منفی سوچ اب کیجریوال کے خلاف

کمال الدین سنابلی سیاسیات

نبض شناسی کا نام سیاست ہے، صاف و شفاف راجنیتی میں غنڈوں کا مقابلہ کرنے کے لیے غنڈہ نہیں بنا جاتا بلکہ غنڈوں کو دھول چٹانے کے لیے اپنا صاف ستھرا کردار عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ کیجریوال نے دہلی کی سیاست میں یہی کیا ہے، انھوں نے گولی اور ڈنڈے کی سیاست نہیں کی، ہندو مسلم لڑاؤ کی راجنیتی نہیں کی، بلکہ ان تمام جھمیلوں سے خود کو دور رکھ کر ایمانداری کے ساتھ دہلی میں فلاح و بہبود کے کام کرکے عوام کا دل جیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کے حالیہ چناؤ میں بی جے پی کی طرف سے ہند و مسلم نفرت کا ماحول بنانے کی تمام تر کوششوں اور مندر مسجد، کرنٹ، شاہین باغ، پاکستان، دیش دروہی، آتنک واد، بریانی، ٹکڑے ٹکڑے گینگ جیسے بھڑکاؤ شوشوں کے باوجود دہلی کی عوام نے عام آدمی پارٹی پر اعتماد کیا اور عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کے مقابلے میں 70 میں سے 62 سیٹوں کے ساتھ شاندار فتح حاصل ہوئی ہے اور 48 سیٹوں کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی محض 8 سیٹوں کے دائرے میں قید ہوکر رہ گئی۔

لیکن کچھ لوگوں کو عام آدمی کی یہ فتح ہضم نہیں ہو رہی، اللہ نے لکھنے کا ہنر دیا تو جملوں کا جال بن کر اب کیجریوال کے خلاف لکھنا شروع کر دیا، مخالفین کو الگ الگ کیٹگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، کچھ کو تو واقعی شکایت تھی، کچھ سوشل میڈیا پر بے صفحے کے الزامات پڑھ کر غلط فہمی کے شکار ہو گئے تھے، اور کچھ وہ ہیں جنھیں “پکّے کانگریسی” کہا جاتا ہے، ان کی طرف سے کانگریس کے علاوہ کسی بھی پارٹی کی حمایت و مخالفت کانگریس کے حساب سے ہوتی ہے، کانگریس کہے لیٹ جاؤ تو یہ لیٹ جائیں، کانگریس کہے بیٹھ جاؤ تو یہ بیٹھ جاتے ہیں، وہ کہے کھڑے ہو تو کھڑے، چلو تو چلیں، رکو تو رکیں، کہے بولو تو بولیں، وہ کہے چپ رہو تو یہ چپ رہیں۔ کیجریوال نے ہنومان چالیسا پڑھ دیا تو اس میں کیڑے، جیت کے بعد اپنے پہلے بھاشن میں بھارت ماتا کی جئے بول دیا تو اعتراض، کیونکہ کانگریس کا کیجری سے اتحاد نہیں ہے، لیکن شوسینا مسجد توڑنے کا کریڈٹ لے، مندر بنانے کے لیے ایودھیا کا سفر کرے، جیت کے بعد ادھو ٹھاکرے شپتھ لینے بھگوا کپڑے پہن کر جائیں تو کوئی بات نہیں، سب چلتا ہے، کیوں؟ کیونکہ کانگریس نے شوسینا سے اتحاد کر لیا ہے، اس لیے بی جے پی کو دھول چٹانے کے لیے اتنا کمپرومائز تو کرنا پڑتا ہے۔

باتیں بہت ہیں، سب کا جواب نہیں دینا اور دیا بھی نہیں جا سکتا، ہندستانی ماحول میں کسی بھی پارٹی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ پوری طرح سے مسلم نمائندگی کرے اور بس “توحید” پر قائم رہے، احمقانہ امید اور طفلانہ مطالبہ ہے، لیکن پھر بھی ہم چند غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔



کیجریوال پر سب سے بڑا لیکن سب سے بودا الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے NRC – CAA کے خلاف کچھ نہیں بولا، یہ سراسر جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کیجریوال اول دن سے اس کالے قانون کے خلاف ہیں اور سی اے اے – این آر سی کے خلاف ایک بار نہیں کئی بار آواز اٹھائی ہے، بغیر علم کے الزام لگا دیا کہ کیجریوال یا کیجریوال کی پارٹی والے یہ کبھی نہیں کہتے کہ اس بل کو واپس لے لو تو شاہین باغ کا احتجاج خود بخود ختم ہو جائے گا، بلکہ پولس کے زور پہ احتجاج کو ختم کروانے کی بات کرتے ہیں، یہ عام آدمی پارٹی کے بی جے پی کا جال واپس بی جے پی کی طرف پھینک دینے کی حکمت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ در اصل بی جے پی شاہین باغ روڈ جام کا ٹھیکرا عام آدمی پارٹی کے سر پھوڑ کر ووٹ حاصل کرنے کی گندی راجنیتی کرنا چاہتی تھی اور یہ دکھلانا چاہ رہی تھی کہ عام آدمی سرکار راستہ نہیں کھلوا رہی، ہماری سرکار بنی تو ایک گھنٹے میں شاہین باغ خالی کروا دیں گے، لیکن عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کی اس چال کو یہ کہہ کر ناکام کر دیا کہ دہلی پولس تو سینٹر کی بی جے پی سرکار کے ماتحت آتی ہے۔ اسی سے بھائی لوگوں نے پتہ نہیں کیا کیا اخذ کر لیا بلکہ اپنی طرف سے وہ جملے پھیلانے لگے جو عام آدمی نے کبھی بولے ہی نہیں، بلکہ Times Now پر سی اے اے – این آر سی – شاہین باغ پر جب کیجریوال کا انٹرویو ہوا اور اینکر نے کہا کہ شاہین باغ والوں نے روڈ بلاک کر رکھا ہے، آپ کیوں نہیں کھلواتے؟ تو کیجریوال نے کہا کہ یہ بتائیے وہ روڈ جام کر کیوں رہے ہیں؟ سی اے اے کی وجہ سے؟ بتائیے سی اے اے – این آر سی لانے کی آخر ضرورت کیا تھی؟ اور اسی انٹرویو میں بہت کھلے لفظوں میں کہا کہ سرکار CAA-NRC کو واپس لے لے، سارے مظاہرین ابھی اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔ بتائیے اتنے واضح الفاظ کے بعد اب آپ کیا چاہتے ہیں؟ یہ کہ کیجریوال شاہین باغ میں جاکر دھرنے پر بیٹھ جائے اور تب تک بیٹھا رہے جب تک یہ قانون واپس نہ لے لیا جائے، مطلب جس جال میں بی جے پی عام آدمی کو پھانسنا چاہتی ہے کہ عام آدمی پارٹی کی وکاس کی چھوی نہ دیکھ کر لوگ شاہین باغ کے پردرشن کاری کے روپ میں انھیں دیکھیں، وہی آپ چاہتے ہیں، بھائی صاحب! شاہین باغ ان کا جانا ضروری نہیں، وہ جے این یو بھی نہیں گئے، لیکن Times Now جیسے چینلز پر اس کالے قانون کے خلاف انھوں نے پرزور انداز میں آواز اٹھائی ہے، جہاں سے انھیں عام آدمی سے لے کر کریم لوگوں تک، سب نے سنا ہے (ویڈیو کا مطالبہ آپ ہم سے کر سکتے ہیں)

 

الزام ہے کہ مسلم علاقوں میں کام نہیں کیا، یہ بھی غلط ہے، اگر مسلم علاقوں میں کام نہیں کیا ہوتا تو عام آدمی پارٹی کے مسلم لیڈران مسلم علاقوں سے جیت کر نہیں آتے، سیور لائن، بجلی، پانی روڈ، علاج، محلہ کلینک، سی سی ٹی وی کیمروں سے سیکورٹی، یہ مسلم و غیر مسلم سب علاقوں میں کام ہوا ہے، اگر آپ کو دِکھ رہا ہے کہ کچھ مسلم علاقوں میں بہت زیادہ کام نہیں ہوا ہے تو بہت سے غیر مسلم علاقوں میں بھی بہت زیادہ کام نہیں ہوا ہے، اس کا تعلق مسلم و غیر مسلم سے نہیں، کام کی ایک عام رفتار سے ہے، ابھی اقتدار کی ایک ہی مدت تو پوری ہوئی ہے، رفتہ رفتہ دِلّی کے سارے علاقوں میں کام نظر آئے گا، اتنا وقت تو لگتا ہے، بالخصوص تب جبکہ ایک ساتھ پارٹی نے کئی ترقیاتی کام شروع کر رکھے ہوں، البتہ بجٹ پاس ہونے اور کیجریوال کی طرف سے فنڈ پہنچ جانے کے باوجود عام آدمی کے کچھ لیڈران نے سستی و کاہلی میں یا عمداً کام نہیں کروایا، اسی وجہ سے کام نہ کرنے والے اپنے ان ناکارہ لیڈروں کا ٹکٹ اس بار کیجریوال نے کاٹ دیا اور نئے لوگوں کو ٹکٹ دیا، اس کے علاوہ 200 یونٹ بجلی کا فائدہ سارے مسلم بھی اٹھا رہے ہیں، محلہ کلینک اور ہسپتالوں میں علاج کا لابھ سارے مسلم بھی اٹھا رہے ہیں، بسوں میں مفت سفر سے مستفید ساری مسلم خواتین بھی ہو رہی ہیں، پرائیویٹ اسکولوں کی فیس غیر مسلم و مسلم کسی علاقے کی نہیں بڑھنے دی گئی ہے، اور آہستہ آہستہ سرکاری اسکول بھی پوری دلی کے اچھی کنڈیشن میں آ جائیں گے، اس کے پاس جادو کی چھڑی نہیں ہے لیکن وکاس اور فلاح و بہبود کی سیاست کو ہندستان میں متعارف کروانے کا ایک عزم ہے، ایک جوش ہے، اسی انداز سیاست کو دیکھ کر مہاراشٹر سرکار 100 یونٹ بجلی فری کا منصوبہ بنا رہی ہے، ممتا بنرجی بھی اعلان کر رہی ہیں، جھارکھنڈ بھی دلی کو فالو کر رہا ہے۔



یہ تو وہ باتیں ہوئیں جو ہم پبلکلی کہتے ہیں، مسلموں کے لیے دلی میں کچھ کام ایسے ہوئے ہیں جن کا ہم ڈنکا بجانا نہیں چاہتے لیکن بات نکلی ہے تو اب اردو زبان میں سن لیجیے، پہلے دہلی وقف بورڈ سے صرف وقف بورڈ کی قریب 300 مسجدوں کو تنخواہ ملتی تھی، لیکن کیجریوال سرکار نے وقف بورڈ کے علاوہ عام مسجدوں کے لیے بھی تنخواہیں شروع کر دی ہیں اور اب دہلی کی تقریباً 1500 مساجد کے ائمہ و مؤذنین کو 26/ہزار روپیے تنخواہ جاتی ہے، ہر مسجد کے امام کو 16/ہزار اور مؤذن کو 14/ہزار (وقف کی مساجد کے لیے 36/ہزار ہے، ابھی بیچ میں کسی وجہ سے تین ماہ کا وقفہ ہوا ہے لیکن خبر ہے کہ جلدی ہی پھر شروع ہو جائے گی) آپ کہہ سکتے ہیں اور آپ کو کہنے کا حق ہے کہ کیجریوال یہ تنخواہیں اپنی جیب سے تھوڑی دے رہا ہے؟ دلّی وقف بورڈ کا پیسہ ہے، مسلمانوں کو جا رہا ہے تو اس میں کیجریوال کا کیا احسان؟ لیکن اس معاملے میں بھی عام آدمی پارٹی کے رول کو آپ کا پوری طرح سے خارج کر دینا صحیح نہیں ہے، ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ دہلی وقف بورڈ اگرچہ الگ مستقل ادارہ ہے لیکن دہلی حکومت کے ماتحت ہے، وقف بورڈ منصوبہ بنا سکتا ہے لیکن دہلی حکومت کی منظوری کے بغیر اسے لاگو نہیں کر سکتا، دہلی وقف بورڈ کو دلّی سرکار کی منظوری لینی ہوتی ہے، بلکہ وقف بورڈ کا چئیرمین بھی دّلی سرکار ہی منتخب کرتی ہے، امانت اللہ خان عام آدمی پارٹی کے نیتا ہیں اور عام آدمی پارٹی ہی نے انھیں دہلی وقف بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا ہے، بے شک امانت اللہ خان صاحب بھی قابلِ تعریف ہیں کہ وہ وقف بورڈ کے پیسے کا صحیح استعمال کر رہے ہیں لیکن ان کے لیے ان کی پارٹی عام آدمی اور وزیراعلیٰ کیجریوال کی منظوری کے بعد ہی یہ سب ممکن ہو پایا ہے۔

رہا یہ معاملہ کہ کیجریوال نے بھارت ماتا کی جئے کیوں بول دی، ہنومان چالیسا کیوں سنا دیا، تو میرے موحد بھائیو! کچھ سوچ سمجھ کر اعتراض کرو، بھلا اس میں اعتراض والی کون سی بات ہے؟ ہم مسلمان ہیں، ہم اپنے عقیدے کے اعتبار سے بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم نہیں بول سکتے، لیکن کیجریوال ہندو ہے، اس کے لیے یہ نارمل جملے ہیں، اگر وہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ایک نعرہ “بھارت ماتا کی جئے” وہ ہے جو بی جے پی مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر لگاتی ہے اور ایک نعرہ “بھارت ماتا کی جئے” وہ ہے جو دّلی میں ترقیاتی کام اور بھائی چارے کی سیاست کرکے ہم لگاتے ہیں تو بتاؤ دیش واسیوں تمھیں کون سا نعرہ پسند ہے؟ یہ نعرہ لگا کر بھی تم ہمارے ساتھ چل سکتے ہو، یہ نعرہ لگانے کے لیے تمھیں نفرت کے ان سوداگروں کے ساتھ چلنا ضروری نہیں ہے جو ہندو مسلم کو لڑانے کی بات کرتے ہیں، بھارت ماتا کی جئے بولنا نان مسلم ہونے کی حیثیت سے کیجریوال، سنجے اور منیش کے لیے نارمل چیز ہے لیکن وہ آپ کو مجبور نہیں کر رہے کہ آپ بھی وہی نعرہ لگاؤ، لہٰذا اس کے مندر میں ماتھا ٹیکنے اور ہنومان چالیسا پڑھنے پر میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آپ کو اعتراض کیا ہے؟ راہل گاندھی جی بھی الیکشن کے زمانے میں مندر مندر گھوم چکے ہیں نا؟ اس وقت قلم میں روشنائی نہیں تھی کہ راہل اورو پرینکا کے مندر مندر جانے کی مخالفت میں لکھتے؟ یادداشت کمزور تو نہیں ہونی چاہیے؟ مسلمانوں کے لیے اہم یہ ہونا چاہیے کہ وہ مسلم مخالف نہیں ہے، بلکہ قریب ہے، پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی قربانیوں پر عام آدمی کے سنجے سنگھ کی وہ تقریر تو آپ کو ابھی بھی یاد ہوگی جس پر آپ نے بھی خوب تالیاں بجائی تھیں کہ واہ کیا بولا ہے، اسی سب سے پارٹی کا موقف سمجھا جاتا ہے، اب شاہین باغ جاکر تو نہ کیجری بیٹھے، نہ راہل جی، نہ سونیا، نہ پرینکا، نہ اکھلیش بھیا، نہ تیجسوی، نہ ممتا دیدی اور نہ وہ کہ جس کی ایک چھپاک پہ آپ فدا تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم تو دیکھیں گے، چھپاک چھپاک دیکھیں گے، وہ بھی جے این یو گئی تھی، شاہین باغ اور جامعہ نہیں، فلائٹ کے زمانے میں اب یہ نہ کہنا کہ دلی دور ہے، پھر ان میں سے بہت سے سورما تو یہیں دہلی ہی میں رہتے ہیں، یہ باتیں ہم نے بس سمجھانے کے لیے کہی ہیں، ورنہ ہمارے جامعہ اور شاہین باغ والے انھیں بلانے کے لیے ترس نہیں رہے ہیں، الحمد للہ روزانہ ملک کے چپے چپے سے مسلم اور غیر مسلم، بڑے بڑے نامور لوگ جامعہ اور شاہین باغ سپورٹ کے لیے آتے جاتے رہتے ہیں۔




مختصر یہ کہ منفی سوچ اور تنگ نظری سے ہمیں نکلنا ہوگا، بے شک آپ پکے کانگریسی رہیں لیکن دہلی میں اب وہ صفر ہے، تو ایک اچھی پارٹی کی بنیاد پر دلی میں عام آدمی پارٹی کا سپورٹ کرنا چاہیے، بالکل اسی طرح جیسے بنگال میں دیدی کا سپورٹ کرتے ہیں اور باقی صوبوں میں بھی وہاں کی پارٹیوں کا بی جے پی کی نفرت بھری سیاست کے مقابلے میں ساتھ دیتے ہیں کہ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ اب دیش کی پارٹیاں گجرات ماڈل کے بجائے دہلی ماڈل کو اپنے اپنے صوبوں میں لاگو کرنے کا سوچ رہی ہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Salahuddin

ماشااللّہ شاندار تحریر ! بہترین جواب ، سوچ رہا تھا کہ خود کچھ لکھوں لیکن آپ نے کام کر دیا مبارک باد کے مستحق ہیں آپ ایک بات کا اضافہ کرنا چاہونگا وہ یہ کہ جو 8 سیٹیں بی جے پی نے جیتی ہیں ان میں سے 6 سیٹ جمنا پار کی ہیں اس کے علاوہ منیش سیسو دیا کو مشکل سے جیت ملی یہ سب ان کے اسی ایک بیان کا نتیجہ ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ میں شاہین باغ کے ساتھ کھڑا ہوں – یہی ایک بیان نہ دیا ہوتا تو 6 سیٹ اور آ… Read more »