انسان کو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے عقل ایک عظیم ترین نعمت ہے، اسی عقل کی بنیاد پر وہ جانوروں سے ممتاز ہے، اسی عقل کے ذریعے خیر و شر، نفع و نقصان اور حق و باطل میں تمیز کرپاتا ہے اور شریعت اسلامیہ کے مطابق عقل ہی انسان کے مکلف ہونے کی بنیاد ہے۔
انسان اپنی اس عقل سے بہت سارے ایسے کام لیتا ہے جن سے وہ اپنے دین و دنیا کے بے شمار فوائد تسلسل کے ساتھ حاصل کرتا رہتا ہے، انہی میں سے ایک کام غور و فکر کرنے کی عادت بھی ہے۔
انسان کو اگر اپنی عقل کے استعمال اور غور وفکر کی عادت پڑجائے تو پھر یہ مشغلہ خود اپنے آپ میں ایک نیا جہاں آباد کردیتا ہے، عام انسان جس تماشہ کے ظاہر کو دیکھ کر خوش ہوجاتا ہے غور و فکر کا عادی انسان اس ایک تماشہ میں کئی تماشے ڈھونڈ لیتا ہے، ذرا سی جستجو سے وہ ایک منظر میں کئی منظر دیکھ لیتا ہے، ایسے انسان کا مطالعہ اور مشاہدہ دونوں کے دونوں اس کی عقل کی غذا بن جاتے ہیں، اور پھراس کی عقل تخیلات کی فضا میں محو پرواز ہوجاتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ایک آزاد پرندہ اپنے پر پھیلا کر کھلی فضاؤں میں چکر کاٹنے لگتا ہے، آسمان کی بلندیاں ناپنے لگتا ہے، کبھی اونچائی اچھی لگتی ہے تو بلند ہوتا چلا جاتا ہے جیسے آسمان چھو لینا چاہتا ہو اور کبھی بلندیوں سے اکتا جائے تو غوطہ لگا کر تیزی سے نیچے کی سمت گرنے کا لطف لیتا ہے۔
جس انسان کی عقل و فکر اس لذت سے آشنا ہوجائے وہ نہ صرف یہ کہ اپنا ایک الگ جہاں بسا لیتا ہے بلکہ اکثر دوسروں کے تئیں بدگمانی اور خود فریبی کی حد تک یہ غلط فہمی پال لیتا ہے کہ جہاں میں وہاں اور کوئی کہاں؟؟
غالب نے تو شعور و ادراک کی اس کیفیت کو فرشتوں کی ہمنوائی سے تعبیر کیا ہے۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
تخیل کی پرواز کے اسی ادراک و شعور نے فلاسفہ کو اس دعوی تک پہنچایا کہ نبوت وہبی نہیں کسبی ہوتی ہے اور انہی کے نقش قدم پر چل کر معتزلہ نے اور پھر علم کلام کے ماہرین نے عقل و نقل کی معرکہ آرائی میں عقل کو نقل(قرآن و سنت کے نصوص) پر مقدم گردانا ہے، قصہ مختصر یہ کہ اس لیلائے خیال کی حشر سامانیاں اور اس کے جلوے ہزار ہیں، اور دعوت عام ہے کہ تاب نظارہ ہو تو چلے آؤ کہ یہاں دید پر روک نہیں دیدہ وروں کی ہمت و حوصلہ پر بات موقوف ہے۔
فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست
دین اسلام اس خلّاقِ جہاں کا نازل کردہ دین ہے جو اس عقل کا بھی خالق ہے۔ لہذا اس دین میں اس جہانِ عقل و بینش سے متعلق بھی ہمیں بڑی مفصل رہنمائی ملتی ہے، دین اسلام میں جس طرح انسان کے ظاہر سے متعلق حلال و حرام کا ایک پورا نظام ہے بالکل اسی طرح اس دین میں فکر و نظر کی دنیا سے متعلق بھی حلال و حرام کا اپنا ایک ضابطہ اور پیمانہ ہے۔
فکر و نظر سے متعلق حلال و حرام کے جو ضابطے شریعت مطہرہ نے دیے ہیں ان میں سے ایک اہم باب انسانی ذہن میں آنے والے خیالات کے ساتھ تعامل کا بھی ہے، ایک عام انسان کے لیے اس کے دماغ میں آنے والا ہر خیال محض فکری تلذُّذ (لذت انگیزی)کا ایک موقعہ یا ایک ایسا مشغلہ ہوسکتا ہے جو اس کی تنہائیوں کو بھی روشن وآباد کردے لیکن ایک مسلمان کے لیے یہ مقام بھی تلذُّذ سے آگے تعبُّد اور بندگی کا ہے، وہ اپنے ان خیالات کو جو اکثر وقت کے ساتھ پختہ نظریات کی شکل بھی اختیار کرجاتے ہیں شریعت مطہرہ کے دائرہ سے باہر نہیں سمجھتا، وہ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ جذبات کی طرح خیالات کو بے لگام چھوڑنا بھی ایک سرکشی اور بغاوت ہے، وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اکثر خیالات جنھیں وہ اپنی فکری تخلیق یا اپنے تخیل کی میراث سمجھ رہا ہے دراصل اس کے اپنے ماحول سے نکل کر اس کے ذہن و دماغ سے گزر کر اس کے اپنے ذہن کی پیداوار کی شکل اختیار کر رہے ہیں، اس طرح یہ خالص اس کے اپنے دماغ کی پیداوار نہیں ہیں، ان افکار کے وجود پذیر ہونے میں اصل کردار تو اس کے اپنے اطراف و اکناف کے ماحول، واقعات، حادثات، مناظر، مشاہدات، لوگ اور تعلقات جیسی چیزیں ادا کررہی ہیں۔ لہذا ان کو شریعت مطہرہ کی چھلنی میں چھنے بغیر من و عن تسلیم کرلینا بلکہ عجب و خود فریبی کا شکار ہوکر اسے اپنی میراث مان لینا سب سے پہلے خودفریبی ہے پھر یہ آزادئ رائے کے نام پر مخصوص قسم کی غلامی بھی ہے۔ والإنسان ابن بيئته
افکار و خیال کو شریعت مطہرہ کی چھلنی میں چھاننے والی یہ بات ایک مسلمان اس لیے بھی ضروری سمجھتا ہے کہ بحیثیت مسلمان وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ :إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم (یعنی شیطان خون کے ساتھ انسان کے رگ و پے میں دوڑتا رہتا ہے) اور وہ اسی لیے دوڑتا ہے کہ انسان کے اندر وسوسہ کی شکل میں ایسی باتیں بھی ڈالتا جائے جو اس کو بندگی کی راہ سے ہٹا لے جائیں، اب یہ انسان پر موقوف ہوتا ہے کہ وہ شیطان کو اس مقصد میں کس قدر کامیاب ہونے دیتا ہے۔
مسیلمہ کذاب نبوت کا جھوٹا دعویدار تھا، اس نے اپنے پیروکاروں کو ایک طرف قبائلی عصبیت کی بنیاد پر خود سے باندھے رکھا تھا جو یہ کہتے تھے:كذاب ربيعة أحب إلينا من صادق مضر( ہمارے نزدیک قبیلہ ربیعہ کا جھوٹا یعنی مسیلمہ قبیلہ مُضر کے سچے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب ہے) تو دوسری طرف وہ شیطان اور شیطانی خیالات کے ذریعے انھیں اپنی سچائی کا یقین بھی دلانے کی کوشش کرتا تھا، حتی کہ اس سے لڑنے کے لیے جب مسلمانوں کا لشکر روانہ ہوا تو وہ اپنے قلعہ میں اپنے متبعین کے درمیان بیٹھے بیٹھے ان کو یہ بتاتا جاتا کہ مسلمانوں کا لشکر کہاں تک پہنچا اور اس نے کہاں پڑاؤ ڈالا ہے اور یمامہ تک پہنچنے میں انھیں کتنا وقت لگے گا، اور یہ دعوی کرتا کہ یہ وحی ہے جس کی بنیاد پر میں تمھیں یہ ساری تفصیلات سنا رہا ہوں۔ لوگوں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ مسیلمہ دعوی کررہا ہے کہ اس کے پاس وحی آتی ہے، آپ کیا فرماتے ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی: {وَإِنَّ ٱلشَّیَٰطِینَ لَیُوحُونَ إِلَىٰۤ أَولِیَاۤءهِم لِیُجَٰدِلُوكُم}(اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں باتیں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جھگڑا کریں)[الأنعام:۱۲۱] یعنی یہ سچ ہے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے مگر یہ وحی الہی نہیں بلکہ وحی شیطانی ہے۔
آج دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں جو خود کے لیے یا دوسروں کے لیے ’مسیلمہ‘ بنے ہوئے ہیں، جو جانے انجانے اسی شیطانی وحی کو اپنے تخیل کی میراث باور کرانے میں لگے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان جن افکار کو اپنی میراث سمجھتا ہے ان میں سے بہت سے کسی اور کی دین اور مرہونِ منت ہوا کرتے ہیں اور ان میں سے جو افکار خود اس کے اپنے ہوتے ہیں اکثر ان میں بھی ایسے افکار ہوتے ہیں جو اس کی بندگی میں خلل ڈالنے والے ہوتے ہیں۔
بنا بریں ایک مسلمان کی حیثیت سے ہر کسی کو چوکنا رہنا چاہیے کہ میں یہاں شیطان کا آلہ کار نہ بن جاؤں۔
شیطان اکثر انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے پھر یہ دھوکہ بھی دیتا ہے کہ یہ تمھاری اپنی رائے اور تمھاری اپنی فکر ہے، جس سے تمھیں کسی صورت دست بردار نہیں ہونا چاہیے، پھر وہ منظر بھی وجود میں آتا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بگاڑ اور فساد کے زمانہ کی ایک علامت کے طور پر ان الفاظ میں بیان فرمایا: وإعجاب كل ذي رأي برأيه (یعنی ہر مفکر خود اپنی فکر کا مارا اور ہر ذی ہوش انسان اپنی ’ہوشمندی‘ کا ہی شکار!)
فکر و نظر کی بنیاد اگر عقل محض پر نہ ہوکر شریعت مطہرہ کی موافقت اور مفاہیم صحیحہ پر ہو تو پھر یہ تدبر کہلاتا ہے جس کی قرآن میں جا بجا ترغیب آئی ہے، بات شرعی حقائق کی ہو کہ فکری انتاج کی شریعت مطہرہ کے مطابق انسان پہلے فہم و ادراک کے مر حلہ سے گزرتا ہے پھر تدبر کے مقام تک پہنچتا ہے جس سے آگے ایک عظیم جہاں آباد ہے ، جب انسان اس ترتیب کے مطابق چلتا ہے تو پھر اس کا یہ مشغلہ عبادت بھی ہے اور فکری تلذذ(لذت انگیزی) کا سامان بھی۔ واعبد ربك حتى يأتيك اليقين
جزاكم الله خيرا شيخنا