کالا قانون

عبدالکریم شاد شعروسخن

ظلم کا بول بالا نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


مے کدے کا نظام اس سے ہوگا خراب

ساقیو! مے کشوں پر نہ ڈالو عذاب

پیش کرتے ہو جس کو بتا کر شراب


زہر کا یہ پیالہ نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


امن و اصلاح کی بات کرتے ہو تم

جہل کے آئنے میں سنورتے ہو تم

کوئی پتھر دکھائے تو ڈرتے ہو تم


ایسا قائد نرالا نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


ہم کو دھوکا نہ دو شیریں گفتار سے

گل کی تشبیہ دیتے ہو تم خار سے

تم جو پہنا رہے ہو بڑے پیار سے


نفرتوں کی یہ مالا نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


تم کو اوج و ترقی سے مطلب نہیں

کیا سیاست کا کوئی بھی مذہب نہیں

خوب جھیلا ہے تم کو مگر اب نہیں


پھر کوئی دیو مالا نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


تم سمجھتے ہو اپنی زمیں کو فلک

دل میں رکھتے ہو کیا جانے کیسی کھٹک

تم شکر کی جگہ ڈالتے ہو نمک


ایسا کھارا پیالہ نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


ہاتھ اک دوسرے سے ملاتے ہیں ہم

بانٹ لیتے ہیں مل کر خوشی ہو کہ غم

ساتھ نکلے ہیں لے کر وطن کا علم


ہم کو ہاتھوں میں بھالا نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


ہم ہیں بھارت کے سچے سپاہی سنو!

کیسے ثابت نہ ہو بے گناہی سنو!

ذرے ذرے نے دی ہے گواہی سنو!


تم سے کوئی حوالہ نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


راز سربستہ لاشوں کے ڈھیروں میں ہے

زہر تو آج کل کے سپیروں میں ہے

روشنی کی ضرورت اندھیروں میں ہے


یعنی دن میں اجالا نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے


شاد! جوشِ جنوں میں یہی دل کہے

آنکھ گیلی نہ ہو خوں بہے تو بہے

بھوک سے پیٹ چاہے ٹڑپتا رہے


ذلتوں کا نوالہ نہیں چاہیے

ہم کو قانون کالا نہیں چاہیے

آپ کے تبصرے

3000