل (Reaction) کے طورپرانکارکرنا۔
4۔اہل سنت والجماعة کے نزدیک صحت کرامت کے لئے جوشرائط وضوابط ہیں اس کی معرفت نہ ہونایااس پر غور وفکر نہ کرنا۔

چنانچہ علامہ رشید رضا مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

“وإننالنعرف أشخاصا من ھٰولاء الدجالین قد اشتھر أن النساء یتجردن لھم فیکتبون من طلاسمھم وحروفھم علی بطونھن مایزعمون أنہ لحبل العاقر… ومنھم من یخلو بالنساء متی شاء من لیل أونہار، برضیٰ أزواجھن الذین یعتقدون أن ھٰولاء من المقربین عند اللہ تعالیٰ، فلایمکن أن تقع منھم الفاحشة،فالرجل یکون دیّوثا، وصاحب الکرامة فاجرا أوقوادا، وکل ذلک ببرکة الاعتقاد بالخوارق والکرامات، ولولاھا لماکان شیئی من ذلک بھذہ الصور”
(مجلة المنار:113/6-114)

ترجمہ:اور بلاشبہ ہم ان دجالین میں سے ایسے کئی اشخاص کوجانتے ہیں،جن کے بارے میں مشہور ہے کہ خواتین ان کے سامنے برہنہ ہوتی ہیں اور یہ ان خواتین کے پیٹ پر اپنے مخصوص حروف اور طلسمات تحریر کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کادعویٰ یہ ہوتاہے کہ یہ بانجھ عورت کے حمل کے لئے فائدہ مند ہے…… اور ان میں سے بعض رات اور دن کے جس حصے میں چاہتے ہیں نامحرم عورتوں کے ساتھ ان کے ان شوہروں کی رضا مندی سے خلوت اختیار کرتے ہیں جویہ غلط اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندوں میں سے ہیں لہذاان سے بدکاری کاصدور ناممکن ہے پس مرد دیوث ہوتاہے اور صاحب کرامت فاجر وبد کار یادلال ہوتاہے اور یہ سب خوارق وکرامات کا عقیدہ رکھنے کی برکتیں ہیں، اور اگر یہ عقیدہ نہ ہوتاتوان میں سے کوئی چیز ان صورتوں میں نہ ہوتی۔

غلوپرست:-
صوفیاءکی جماعت نے کرامت کے اثبات میں حددرجہ غلواور افراط ومبالغہ سے کام لیاہے، ان کاپورا دینی کاروبار کرامت ہی کا رہین منت ہے، وہ خواہ کرامت ہو یاشعبدہ بازی، ثابت ہو یا غیرثابت، جادو ہو یا دجل و فریب اور عیاری ہو یا ہاتھ کی صفائی ۔
ان کے غلو اور افراط کی ایک جھلک آپ کوبایزیدبسطامی کے اس قول میں نظر آجائے گی:

“لیس العالم الذی یحفظ من کتاب… إنماالعالم الذی یأ خذ علمہ من ربہ أی وقت شاء بلاحفظ ولادرس”. (احیاءعلوم الدین للغزالی:24/3)

ترجمہ:عالم وہ نہیں ہے جوکتاب کاحافظ ہو…. بلکہ عالم توبس وہ ہے جو اپنا علم اپنے رب سے جب چاہے بغیر حفظ ودرس کے اخذ کرلے۔
تصوف کامشہورسلسلہ رفاعیہ اسماعیل الرفاعی کی طرف منسوب ہے۔یہی اسماعیل رفاعی اپنے پیر ومرشد ابراہیم الأعزب کے بارے میں کہتے ہیں:

نادانی العزیزسبحانہ: إنی أریدأن أخسف الأرض و أرمی السماء علی الأرض، فلماسمعت ھذا النداء تعجبت وقلت: الٰھی من ذاالذی یعارضک فی ملكک و إرادتک؟ قال:”سیدی ابراہیم“. (قلادةالجواہر،ص:80)

ترجمہ:مجھے اللہ سبحانہ نے نداءدی:”کہ میں چاہتاہوں زمین کودھنسادوں اور آسمان کوزمین پر پٹخ دوں” میں نے جب یہ نداءسنی تومجھے بڑاتعجب ہوا اورمیں نے کہا:اے میرے معبود کون ہے وہ جو تجھ سے تیرے ارادے اور تیری بادشاہت میں معارضہ کرے گا؟ اس نے فرمایا: “میرا آقا ابراہیم”.

اعتدال پسند:
اہل السنةوالجماعةنے افراط وتفریط سےدور رہ کر کرامت کوثابت ماناہے، لیکن کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے لئے کچھ ضابطے مقرر کئے ہیں، تاکہ ہر کوئی کرامت کے نام پر دین کو کھلونہ اور تماشہ بنانے کی جسارت نہ کرے، چنانچہ علامہ ابوجعفر طحاوی حنفیؒ رقم طراز ہیں:

”ولانفضل أحدا من الأولیاء علی الأنبیاء علیھم السلام ونقول نبی واحد أفضل من جمیع الأولیاء ونؤمن بماجاء من کراماتھم وصح عن الثقات من روایاتھم“. (شرح العقیدة الطحاویة ، ص:504-507)

ترجمہ:اور ہم کسی بھی ولی کوکسی بھی نبی کے مرتبے سے بلند وبرتر نہیں مانتے اور ہم یہ کہتے ہیں:ایک نبی دنیابھر کے ولیوں سے افضل ہے۔ اور ہم ولیوں کی کرامات کے قائل ہیں ،اور ان کرامات پرایمان رکھتے ہیں جوکرامات صحیح روایات سے ثابت ہیں۔
آگے چل کرلکھتے ہیں:

“ولانصدق کاھنا ولاعرافا ولامن یدعی شیئا یخالف الکتاب والسنة وإجماع الامة”.(شرح العقیدة الطحاویة،ص: 516)

ترجمہ:اور کسی کاہن اور نجومی کوہرگزنہیں مانتے اور نہ ہی کسی ایسے شخص کومانتے ہیں جوکسی ایسی چیزکادعوی کرے جوکتاب وسنت اور اجماع امت کے خلاف ہو۔

حقیقی کرامتوں کاظہور پچھلی امتوں کے اہل ایمان کے ہاتھوں بھی ہوتارہاہے، جیساکہ سورہ الکہف وغیرہ میں مذکور ہے اور صحیحین وغیرہ میں بھی سابقہ امتوں کے بعض افراد کی کرامات کاتذکرہ رسول رحمت ﷺ کے ارشادات کی شکل میں موجودہے۔

ظہورِ کرامت کے اسباب:
کرامت کاظہور بعض وجوہات واسباب کی بناءپر ہوتاہے کبھی اللہ تعالیٰ مومن ،صالح ومتقی بندے کو پریشانی سے نجات دلانے اور اس کی حاجت برآری کے لئے کرامت کاظہور فرماتاہے، جیساکہ ان غار والوں کے واقعہ میں ہے جن کے بچ نکلنے کی ساری امیدیں معدوم ہوچکی تھیں، یہاں تک کہ ایک دوسرے سے کہنے لگے:

“قَدْ وَقَعَ الْحَجَرُ، وَعَفَا الْأَثَرُ، وَلَا يَعْلَمُ بِمَكَانِكُمْ إِلَّا اللَّهُ، فَادْعُوا اللَّهَ ” (المسندلاحمد:12454)

پتھرنے گرکرراستہ بند کردیاہے، نشانات مٹ چکے ہیں، اور تمہاری موجودگی کاعلم صرف اللہ کو ہے لہذا اللہ سے دعاکرو۔

لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن ومتقی بندوں کےلئے کرامتوں کوظاہر فرمائے یہ ضروری نہیں ہے.
کبھی کرامتوں کاظہورحق کے اظہار اور دین حق کوغالب کر نے کے لئے ہوتاہے، اس کی واضح مثال اس لڑکے کاواقعہ ہے جوایک جادوگرکے پاس جادو سیکھنے کے لئے جاتے ہوئے راستے میں ایک راہب سے بھی علم حاصل کرتاتھا، ایک دن بیچ شاہراہ میں ایک جانور (شیر یا اژدہا وغیرہ) نظرآیا جس نے لوگوں کا راستہ مسدود کر رکھا تھا، اس نے ایک پتھر اٹھاکر کہا: “اے اللہ اگر تیرے نزدیک راہب کادین جادوگر کے دین سے صحیح ہے تواس پتھر سے اس جانور کوہلاک کردے، تاکہ لوگوں کی آمد و رفت جاری ہوجائے” یہ کہہ کر اس نے پتھرمارا اور وہ جانور مرگیا، اور بعد میں اس کے ذریعہ حق کا اظہار یوں ہوا کہ بادشاہ اس وقت تک لڑکے کوقتل نہ کرسکاجب تک کہ اس نے ” بِاسْمِ اللَّهِ رَبِّ الْغُلَامِ ” کہہ کر اس کو تیر نہ مارا۔ (صحیح مسلم:3005 ).
کبھی کرامتوں کاظہوراللہ کے ولی کی دعا کی وجہ سے ہوتاہے، اوراس کی بہت ساری مثالیں ہیں، چنانچہ اروی بنت سعید نامی ایک عورت نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا اور مروان بن حکم سے یہ شکایت کی کہ انہوں نے میری زمین غصب کرلی ہے جس پرآپؓ نے اس عورت کے لئے بددعا فرمائی: اے اللہ ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے تواس کی آنکھوں کی بینائی چھین لے، اور اس کی قبراس کے گھر میں بنا دے۔

”اللَّهُمَّ إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَأَعْمِ بَصَرَهَا، وَاجْعَلْ قَبْرَهَا فِي دَارِهَا. “

حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے اس عورت کی بینائی چلی گئی اور ایک بار وہ اپنی زمین پر چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گر گئی اور اس میں مرگئی۔(صحیح البخاری:3198 ۔وصحیح مسلم:1610)
اورکبھی کبھارکرامت کا ظہور محض اعزاز و اکرام کے طور پر ہوتا ہے، جیسے فرشتوں کا عمران بن حصینؓ کوسلام کرنا۔ (صحیح مسلم:1226) نیز بندے کے ایمان کومضبوط کرنے اور دشمنان اسلام پر حجت قائم کرنے (وغیرہ) کے لئے بھی کرامتوں کاظہور ہوتاہے۔

کرامتوں کا ظہور عابدوں سے بھی ہوتاہے، جیسے مریم ؑاور جریج راہب، مجاہدوں سے بھی، جیسے عاصم بن ثابت، انس بن نضر اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم ، کسانوں سے بھی جیسے وہ کسان جس کانام لے کربادلوں سے کہاگیا :“اسق حدیقة فلان” اور خروج دجال کے زمانہ میں توعام مؤمنین سے بھی کرامتوں کاظہور ہوگا چنانچہ ناخواندہ اور ان پڑھ مؤمن بھی دجال کی پیشانی پر کافر لکھاہواپڑھ لے گا، یہاں تک کہ گناہوں سے توبہ کرنے والے سے بھی کرامت کاظہور ہو سکتا ہے جیسا کہ 99 افراد کے قاتل اور اپنی چچازاد بہن سے زناکا ارادہ رکھنے کے بعد توبہ کرلینے والے سے ہوا۔ کرامت کا ظہور جس طرح مردوں سے ہوتاہے، اسی طرح عورتوں سے بھی، جیساکہ مریم وسارہ علیہماالسلام سے ہوا ۔
الحاصل یہ کہ کرامت کا صدور وظہور اللہ کے کسی بھی مؤمن ومتقی بندے سے ہوسکتا ہے، اس کاتعلق کسی بھی صنف سے ہو بشرطیکہ وہ ظاہری طور پر بدعت اور فسق وفجورمیں مبتلا نہ ہو، وہ علماءسے بھی ہوسکتا ہے اورعبادت گذاروں، تاجروں، صنعت کاروں، کسانوں اور مزدوروں سے بھی، چنانچہ جوبھی ایمان وتقویٰ سے متصف ہواس سے کرامت کاظہور ہوسکتا ہے۔

کرامت کے شرائط وضوابط: –
خرق عادت کبھی استدراج، کبھی شیطانی فریب، کبھی کہانت اور جادوگری، کبھی ہاتھوں کی صفائی اور کبھی شعبدہ بازی ہوا کرتی ہے، لہذا علماءسلف نے کرامت کے لئے کچھ شرائط اور ضوابط بیان کئے ہیں جنہیں ہم ذیل میں درج کررہے ہیں :
1۔ صاحب کرامت مؤمن اور متقی ہو: چنانچہ اللہ رب العالمین نے اولیاء (جن سے صادر ہونے والی خرق عادت کو کرامت کہاجاتاہے) کی پہچان بتلاتے ہوئے فرمایاہے:

“الَّذِینَ اٰمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُون”(یونس:62)

یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (اللہ کا)تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔
2۔ کسی چیز کا صرف خرق عادت ہونا اس کے کرامت ہونے کی دلیل نہیں، جیسے جادوگروں کا فرعون کے دربار میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ کے مقابلہ میں اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کاسانپ بنادینا، جس کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ سبحانہ نے یوں ارشاد فرمایا:

قَالُوا یمُوسٰٓی اِمَّآ اَن تُلقِیَ وَاِمَّآاَن نَّکُونَ اَوَّلَ مَن اَلقٰی قَالَ بَل اَلقُوا فَاِذَا حِبَالُھُم وَعِصِیُّھُم یُخَیَّلُ اِلَیہِ مِن سِحرِھِم اَنَّھَا تَسعٰی فَاَوجَسَ فِی نَفسِہ خِیفَةً مُّوسٰی قُلنَا لَا تَخَف اِنَّکَ اَنتَ الاَعلٰی وَاَلقِ مَا فِی یَمِینِکَ تَلقَف مَاصَنَعُوااِنَّمَا صَنَعُوا کَیدُ سٰحِرٍ وَلَایُفلِحُ السّٰحِرُ حَیثُ اَتٰی(طہ:65-69)

ترجمہ: (جادوگروں نے ) کہا: اے موسیٰ! یا تو ڈال یا ہم ہی ہوں پہلے ڈالنے والے ؟ اس(موسیٰ علیہ السلام ) نے کہا: بلکہ تم ہی ڈالو، پھر ناگہاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کویہ خیال گذرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں بلاشبہ دوڑ رہی ہیں توموسیٰ نے اپنے نفس میں خوف محسوس کیا، ہم نے کہا خوف نہ کھا، بے شک تو ہی غالب رہے گا۔ اور جو(لاٹھی) تیرے دائیں ہاتھ میں ہے اسے ڈال دے، وہ اس کونگل جائے گی جو کچھ انہوں نے بنایاہے، بس انہوں نے جادوگر کا فریب بنایا ہے اور جادوگر جہاں بھی آئے کامیاب نہیں ہوتا۔
3۔ کرامت کسی بھی شرعی حکم اور دینی اصول کے مخالف اور معارض نہ ہو: جیسا کہ شعرانی نے ایک صوفی کے بارے میں نقل کیاہے:

“کان یاکل فی نہار رمضان ثم یقول: انامعتوق اعتقنی ربی” (الطبقات للشعرانی :١٥٠/٢)

یعنی وہ صوفی رمضان کے دنوں میں کھانا کھایا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں آزاد ہوں مجھے میرے رب نے آزاد کردیا ہے. چونکہ اس صوفی کاعمل شرعی حکم کے مخالف اور معارض ہے اس لئے یہ ہر گز کرامت نہیں بلکہ خباثت ، جہالت اورسفاہت ہے۔
4۔ کرامت جس سند سے بیان کی گئی ہووہ صحیح اور ثابت ہو: امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے مقدمے میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ کایہ زریں قول نقل کیاہے:

“الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ ” (صحیح مسلم 32، مقدمة الکتاب)

اسناد(سلسلہ سند سے حدیث روایت کرنا) دین میں سے ہے، اگر اسناد نہ ہوتا تو ہرکوئی جو چاہتا سو کہتا۔
اور محمدبن سیرین ؒ نے فرمایا:

“إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ” (صحیح مسلم :26 ، مقدمة الکتاب)

یقینا یہ علم دین ہے، اس لئے (اچھی طرح) دیکھ لوکہ تم کن لوگوں سے اپنا دین اخذ کرتے ہو۔
اورامام ابوجعفر طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ونؤمن بماجاءمن کراماتھم وصح عن الثقات من روایاتھم” (شرح العقیدةالطحاویة ،ص:507)

یعنی ولیوں کی ان کرامات پر ہمارا یقین ہے جو کرامات صحیح روایات سے ثابت ہیں۔
اگر ثبوتِ سند کی شرط نہ لگائی جائے توکذابین ووضاعین کرامت کی منڈی سجاکر بیٹھ جائیں گے، چنانچہ ایک کذاب ووضاع رافضی ابن عقدة نے حضرت علی کی فضیلت میں یہ خودساختہ کرامت گھڑی ہے۔

عن اسماءبنت عمیس:أن النبیﷺ کان یوحی إلیه وراسه فی حجرعلی رضی اللہ عنه فلم یصل العصر حتی غربت الشمس، فقالﷺ: صلیت العصر؟ قال: لا، قال رسول اللہ ﷺ : ”اللھم انه کان فی طاعتک وطاعة نبیک فاردد علیه الشمس “قالت اسماء : فرأیتھا غربت ثم رأیتھا طلعت بعدماغربت۔ (رواہ الطحاوی فی مشکل الآثار : 388/4ومال إلی تقویته، و أبطله ابن الجوزی فی الموضوعات والمتھم به ابن عقدة فإنه کان رافضیا یحدث بمثالب الصحابة۔ (البدایة والنھایة:78/6)

ترجمہ: اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا سے مروی ہے: نبی ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی اس حال میں کہ آپ ﷺ کا سر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا، اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز نہ پڑھی، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تم نے عصر کی نماز ادا کرلی؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: نہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ یقینا علی تیری اور تیرے نبی کی اطاعت و فرمانبرداری میں تھا لہذا تواس پر سورج کو لوٹادے“ حضرت اسماءرضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : پس میں نے سورج کو غروب ہوتے اور غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوتے ہوئے دیکھا۔
اس خودساختہ کرامت کو علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “الموضوعات” میں ذکرکیاہے اور فرمایاہے کہ ابن عقدہ نامی ایک رافضی نے یہ کرامت گھڑی ہے۔(البدایة:78/6).
5۔ اگرواقعہ یاحادثہ عظیم ہو تو ایک بڑی جماعت اس کوبیان کرے: جیسے سورج کے دوبارہ طلوع ہونے کا مذکورہ واقعہ اگر درست ہوتا تو ایک کثیر جماعت اس کوبیان کرتی۔
6۔ کرامات اولیاء کو انبیاء کی سیرت پرپیش کرکے جانچا جائے: جیسے مذکورہ واقعہ کو اگر ہم انبیاءکی سیرت پر پیش کریں تو ہمیں معلوم ہوگاکہ صلاة عصر کے فوت ہونے کے حادثے انبیاءکے ساتھ بھی پیش آچکے ہیں لیکن کسی کے لئے بھی سورج دوبارہ طلوع نہ ہوا چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

اِذعُرِضَ عَلَیہِ بِالعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الجِیَادُ فَقَالَ اِنِّی اَحبَبتُ حُبَّ الخَیرِعَن ذِکرِ رَبِّی حَتّٰی تَوَارَت بِالحِجَابِ رُدُّوھَا عَلَیَّ فَطَفِقَ مَسحًا بِالسُّوقِ وَالاَعنَاقِ (ص31-33)

ترجمہ:جب ان کے سامنے شام کے وقت تیز رو اصیل گھوڑے پیش کئے گئے، تو کہنے لگے: بلاشبہ میں نے مال(گھوڑے) کی محبت کو اپنے رب کی یاد سے (اکثر مفسرین کے نزدیک عصرکی نماز مراد ہے) محبوب جاناہے حتی کہ وہ (گھوڑے نگاہوں سے) اوجھل ہوگئے. کہا: انہیں میرے پاس واپس لاؤ پھر تو پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار) پھیرنا شروع کردیا۔
اور خودہمارے پیارے رسول خاتم الانبیاء سید المرسلین جناب محمد ﷺکی صلاة عصر غزوہ خندق کے موقع پر فوت ہوگئی مگر سورج دوبارہ طلوع نہ ہوا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنه سے ہی مروی ہے، فرماتے ہیں :

لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْأَحْزَابِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَلَأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ “۔(صحیح البخاری:2931وصحح مسلم:627)

ترجمہ:رسول اللہﷺنے غزوہ احزاب کے موقع پرجس وقت سورج غروب ہوگیا فرمایا:اللہ تعالیٰ ان (قبائل مشرکین)کے گھر اور قبریں آگ سے بھردے انہوں نے ہمیں صلاة وسطیٰ یعنی عصر سے روک دیا۔
اسی طرح پیارے رسولﷺ اور آپ کے پیارے صحابہ کی نماز فجرفوت ہوگئی جس میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے مگر سورج طلوع ہونے کے بعد پھر غروب نہ ہوا، چنانچہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

سِرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ : لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ : ” أَخَافُ أَنْ تَنَامُوا عَنِ الصَّلَاةِ “. قَالَ بِلَالٌ : أَنَا أُوقِظُكُمْ فَاضْطَجَعُوا، وَأَسْنَدَ بِلَالٌ ظَهْرَهُ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ فَنَامَ، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَالَ : ” يَا بِلَالُ، أَيْنَ مَا قُلْتَ ؟ ” قَالَ : مَا أُلْقِيَتْ عَلَيَّ نَوْمَةٌ مِثْلُهَا قَطُّ. قَالَ : ” إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ، يَا بِلَالُ، قُمْ فَأَذِّنْ بِالنَّاسِ بِالصَّلَاةِ “. فَتَوَضَّأَ فَلَمَّا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ وَابْيَاضَّتْ قَامَ فَصَلَّى۔’’(صحیح البخاری:595)

ترجمہ:ہم ایک شب نبیﷺکے ہمراہ سفر کر رہے تھے، کچھ لوگوں نےعرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہم سب لوگوں کے ہمراہ آخرِ شب آرام فرمائیں، آپ ﷺ نے فرمایا: “مجھے ڈر ہے کہ مباداتم نمازسے غافل ہو کر سوتے رہو” حضرت بلال رضی اللہ عنہ گویا ہوئے : میں سب کو جگادوں گا، چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے اور بلال رضی اللہ عنہ اپنی پشت اپنی اونٹنی سے لگاکر بیٹھ گئے، مگر جب ان کی آنکھوں میں نیند کا غلبہ ہوا تو وہ بھی سو گئے۔ نبیﷺ ایسے وقت بیدار ہوئے کہ سورج کا کنارہ طلوع ہو چکا تھا۔آپﷺنے فرمایا: “اے بلال ! تمہارا قول و قرار کہاں گیا؟” وہ بولے مجھے آج جیسی نیند کبھی نہیں آئی، اس پر آپﷺ نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ نے جس وقت چاہا تمہاری روحوں کوقبض کرلیا اور جس وقت چاہا انہیں واپس کردیا،اے بلال! لوگوں میں نماز کا اعلان کردو” اس کے بعد آپﷺ نے وضو کیا، جب سورج بلند ہوکر روشن ہو گیا تو آپﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔
7۔ کرامت سے صاحب ِکرامت کی تکریم ثابت ہوتی ہو: ورنہ وہ خرق عادت توہوسکتا ہے کرامت نہیں،جیساکہ اس حدیث میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ : ” بَيْنَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً، إِذْ رَكِبَهَا فَضَرَبَهَا، فَقَالَتْ : إِنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِهَذَا، إِنَّمَا خُلِقْنَا لِلْحَرْثِ “. فَقَالَ النَّاسُ : سُبْحَانَ اللَّهِ، بَقَرَةٌ تَكَلَّمُ ؟ فَقَالَ : ” فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ ” وَمَا هُمَا ثَمَّ ” وَبَيْنَمَا رَجُلٌ فِي غَنَمِهِ إِذْ عَدَا الذِّئْبُ فَذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ، فَطَلَبَ حَتَّى كَأَنَّهُ اسْتَنْقَذَهَا مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ الذِّئْبُ : هَذَا اسْتَنْقَذْتَهَا مِنِّي، فَمَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ ؟ يَوْمَ لَا رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي “. فَقَالَ النَّاسُ : سُبْحَانَ اللَّهِ، ذِئْبٌ يَتَكَلَّمُ ؟ قَالَ : ” فَإِنِّي أُومِنُ بِهَذَا أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ “. وَمَا هُمَا ثَمَّ۔(صحیح البخاری:327)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ نمازِصبح اداکی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ‘‘ایک شخص گائے کو ہانکے لئے جارہا تھا کہ وہ اچانک اس پر سوار ہوگیا اور اسے مارا، اس گائے نے کہا: “ہم سواری کے لئے پیدانہیں کئے گئے بلکہ ہماری پیدائش توکھیتی باڑی کے لئے ہوئی ہے’’۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! گائے نے باتیں کیں! آپﷺ نے فرمایا: ”میں اورابوبکروعمر اس پر یقین رکھتے ہیں “حالانکہ اس وقت وہ دونوں (ابو بکر وعمر) وہاں موجود نہ تھے”اسی طرح ایک دفعہ ایک شخص اپنی بکریوں میں موجود تھا کہ اچانک بھيڑيئے نے حملہ کیااور ان میں سے ایک بکری اٹھاکر لے بھاگا، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے وہ بکری چھڑا لی اس پر بھیڑيئے نے اسے کہا: آج تویہ بکری تو نے مجھ سے چھڑالی ہے لیکن درندوں والے دن اسے کون بچائے گاجس دن میرے علاوہ ان کاکوئی چرواہا نہیں ہوگا؟ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! بھیڑیا باتیں کرتاہے!آپ ﷺ نے فرمایا: میں اور ابوبکر وعمر اس پر یقین رکھتے ہیں “ حالانکہ وہ دونوں وہاں موجود نہ تھے۔
مذکورہ حدیث میں گائے اور بھیڑيئے کاگفتگو کرناخرق عادت ضرورہے لیکن یہ گائے ہانکنے والے اور بکریاں چرانے والے کی کرامت نہیں ہے کیونکہ اس سے ان کی کوئی تکریم نہیں ہوتی ہے۔
8_ کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہے: کہ وہ جب چاہے پیش کردے بلکہ اس کا کلی اختیار اللہ ہی کے پاس ہے ارشاد الہی ہے:

‘‘وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ اَن یَّاتِیَ بِاٰیَةٍ اِلَّا بِاِذنِ اللّٰہ ’’(الرعد:38)

اورکسی رسول کو بھی یہ (اختیار ) نہیں کہ وہ اللہ کے حکم اور اجازت کے بغیرکوئی نشانی (معجزہ )پیش کردے۔
جب کوئی رسول اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے معجزہ نہیں پیش کرسکتا تو کوئی بھی ولی بدرجہ اولی کرامت نہیں پیش کرسکتا۔
9_ کرامت عقل کی پابند نہیں البتہ شریعت کی ضرور پابند ہے: یعنی کرامت کسی کے عقل میں نہیں سماتی ہے تووہ یہ کہہ کر اس کا انکار نہیں کرسکتا کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے البتہ حقیقی کرامت کبھی بھی شریعت کے مخالف اور معارض نہیں ہوتی، کیونکہ شرعی اصول وضوابط قیامت تک کے لئے اٹل ہیں، ان میں تبدیلی ناممکن ہے۔
10۔ کرامت سے نہ توشریعت سازی ہوتی ہے اور نہ کوئی شرعی حکم منسوخ ہوتاہے۔ کیونکہ دین مکمل ہو چکاہےاس میں تبدیلی ناممکن ہے۔ارشاد الہی ہے:

اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَاَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دِینًا(المائدة:3)

آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لئے اسلام کودین کے طور پر پسند کرلیا۔
خلاصہ کلام:

1۔اہل السنہ والجماعة کے نزدیک اولیاءاللہ کی کرامتیں برحق ہیں اور کتاب وسنت اور آثار متواترہ سے ان کابرحق ہونا ثابت ہے۔
2۔اہل السنہ والجماعة کے نزدیک کرامت کے ثبوت کے لئے کچھ دقیق اصول وضوابط ہیں، جن کی روشنی میں کرامت کو شعبدہ بازی، جادوگری، ہاتھ کی صفائی اور شیطانی حربے وغیرہ سے ممتاز کیا جاتاہے۔
3۔کرامت کے سلسلے میں افراط وغلو اور تفریط وتقصیر دونوں ہی گمراہی وبدعت ہے اور کتاب وسنت کی تعلیمات سے انحراف ہے۔
4۔کرامت کوثابت ماننے والے بعض لوگوں کاغلو، منکرین کرامت کے اسبابِ انکارمیں سے ایک اہم سبب ہے۔
5۔اہل السنة والجماعة کے نزدیک کرامت کاانکار گمراہی، بدعت اور قرآن وسنت سے انحراف کرنا ہے اور منکرین کی اکثریت گمراہ فرقے معتزلہ سے تعلق رکھتی ہے یا پھر وہ ان سے کسی نہ کسی طور پر متاثر ہیں یاپھر مغربیت زدہ ہیں کہ ہر چیز کوعقل کے پیمانے سے ناپتے ہیں ۔
6۔کرامت کے سلسلے میں افراط وتفریط اور غلو کی وجہ سے برائیوں کے بہت سے خطرناک باب کھلتے ہیں، غلو و تقصیر سے بچتے ہوئے ثابت شدہ شرعی کرامت پر ایمان رکھنے سے، اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان پختہ ہوتاہے کہ وہ ذات عالی اسباب کی پابندنہیں جوچاہے بغیر اسباب کے بھی وجود میں لاسکتی ہے۔

نوٹ: ذہن نشین رہے کہ کرامت کی دوبڑی قسمیں ہیں:
۱۔حسی کرامت
۲۔معنوی کرامت
حسی کرامت میں وہ ظاہری اوروقتی خلاف عادت امورآتے ہیں جنھیں ہرخاص وعام دیکھ سکتاہے اور زیر نظر تحریر میں اسی سے بحث کی گئی ہے۔
اورمعنوی کرامت میں وہ امورآتے ہیں جواس کے برخلاف ہیں،مثلا:دین وشریعت پر استقامت، توحید واتباع سنت پر گامزنی، اللہ کے بندوں میں مقبولیت اور ذکر خیر۔ معنوی کرامتوں کامقام ومرتبہ حسی کرامتوں سے بڑھ کر ہے۔ زیر نظر تحریر میں اس سے بحث نہیں کی گئی ہے۔

آپ کے تبصرے

3000