کوئی تو ہوگا جو سمجھے گا قیامت کی زباں

شمس الرب خان شعروسخن

کوئی تو ہوگا جو سمجھے گا قیامت کی زباں

چشمِ نمناک میں پانی نہیں آتش ہے جواں


خوش نہ ہو گر مری گردن پہ ترا ہے خنجر

تیری نسلوں کی قضا ہے مری آنکھوں میں عیاں


مجھ کو معلوم ہے ظالم کی عمر کتنی ہے

جب پرایا ہوا مظلوم سے بس خوفِ زیاں


شیخ جتنے بھی تھے سب سوئے شوالہ دوڑے

اک برہمن نے دیا ہے کسی مندر میں اذاں


مجھ کو نہ ہو کے بھی ہونے کا یقیں حاصل ہے

تجھ کو ہو کر بھی میسر نہیں ہونے کا گماں


پھوس کی کٹیا میں رہ کر بھی رہوں گا بے خوف

تجھ کو پتھر کے محل میں بھی ملے گی نہ اماں


شمسؔ کی چھوڑ وہ ڈوبا بھی تو نکلے گا کبھی

تجھ کو پھر موت کبھی زندگی دے گی نہ یہاں

آپ کے تبصرے

3000