شاعری

خان اختر جاوید ادبیات

وقت اور حالات کی ستم ظریفی دیکھیں یا پھر کچھ کم ظرف اور ظلم انگیز گجراتیوں کی ستم رانی کہ آج ایک مشرع شخص بھی بڑے شوخ اور خشوع کے ساتھ پڑھتا ہے “ہم اہلِ صفا مردودِ حرم”
کیا وہ بھی میری طرح اس کا مطلب نہیں سمجھتا؟ یا پھر فیض کے کلام کی تاثیر ہی کچھ ایسی ہے کہ ایسے روح فرسا حالات میں انسان بے ساختہ گنگنانے لگتا ہے۔
فیض ہمیشہ رائٹ ونگ کے سینوں پر مونگ دلتے رہے، جب تک زندہ رہے زیادہ تر زنداں میں یا غریب الوطنی کی زندگی گزاری۔ مرنے کے بعد بھی بھارتی شدت پسندوں کے دلوں پر چھریاں پھیر رہے ہیں۔ “جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے” سنتے ہی انہیں اپنا انجام نظر آنے لگتا ہے۔فیض کی شاعری کا بڑا وصف یہ ہے کہ ان کی شاعری میں رومان اورانقلاب کی ایک بہت ہی خوبصورت آمیزش ہے بلکہ یوں کہہ لیں دونوں ایک ہی پیکر میں یکجا ہیں “جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے” لیکن سڑیل مزاج شدت پسند بھلا کیا جانیں رومانس کیا ہے، ان کے چہرے کی رعونت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وحشی فطرت ہیں۔ محبت، وفا، پیار اور انسانیت سے انہیں نفرت ہے اور یہی حال تقریبا دنیا بھرکے بیشتر مذھبی شدت پسندوں کا ہے چاہے وہ طالبان ہوں، اسرائیل کے صہیونی ہوں یا پھر وطنِ عزیز کے جن سنگھی۔ رہ گئی بات انقلاب کی تو انہیں ڈر ہے کہیں یہ محکوم و مظلوم اگر بیدار ہوگئے تو “ان کا کیا ہوگا رے کالیا” لیکن وہ دن دور نہیں کہ “لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے”۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پوئٹری کا بھلا کیا کام؛ وہ ہندوستان کے حالیہ منظر نامے کو دیکھیں یہ پوئٹری ہی ہے جو آج محکوم دلوں کو سردی کی یخ بستہ راتوں میں بھی حرارت پہونچا رہی ہے۔ شاعری سے وحشت کا مطلب انسانیت اور انسانی قدروں سے وحشت ہے۔ شاعری کی افادیت اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک انسانی جبلت میں خیرو شر کی تمیز باقی ہے جس دن یہ تمیز باقی نہ رہے گی شاعری بھی اپنی افادیت کھودے گی۔
حالی نے مقدمہ شعر شاعری میں قدیم ایتھنز کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے:
ایتھنز اور مگارا میں جزیرہ سلیمس کو لے کر کافی جنگیں ہوئیں اور ایتنھز کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی آخر میں تھک ہار کر انہوں نے شکست تسلیم کرلی اور حاکم کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا کہ آئندہ کوئی بھی شخص جنگ پر بات نہ کرے اوراگر کسی نے لڑائی بھڑائی کی بات کی تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ اس وقت ایتنھز کا مشہور شاعر اور مقنن سولن زندہ تھا اسے ایک تو شکست کی ذلت اور اوپر سے شاہی فرمان سخت ناگوار گزار۔ اس نے اپنے آپ کو خود ساختہ پاگل قرار دے دیا اور عوام کے درمیان مجنوں کے نام مشہور ہوگیا۔ اب وہ پاگلوں کی طرح ایتھنز کی گلیوں میں آوارہ پھرتا، لوگوں کو اپنی شاعری کے ذریعہ غیرت دلاتا اورانہیں جنگ پر ابھارتا۔ کچھ دنوں تک ایسا ہی کرتا رہا۔ ایک دن اس نے پرانے کپڑے پہنے، اوپر زرہ چڑھائی اور گلے میں ایک رسی ڈال کر اشعار پڑھتا ہوا اس بلندی کی طرف روانہ ہوا جہاں سے خطباء خطاب کیا کرتے تھے۔ عوام بھی اس کے پیچھے ہولیے وہ بلندی پر چڑھا اور کچھ ایسے درد انگیز اشعار پڑھے کہ ایتنھز کے لوگ اپنے گھروں سے ہتھیار لے کر نکل پڑے۔ سولن کو اپنا سردار بنایا اور کشتیوں میں سوار ہوکر سیلمس پر چڑھائی کردی۔ کافی خونریزی کے بعد فاتح ہوئے۔
ایک واقعے کا خلاصہ اور پڑھ لیں:
عرب کا مشہور شاعر میمون بن قیس جو نابینا ہونے کی وجہ سے اعشیٰ قیس کہلایا، اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اگر وہ اپنی شاعری میں کس کی ہجو کردے تو معاشرے میں وہ شخص ذلیل و خوار ہو، گر کسی کی مدح کر دے وہ باعثِ عزوشرف ٹہرے۔ ایک روز اس کی خدمت میں ایک بوڑھی خاتون حاضر ہوکر کہنے لگی: اعشیٰ! ہمارے گھر لڑکیاں بہت ہیں اور ان کے بَر نہیں ملتے تم اپنے قصیدے میں لڑکیوں کے حسن وجمال کی تعریف کردو تاکہ رشتے آنے میں آسانی پیدا ہو۔ اعشیٰ نے ان لڑکیوں کی تعریف میں کچھ قصیدے لکھے۔ اب اس کا اثر کیا ہوا؟ لڑکیوں کے حسن وجمال کے چرچے عربوں میں زبان زد عام ہوگئے، شرفا کے یہاں سے رشتے آنے شروع ہوگئے۔ مروی ہے کہ وہ خاتون جب اپنی کسی ایک بیٹی کی شادی کرتی تو ایک اونٹ بطورِ انعام اعشیٰ کو ہدیہ کرتی۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد ایوب خان

ماشاءاللہ

محمد ایوب خان

Ji jawed Akhtar Bhai. Shairi ki afadiyat Ka inkari to nadaan hi Hoga.
Waise apke k zikr kiye huwe dono waqiyat se aap k fikr ki taeed Hoti hai.

Allah kare zor e Qalam aur zyada