مری زیست بے زار تھی آئنے سے

عبدالکریم شاد شعروسخن

مری زیست بے زار تھی آئنے سے

ملے تم تو بننے لگی آئنے سے


کہوں کیا ترے بعد خلوت کا عالم

گریزاں رہا عکس بھی آئنے سے


انھیں بس جوانی کے آثار کہیے

جو ہونے لگی دوستی آئنے سے


یہ خوش فہمیاں دور ہو جائیں گی سب

ذرا بات کرنا کبھی آئنے سے


قصیدہ لکھا ایک پتھر کا اس نے

اور اس بات پر داد لی آئنے سے


وہی راز داں اور منصف وہی ہے

کریں بات کیا ہم کوئی آئنے سے


سمجھتا تھا میں خود کو تنہا جہاں میں

مجھے کچھ تسلی ملی آئنے سے


یہ چاروں طرف پتھروں کے صنم ہیں

وہ کیا ہو گئے آدمی آئنے سے


نظر چاہیے دیکھنے کے لیے شاد!

نکلتی ہے اک روشنی آئنے سے

آپ کے تبصرے

3000