ہر بشر کے ہونٹوں پر زیست کا فسانہ ہے
موت کی حقیقت سے بے خبر زمانہ ہے
گرچہ خود شکاری کے دام کا نشانہ ہے
پھر بھی ہر پرندے کو فکر آب و دانہ ہے
زندگی کے کچھ ساماں مل گئے ہیں زنداں میں
لوگ یہ سمجھ بیٹھے اُن کا آشیانہ ہے
گھوم پھر کے آتے ہیں تیرے در پہ دیوانے
ورنہ ان کا دنیا میں اور کیا ٹھکانہ ہے
امتحان آنکھوں کا لے رہا ہے اک منظر
پیرہن ہے مردانہ اور بدن زنانہ ہے
یوں ہی سارے دیوانے کھوج میں نہیں پھرتے
دشت میں چھپا کوئی عشق کا خزانہ ہے
سن ہر ایک لمحے سے آ رہی ہے اک آواز
دیکھ موت کی جانب زندگی روانہ ہے
چال سے زمانے کی ہوش یار ہو جاؤ
ظالموں کے ہونٹوں پر امن کا ترانہ ہے
شاد بات کرتا ہے آج بھی محبت کی
اس کی بات کیا کیجے, وہ تو اک دوانہ ہے
واہ بہت خوب جناب
سچی غزل کہی آپ نے
جزاک اللہ خیرا