رنگینیوں کو دیکھ کے تو خوش گماں نہ ہو

عبدالکریم شاد شعروسخن

رنگینیوں کو دیکھ کے تو خوش گماں نہ ہو

یہ بھی تری نظر کا کوئی امتحاں نہ ہو


ظالم کو اپنی فتح و ظفر کا گماں نہ ہو

“بہتر یہی ہے لب پہ کسی کے فغاں نہ ہو”


آتش زنی کا طرز نرالا ہے آج کل

دل کو جلا کے کہتے ہیں اس میں دھواں نہ ہو


بچپن میں دیکھتے تھے جوانی کے خواب ہم

اور اب یہ سوچتے ہیں کہ بچہ جواں نہ ہو


ہم نے جو دل کو سنگ کی صورت بنا لیا

یہ خوف ہے کہ بارِ محبت گراں نہ ہو


سو مرگ ناگہاں! مری خواہش فضول تھی

میں جس جگہ رہوں مرا قاتل وہاں نہ ہو


تفتیش کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کر

ممکن ہے جس کا تیر ہو اس کی کماں نہ ہو


کہتے ہیں قلب کے در و دیوار چیخ کر

اک پل کو بھی مکین سے خالی مکاں نہ ہو


مدت سے دشت میں کوئی مجنوں نہیں گیا

ایسا نہ ہو کہ عشق کا نام و نشاں نہ ہو


رکھتا ہوں اپنے لب پہ تبسم کا میں حجاب

ڈرتا ہوں میرا درد کسی پر عیاں نہ ہو


مانا کہ موج رنگ بدلتی ہے بار بار

لیکن یہ کیا کہ زیست کا دریا رواں نہ ہو


اے دل! ہزار عقل کرے کوششیں مگر

خود سے کسی بھی حال میں تو بد گماں نہ ہو


جو بات بھی زبا‍ں سے نکالو یہ دیکھ لو

اے شاد! آس پاس کوئی نکتہ داں نہ ہو

آپ کے تبصرے

3000